Mutaliya-e-Quran - Al-Haaqqa : 44
وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِۙ
وَلَوْ تَقَوَّلَ : اور اگر بات بنا لیتا۔ بات گھڑ لیتا عَلَيْنَا : ہم پر بَعْضَ : بعض الْاَقَاوِيْلِ : باتیں
اور اگر اس (نبی) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی
[وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا : اور اگر وہ غلط منسوب کرتے ہم پر ][ بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ : باتوں کی کوئی (بات)] نوٹ۔ 3: آیات۔ 44 تا 47 ۔ میں ایک خاص واقعہ کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اگر خدانخواستہ معاذ اللہ رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے تو آپ کے ساتھ یہ معاملہ کیا جاتا۔ اس میں کوئی عام ضابطہ بیان نہیں کیا گیا کہ جو شخص بھی نبوت کا جھوٹا دعوٰی کرے، ہمیشہ اس کو ہلاک ہی کردیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعوٰی کیا لیکن ان پر کوئی ایسا عذاب نہیں آیا۔ (معارف القرآن) اس کی مثال یوں سمجھو کہ جس طرح بادشاہ ایک شخص کو کسی منصب پر مامور کر کے اور سند و فرمان وغیرہ دے کر کسی طرف روانہ کرتے ہیں۔ اب اگر اس شخص سے اس خدمت میں کچھ خیانت ہوئی یا بادشاہ پر کچھ جھوٹ باندھنا اس سے ثابت ہوا تو اسی وقت بلاتوقف اس کا تدارک کرتے ہیں۔ لیکن اگر سڑک کوٹنے والا مزدور یا جھاڑو دینے والا بھنگی بکتا پھرے کہ گورنمنٹ کا میرے لیے یہ فرمان ہے یا میرے ذریعہ سے یہ احکام دیئے گئے ہیں، تو کون اس کی بات پر کان دھرتا ہے اور کون اس کے دعوئوں سے تعرض کرتا ہے۔ بہرحال آیت ہذا میں حضور کی نبوت پر استدلال نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بتلایا گیا ہے کہ قرآن کریم خالص اللہ کا کلام ہے جس میں ایک حرف یا ایک شوشہ بھی نبی کریم ﷺ اپنی طرف سے شامل نہیں کرسکتے اور نہ آپ کی یہ شان ہے کہ کوئی بات اللہ کی طرف منسوب کردیں جو اس نے نہ کی ہو۔ تورات سفر استثناء کے اٹھارویں باب میں بیسواں فقرہ یہ ہے، لیکن وہ نبی ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ ہی قتل کیا جائے۔ “ (ترجمہ شیخ الہند) مورخہ 17 ۔ صفر 1431 ھ بمطابق 2 ۔ فروری 2010 ء
Top