Al-Qurtubi - Hud : 6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : سے (کوئی) دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي : میں (پر) الْاَرْضِ : زمین اِلَّا : مگر عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ رِزْقُهَا : اس کا رزق وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مُسْتَقَرَّهَا : اس کا ٹھکانا وَمُسْتَوْدَعَهَا : اور اس کے سونپے جانے کی جگہ كُلٌّ : سب کچھ فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : روشن کتاب
اور زمین پر کوئی چلنے پھر نے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے۔ وہ جہاں رہتا ہے اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔ یہ سب کچھ کتاب روشن میں (لکھا ہوا) ہے۔
آیت نمبر 6 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومامن دآبۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا اس میں ما نافیہ ہے اور من زائدہ ہے اور دابۃ محل رفع میں ہے تقدیر عبارت میں دمادابۃ ہے۔ الا علی اللہ رزقھا، علی بمعنی من ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا رزق ہے اس پر مجاہد کا قول دلالت کرتا ہے کہ رزق میں سے جو کچھ بھی آتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے (3) ۔ ایک قول یہ ہے کہ علی اللہ مراد اللہ کے فضل کے طور پر ہے نہ کہ اس سے وجوب مراد ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس کی طرف سے سچے وعدے کے طور پر ہے۔ اس معنی کا بیان ” سورة النساء “ میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کوئی چیز واجب نہیں۔ رزقھا مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے کہ کو فیوں کے نزدیک صفت ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ آیت کا ظاہر عموم پر دلالت کررہا ہے جبکہ اس کا معنی مخصوص ہے، کیونکہ (دواب) جانداروں میں سے بہت سارے رزق دیے جانے سے پہلے ہی ہلاک ہوگئے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ عام ہے ہر ایک کے بارے میں ہے اور ہر وہ جاندار جس کو ایسا رزق نہ دیا گیا جس کے ساتھ وہ زندگی گزارتا تو اس کی روح کو رزق دیا گیا۔ اور ماقبل کے ساتھ اس کی مناسبت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام کے رزق کی خبر دی اور وہ ذات اس چیز کی تربیت سے غافل نہیں تو اے گروہ کفار ! تمہارے حالات اس پر کیسے مخفی ہوسکتے ہیں اس حال میں کہ وہ تمہیں رزق دیتا ہے ؟ الدابۃ سے مراد ہر وہ حیوان ہے جو رینگ کر چلتا ہے اور حقیقت میں رزق وہ ہے جس کے ذریعے زندہ کو غذا دی جاتی ہے اور اس میں اس کی روح کی بقا اور اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ رزق کا معنی ملک ہونا صحیح نہیں کیونکہ جانروں کو رزق دیا جاتا ہے جبکہ ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں کہ وہ اپنے چارے کے مالک بھی ہیں۔ اسی طرح بچوں کو دودھ بطور رزق دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں کہا جاتا کہ پستان میں دودھ ہے وہ بچے کی ملکیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وفی السماء رزقکم (الذاریات :22) کہ آسمان میں تمہارا رزق ہے حالانکہ آسمان میں ہماری کوئی ملکیت نہیں۔ اور اس وجہ سے بھی کہ رزق اگر ملکیت ہوتا تو جب کوئی آدمی کسی غیر کی ملکیت میں سے کھاتا تو وہ کسی غیر کے رزق میں سے کھاتا حالانکہ یہ محال ہے، کیونکہ بندہ صرف اپنا ہی رزق کھاتا ہے۔ سورة بقرہ میں یہ معنی گزرچکا ہے۔ والحمداللہ۔ کسی آدمی کو کہا گیا : تو کہاں سے کھاتا ہے ؟ تو اس نے کہا : جس نے چکی کو پیدا کیا ہے وہ اپنے پیسنے کے ذریعے دیتا ہے اور وہ ذات جس نے وادیوں کے کناروں کو وسیع کیا وہی رزق پیدا کرنے والا ہے۔ ابوأسید کو کہا گیا کہ تو کہاں سے کھاتا ہے ؟ تو اس نے کہا : پاک ہے وہ ذات اورت اللہ کی ذات اور اللہ سب سے بڑا ہے ! اللہ تعالیٰ کتے کو رزق دیتا ہے تو کیا وہ ابوأسید کو رزق دے گا۔ حاتم الاصم کو کہا گیا : تو کہاں سے کھاتا ہے ؟ تو اس نے کہا : اللہ کی طرف سے، اس کو کہا گیا : اللہ تمہارے لیے آسمان سے دراہم اور دنیار اتارتا ہے ؟ تو اس نے کہا : گویا اس کا صرف آسمان ہے یا یہ زمین بھی اس کی ہے اور آسمان بھی اس کا ہے۔ پس اگر وہ آسمان سے مجھے میرا رزق نہ دے تو وہ اسے زمین میں سے میرے لیے بھیج دیتا ہے اور اس نے یہ شعر پڑھا۔ وکیف اخاف الفقر واللہ رازقی و رازق ھذا الخلق فی العسر ولیسما تکفل بالارزاق للخلق کلھم ولضب فی البیداء والحوت فی البحر اور مجھے فقر کا کیا خوف اس حال میں کہ اللہ میرا رازق ہے اور وہ اس مخلوق کا رازق ہے تنگی اور خوشحالی میں۔ وہ ساری مخلوق کے رزق کا کفیل ہے، وہ گوہ کے رزق کا کفیل ہے اس کے بل میں اور مچھلی کے رزق کا کفیل ہے سمندر میں۔ حکیم ترمذی نے ” نوادرلاصول “ میں اپنی سند کے ساتھ حضرت زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا ہے کہ اشعریوں کی ایک جماعت جو حضرت موسیٰ ، حضرت ابومالک اور حضرت ابو عامر ؓ پر مشتمل تھی۔ جب انہوں نے ہجرت کی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے ساتھ سفر میں جو کھانا تھا وہ ختم ہوچکا تھا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کھانے کا سوال کرنے کے لئے ایک شخص کو بھیجا وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر پہنچا تو انہوں نے ایک آدمی کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا : وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا ویعلم ھا ومستودعھاؕ کل فی کتب مبین اس شخص نے کہا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک اشعریوں کی بہ نسبت چوپایوں کو رزق دینا زیادہ آسان تو نہیں ہے۔ وہ واپس آگیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں گیا اور اس نے اپنے اصحاب سے کہا : تم کو خوشخبری ہو تمہارے پاس مدد آنے والی ہے۔ اس کے اصحاب نے یہی سمجھا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا ہوگا اور آپ نے کھانا بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہوگا، اسی دوران دو آدمی ان کے پاس برتنوں میں کھانا لے کر آگئے جن میں گوشت کا سالن اور روٹیاں تھیں۔ انہوں نے سپرد ہو کر کھانا کھایا، پھر اس شخص نے اپنے بعض اصحاب سے کہا : تم یہ کھانا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤ کیونکہ ہم پیٹ بھر کر کھاچکے ہیں، پھر جب وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ نے ہمارے لیے جو کھانا بھیجا تھا اس سے عمدہ اور لذیذ کھانا ہم نے کبھی نہیں کھایا۔ آپ نے فرمایا :” میں نے تو تمہیں کوئی کھانا نہیں بھیجا “۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس نے کیا کیا تھا اور اپنے اصحاب سے کیا کہا تھا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تم کو اللہ نے یہ رزق دیا تھا “۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : ویعلم مستقرھازمین میں سے جہاں اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ ومستودعھا یعنی وہ جگہ جس میں وہ مرے گا اور اس کو دفن کیا جائے گا۔ یہ بات مقسم نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہی ہے۔ اور ربیع بن انس نے کہا کہ مستقرھا سے مراد اس کی زندگی کے دن ہیں۔ ومستودعھا سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ مرے گا اور جہاں سے اٹھایا جائے گا۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مستقرھا سے مراد رحم (مادر) ہے۔ ومستودعھا سے مراد صلب (باپ) ہے۔ اور ایک قول یہ ہے یعلم مستقرھا سے مراد جنت یا دوزخ میں (ان کا ٹھکانہ ہے) اور مستودعھا سے مراد قید میں (ٹھکانہ ہے) اہل جنت اور اہل دوزخ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد حسنت مستقرا ومقامًا۝(الفرقان) اور سآءت مستقرا ومقامًا۝(الفرقان) اس (معنی) پر دلالت کرتا ہے۔ کل فی کتبٍ مبین یعنی لوح محفوظ میں۔
Top