Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 21
وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِؕ
وَ : اور الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَصِلُوْنَ : جوڑے رکھتے ہیں مَآ : جو اَمَرَ اللّٰهُ : اللہ نے حکم دیا بِهٖٓ : اس کا اَنْ : کہ يُّوْصَلَ : جوڑا جائے وَيَخْشَوْنَ : اور وہ ڈرتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب وَيَخَافُوْنَ : اور خوف کھاتے ہیں سُوْٓءَ : برا الْحِسَابِ : حساب
اور جن (رشتہ ہائے قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کا جوڑے رکھتے اور اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے اور برے حساب سے خوف رکھتے ہیں
آیت نمبر 21 تا 24 قولہ تعالیٰ : والذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل حضرت قتادہ اور اکثر مفسرین کے نزدیک یہ صلہ رحمہ کے بارے میں ظاہر ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ تمام علامات کو بھی شامل ہے۔ ویخشون ربھم ایک قول یہ ہے : قطع رحم کے بارے میں وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں جبکہ ایک قول کے مطابق تمام نافرمانیوں اور گناہوں سے ڈرتے ہیں۔ ویخافون سوء الحساب، سوء الحساب سے مراد یہ ہے کہ حساب میں سختی اور مناقشہ کیا جائے گا اور جس سے تفصیلی حساب سختی سے لیا گیا اسے عذاب دیا (ہی) جائے گا۔ حضرت ابن عباس اور سعید بن جبیر ؓ نے فرمایا : یصلون ما امر اللہ بہ کا معنی تمام کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانا ہے۔ حضرت حسن نے کہا : یہ حضرت محمد ﷺ کے ساتھ صلہ رحمہ کے بارے میں ہے اور چوتھا احتمال یہ بھی ہے کہ نیک عمل کے ساتھ ایمان پر کاربند رہیں، ویخشون ربھم اور ایسے معاملات کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتے ہیں جن کو بجالانے کا اس نے انہیں حکم دیا ہے۔ ویخافون سوء الحساب ان معاملاے کو چھوڑنے کے حوالے سے حساب کی سختی سے ڈرتے ہیں ؛ پہلا قول ان سب اقوال کو شامل ہے۔ باللہ توفیقنا۔ قولہ تعالیٰ : والذین صبروا ابتغآء وجہ ربھم ایک قول کے مطابق یہ جملہ مستانفہ ہے کیونکہ صبروا فعل ماضی ہے لہٰذا یوفون پر اس کا عطف نہیں ہوسکتا۔ اور ایک قول یہ ہے : یہ بھی گزشتہ لوگوں کی ہی صفت ہے۔ اور صفت کبھی لفظ ماضی کے ساتھ جائز ہوتی ہے اور کبھی مضارع کے لفظ کے ساتھ، کیونکہ اس صورت میں معنی یہ ہوگا میں یفعل کذا فلہ کذا جو ایسا کرے گا تو اس کے لیے ایسا ہوگا۔ جب والذین متضمن بمعنی شرط ہے اور شرط میں ماضی، مضارع کے معنی میں ہوتی ہے تو ایسا جائز اور درست ہوگا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے الذین یوفون فرمایا پھر والذین صبروا فرمایا اور پھر اس پر عطف کرتے ہوئے یدرءون بالحسنۃ السیئۃ فرمایا ہے۔ ابن زید نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کیا اور اللہ کی نافرمانی سے صبر کیا۔ عطا نے کہا : انہوں نے مصائب و آلام اور حوادث و نوائب پر صبر کیا۔ ابو عمران جونی نے کہا : جنہوں نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے دین پر صبر کیا۔ واقاموا الصلوٰۃ یعنی انہوں نے نمازوں کو ان کے فرائض سمیت اور ان کے اوقات میں خشوع و خضوع سے ادا کیا۔ وانفقوا مما رزقنھم سرا وعلانیۃ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک اس سے مراد فرض زکوٰۃ ہے۔ اس کے بارے میں سورة ” بقرہ “ میں تفصیلی گفتگو گزر چکی ہے۔ یدرءون بالحسنۃ السیئۃ یعنی وہ برے اعمال کو نیک اعمال کے ذریعے رد کرتے ہیں، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ ابن زید نے کہا : بھلائی کے ذریعے برائی کو روکتے ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر کے نزدیک نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے ہیں۔ ضحاک نے کہا : سلام کے ذریعے فحش کو دور کرتے ہیں۔ جو یبر نے کہا : عفو کے ذریعے ظلم کو روکتے ہیں۔ ابن شجرہ نے کہا : توبہ کے ذریعے گناہ کو دور کرتے ہیں۔ قتیبی نے کہا : بردباری کے ذریعے جاہل کی بےوقوفی کو روکتے ہیں اور بےوقوفی سے مراد برائی اور بردباری سے مراد نیکی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ جب وہ گناہ کا ارادہ کرتے ہیں تو اس سے رجوع کرلیتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں، جبکہ ایک قول کے مطابق : لا الہ اللہ کی گواہی کے ذریعے وہ شرک کو دور کرتے ہیں۔ یہ اقوال ہیں اور تمام کا معنی قریب قریب ہے، پہلا معنی بالعموم سب کو شامل ہے اور اس کی مثال : ان الحسنت یذھبن السیات (ہود : 114) ہے (بےشک نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں) اسی سے نبی کریم ﷺ کا حضرت معاذ ؓ کیلئے ارشاد ہے : اتبع السیئۃ الحسنۃ تمحھا و خالق الناس بخلق حسن گناہ کے بعد نیکی کر یہ اس کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھی طرح معاملہ کر۔ قولہ تعالیٰ : اولئک لھم عقبی الدار یعنی آخرت کی عاقبت اور وہ دوزخ کے بدلے میں جنت ہے۔ اور مستقبل میں دار دو ہی ہوں گے، فرماں بردار کے لیے جنت اور نافرمان کے لیے دوزخ، پس جب اطاعت گزاروں کی صفات کو بیان فرمایا تو لامحالہ طور پر ان کا دار جنت ہی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے : دار سے مراد دار دنیا ہے، یعنی جو انہوں نے اطاعت و فرمانبرداری والے کام کیے ہیں ان کی جزا انہیں دار دنیا میں ہی مل جائے گی۔ قولہ تعالیٰ : جنت عدن یدخلونھا یعنی ان کے لئے سدا بہار باغات ہیں، جنت عدن، عقبی سے بدل ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ عقبی الدار کی تفسیر ہو یعنی لھم دخول جنات عدن کیوں کہ عقبی الدار حدث ہے اور جنت عدن عین، اور حدث اپنے جیسے حدث کی تفسیر بیان کرتا ہے، پس محذوف مصدر مفعول کی طرف مضاف ہوگا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنت عدن مبتدا محذوف کی خبر ہو اور جنت عدن جنت کا درمیانی اور سب سے بڑا حصہ ہے، اور اس کی چھت رحمن کا عرش ہے۔ یہ ابو نصر عبد الرحیم قشیری کا قول ہے اور صحیح بخاری میں ہے : ” جب تم اللہ سے مانگو تو فردوس کا سوال کرو بیشک یہ اوسط الجنۃ اور اعلیٰ الجنۃ ہے، اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں “۔ ہوسکتا ہے جنت عدن بھی اسی طرح ہو، حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ نے فرمایا : جنت میں ایک محل ہے جسے عدن کہا جاتا ہے اس کے اردگرد بروج اور مروج ہیں، اس میں ایک ہزار دروازہ ہے، ہر دروازے پر پانچ ہزار یمنی منقش چادریں ہیں اس میں صرف نبی، صدیق اور شہید ہی داخل ہوسکتے ہیں۔ عدن، عدن بالمکان سے ماخوذ ہے یہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی مکان میں مقیم ہوجائے، اس کا بیان انشاء اللہ سورة ” کہف “ میں آئے گا۔ ومن صلح من ابآئھم وازواجھم وذریتھم، اولئک پر اس کا عطف بھی ہوسکتا ہے، معنی ہوگا اولئک ومن صلح من آبائھم وأزواجھم وذریاتھم لھم عقبی الدار اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یدخلون میں ضمیر مرفوع پر اس کا عطف ہو اور یہ عطف صحیح و عمدہ بھی ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان ضمیر منصوب حائل ہے اور یہ معنی بھی ہوسکتا ہے : یدخلونھا ویدخلھا من صلح من آبائھم یعنی وہ جو نیک ہو، اور نام و نسب کی وجہ سے وہ داخل نہیں ہوں گے، اور ” من “ محل نصب میں بھی ہوسکتا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی : وہ ان نیکوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے اگرچہ ان کے اعمال ان کی طرح نہیں ہوں گے مگر اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ان کی عزت کی وجہ سے انہیں بھی ملا دے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ صلاح یا نیکی، اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہے اور اگر انکے پاس ایمان کے ساتھ ساتھ دیگر نیکیاں بھی ہوں گی تو وہ اپنی طاعات کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے نہ کہ ان کے تابع ہونے کی وجہ سے۔ قشیری نے کہا : اس میں نظر ہے کیونکہ ایمان تو ضروری ہے، پس عمل صالح کی شرط کا قول ایسا ہی ہے جیسا کہ ایمان کی شرط کا قول ہے۔ اظہر یہ ہے کہ یہ صلاح تمام اعمال میں ہے اور معنی یہ ہوگا کہ کل بروز قیامت ان پر نعمت اس طرح مکمل ہوگی کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں سمیت جنت میں جمع ہوں گے، اور ہر انسان اپنے ذاتی عمل کے ذریعے جنت میں داخل نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ جنت جائے گا۔ قولہ تعالیٰ : والملئکۃ یدخلون علیہم من کل باب یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر مہربانی کرتے ہوئے ہدایا اور تحائف کے ساتھ فرشتے ان کے پاس ہر دروازے سے آئیں گے۔ سلم علیکم یعنی وہ کہیں گے : سلم علیکم، قول کو مضمر کردیا یعنی تم آفات اور ابتلاء سے سلامت ہو۔ ایک قول یہ ہے : اگرچہ وہ سلامت اور محفوظ ہیں تاہم یہ ان کے لیے ہمیشہ کی سلامتی کی دعا ہے : یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں سلامت رکھے گا، یہ خبر ہے اور اس کا معنی دعا ہے، اور عبودیت کے اعتراف کو متضمن ہے۔ بما صبرتم یعنی بصبرکم، ما فعل کے ساتھ آئے تو فعل مصدری معنی میں ہوجاتا ہے اور ما کے ساتھ آنے والی با، علم علیکم کے متعلق ہوگی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ محذوف کے متعلق ہو یعنی ھذا الکرامۃ بصبرکم یہ عزت تمہارے صبر کی وجہ سے ہے۔ یعنی جو اللہ کے امر اور نہی پر تم نے صبر کیا، یہ حضرت سعید بن جبیر کا قول ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے دنیا میں فقر پر صبر مراد ہے۔ یہ ابو عمران جونی کا قول ہے۔ ایک قول یہ ہے : اللہ کے راستے میں جہاد پر صبر، جس طرح کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوق میں سے کون جنت میں داخل ہوگا ؟ “ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا : ” وہ مجاہد جن کے ذریعے سرحدیں محفوظ ہوتی ہیں اور جن کے ذریعے ناپسندیدہ کاموں سے بچا جاتا ہے جب ان میں سے کوئی فوت ہوتا ہے اور خود اپنی حاجت کو پورا نہیں کرسکتا تو فرشتے ان کے پاس ہر دروازے سے یہ کہتے ہوئے داخل ہوتے ہیں کہ تم پر تمہارے صبر کی وجہ سے سلامتی ہو پس یہ آخرت کا گھر کیا عمدہ ہے “۔ محمد بن ابراہیم نے کہا : نبی کریم ﷺ ہر سال کے آخر میں شہداء کی قبور پر آتے اور فرماتے : سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار یہی معمول حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ﷺ کا تھا۔ بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : نبی کریم ﷺ شہداء کے پاس آتے، جب دو پہاڑوں کے درمیان گھاٹی میں پہنچتے تو فرماتے : سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار پھر نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ ونہ ایسا کرے، حضرت ابوبکر ؓ کے بعد حضرت عمر ؓ ایسا کرتے اور حضرت عمر ؓ کے بعد حضرت عثمان ؓ ایسا کرتے تھے۔ حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا : بما صبرتم یعنی دنیا کی فضولیات سے، ایک قول یہ ہے : بما صبرتم یعنی طاعت کی ملازمت اور معصیت کی مفارقت پر، یہ معنی فضیل بن عیاض (رح) نے بیان فرمایا ہے۔ ابن زید نے کہا : بما صبرتم یعنی جب کوئی ایسی چیز تم سے بچھڑ جاتی جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہوتے تو اس پر صبر۔ اور بما صبرتم کا ساتواں احتمال یہ ہے کہ شہوات کی اتباع سے صبر۔ حضرت عبد اللہ بن سلام اور حضرت علی بن حسین ؓ سے مروی ہے : جب قیامت کا دن ہوگا تو پکارنے والا پکارے گا کہ صبر والے کھڑے ہوجائیں، تو لوگوں میں سے کچھ کھڑے ہوں گے انہیں کہا جائے گا : تم جنت کی طرف چلے جاؤ، تو فرشتے انہیں ملیں گے اور کہیں گے : کدھر جا رہے ہو ؟ وہ کہیں گے : جنت کی طرف، فرشتے کہیں گے : حساب سے پہلے ؟ وہ کہیں گے : ہاں ! فرشتے کہیں گے : تم کون ہو ؟ تو وہ کہیں گے : ہم صبر والے ہیں، فرشتے کہیں گے : تمہارا صبر کیا تھا ؟ وہ کہیں گے : ہم نے اللہ کی طاعت پر اپنے نفس کو صابر رکھا، اللہ کی نافرمانی سے اسے صابر رکھا اور دنیا میں آزمائش اور امتحان میں اسے صابر رکھا۔ حضرت علی بن حسین ؓ نے فرمایا : فرشتے انہیں کہیں گے : جنت میں داخل ہوجاؤ، عمل کرنے والوں کا کتنا عمدہ اجر ہے۔ ابن سلام نے کہا : فرشتے انہیں کہیں گے : سلم علیکم بما صبرتم۔ فنعم عقبی الدار۔ یعنی دار آخرت جس میں تم ہو یہ کتنا عمدہ ہے، اس میں تم نے وہی کام کیا جو تم اس سے پہلے والے دار میں کرتے رہے : عقبی اسی بنیاد پر اہم ہے اور الدار یہ دنیا ہے۔ ابو عمران جونی نے کہا : فنعم عقبی الدار یعنی جنت، دوزخ کی نسبت کتنا عمدہ گھر ہے اور انہیں سے مروی ہے : فنعم عقبی الدار یعنی جنت، دنیا کی نسبت کتنا عمدہ گھر ہے۔
Top