Al-Qurtubi - Yunus : 4
اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا١ؕ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا١ؕ اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ
اِلَيْهِ : اسی کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہارا لوٹ کر جانا جَمِيْعًا : سب وَعْدَ : وعدہ اللّٰهِ : اللہ حَقًّا : سچا اِنَّهٗ : بیشک وہی يَبْدَؤُا الْخَلْقَ : پہلی بار پیدا کرتا ہے ثُمَّ : پھر يُعِيْدُهٗ : دوبارہ پیدا کریگا لِيَجْزِيَ : تاکہ جزا دے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک (جمع) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَفَرُوْا : کفر کیا لَھُمْ : ان کے لیے شَرَابٌ : پینا ہے (پانی) مِّنْ : سے حَمِيْمٍ : کھولتا ہوا وَّعَذَابٌ : اور عذاب اَلِيْمٌ : دردناک بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : وہ کفر کرتے تھے
اسی کے پاس تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ وہی خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے۔ اور جو کافر ہیں ان کے لئے پینے کو نہایت گرم پانی اور درد دینے والا عذاب ہوگا کیونکہ (خدا سے) انکار کرتے تھے۔
آیت نمبر : 4 : قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الیہ مرجعکم “۔ یہ مبتدا ہونے کے سبب مرفوع ہے۔ (آیت) ” جمیعا “ یہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اور رجوع الی اللہ کا معنی اس کی جزا کی طرف لوٹنا ہے۔ (آیت) ” وعداللہ حقا “۔ یہ دونوں مصدر ہیں، یعنی وعداللہ ذالک وعدا وحققہ، حقا، صدقا لا خلف فیہ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرما رکھا ہے اور اس نے اسے سچ ثابت کیا ہے اس میں اس کا خلاف قطعا نہیں۔ اور ابراہیم بن ابی عبلہ نے (آیت) ” وعداللہ حق “۔ پڑھا ہے اور اس استیناف پر محمول کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” انہ یبدؤاالخلق “۔ بیشک وہی مٹی سے پیدائش کی ابتداء کرتا ہے، (آیت) ” ثم یعیدہ “۔ پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے گا۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : وہی اسے پیدا کرتا ہے پھر وہی اسے مارتا ہے اور پھر دوبارہ اٹھانے کے لیے اسے زندہ کرے گا (1) بے شک وہی اسے پانی سے پیدا کرتا ہے پھر اسے ایک حال سے دوسرے حال کی طرف لوٹاتا ہے۔ یزید بن قعقاع نے (آیت) ” انہ یبدا الخلق “ پڑھا ہے اس میں ان محل نصب میں ہوگا، ای وعدکم انہ یبدا الخلق “۔ (کیونکہ وہی پیدائش کی ابتداء کرتا ہے) جیسے کہا جاتا ہے : لبیک ان الحمد والنعمۃ لک اور اس میں کسرہ عمدہ ہے اور فراء نے جائز قرار دیا ہے کہ ان محل رفع میں ہو اور وہ اسم ہو۔ احمد بن یحییٰ نے کہا ہے : تقدیر کلام یہ ہوگی حقا ابداؤہ الخلق اس کی پیدائش کی ابتداء کرنا حق ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لیجزی الذین امنوا وعملوا الصلحت بالقسط “۔ تاکہ وہ انہیں عدل کے ساتھ جزا دے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔ (آیت) ” والذین کفروا لھم شراب من حمیم “۔ یعنی کافروں کے لیے ایسا گرم پانی ہوگا جس کی گرمی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوگی، الحمیمۃ بھی اسی کی مثل ہے۔ کہا جاتا ہے : حممت الماء احمہ فھو حمیم، ای محموم، یہ فعیل بمعنی مفعول ہے۔ (سخت گرم کیا ہوا) اور عربوں کے نزدیک ہر گرم کی ہوئی شی حمیم کہلاتی ہے۔ (آیت) ” و عذاب الیم “۔ یعنی انکے کفر کے سبب (یہ عذاب ہوگا) بڑے بڑے قریش یہ اعتراف کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے، پس ان کے خلاف اس سے استدلال کیا ہے اور فرمایا ہے : جو ابتداء پر قادر ہے وہ فنا کرنے کے بعد یا اجزاء کو متفرق کرنے کے بعد دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے۔
Top