Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 29
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰى لَهُمْ وَ حُسْنُ مَاٰبٍ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک (جمع) طُوْبٰى : خوشحالی لَهُمْ : ان کے لیے وَحُسْنُ : اور اچھا مَاٰبٍ : ٹھکانا
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لئے خوش حالی اور عمدہ ٹھکانا ہے۔
آیت نمبر 29 قولہ تعالیٰ : الذین امنوا وعملوا الصلحت طوبی لھم مبتدا اور خبر ہے ایک قول یہ ہے : اس کا معنی لھم طوبی ہے، طوبی مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ محل نصب میں ہو اس صورت میں تقدیر عبارت : جعل لھم طوبی ہوگی اور مذکورہ دونوں صورتوں میں وحسن ماب کا اس پر عطف ہوگا، تو اس کو رفع بھی دیا جاسکتا ہے اور نصب بھی۔ عبد الرزاق نے ذکر کیا : ہمیں معمر نے عن یحییٰ بن ابی کثیر عن عمر و بن ابی یزید نکالی عن عتبہ بن عبد السلمی بیان کیا ہے انہوں نے کہا : ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا، اس نے آپ سے جنت اور حوض کوثر کے بارے میں پوچھا اس نے کہا : کیا اس میں پھل ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں ایک درخت ہے جسے طوبی کہا جاتا ہے “۔ اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ہماری زمین میں کون سا درخت اس کے مشابہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” تیری زمین کے درختوں میں سے کوئی بھی اس کے مشابہ نہیں کیا تو شام گیا ہے وہاں ایک درخت ہے جسے ” جوزہ “ کہا جاتا ہے جو تنے پر اگتا ہے اور اپنے اوپر والے حصے کو پھیلا دیتا ہے۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس کے تنے کی موٹائی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” اگر تو اپنے گھر والوں کے اونٹوں مکیں سے جذعۃ کے ساتھ سفر کرے تو تب بھی تو اس کے تنے کا احاطہ نہیں کرسکتا یہاں تک کہ بڑھاپے کے سبب اس کی ہنسلی کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں “۔ اور داوی نے حدیث ذکر کی، اور ہم نے اسے ” التذکرہ “ میں ” ابواب الجنۃ “ میں مکمل طور پر لکھ دیا ہے۔ والحمدللہ۔ ابن مبارک نے ذکر کیا اور کہا : أخبرنا معمر عن الأشعث عن عبد اللہ عن شھر بن حوشب عن ابی ہریرہ ؓ آپ نے فرمایا : جنت میں ایک درخت ہے اسے ” طوبی “ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے فرماتا ہے : میرے بندے کے لیے وہ پیدا کر جو یہ چاہے تو وہ اس کے لیے زین، لگام اور اس کی ہیبت سمیت ایک گھوڑا پیدا کرے گا جس طرح وہ چاہے گا، اور سواری والے جانور سے کجاوے، مہار اور اس کی ہیئت سمیت پیدا کرے گا جو وہ چاہے گا یعنی خالص حصے اور کپڑے۔ حضرت ابن وہب نے شہر بن حوشب والی حدیث حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت کی ہے آپ نے کہا : ” طوبیٰ “ جنت میں ایک درخت ہے ہر گھر میں اس کی کوئی نہ کوئی ٹہنی ہوگی، کوئی خوبصورت پرندہ نہیں جو اس میں نہ ہو اور نہ ہی کوئی پھل ہے جو اس میں نہ ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے : اس کی اصل جنت میں نبی کریم ﷺ کے محل میں ہوگی، پھر اس کی ٹہنیاں اہل جنت کے گھروں میں تقسیم ہوں گی جس طرح تمام اہل دنیا میں آپ کی بارگاہ سے علم اور ایمان پھیلتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : طوبی لھم کا مطلب ہے کہ ان کے لیے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ آپ ہی سے مروی ہے کہ طوبی حبشی زبان میں جنت کا نام ہے، یہ حضرت سعید بن جبیر ؓ کا قول بھی ہے۔ حضرت ربیع بن انس نے کہا : ہندی زبان میں یہ باغ ہے، قشیری نے کہا : اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ دو زبانوں کو جوڑتا ہے۔ حضرت قتادہ نے کہا : طوبیٰ لھم یعنی ان کے لیے بھلائی ہے، عکرمہ نے کہا : ان کے لیے نعمت ہے۔ حضرت ابراہیم نخعی نے کہا : ان کے لیے بہتری ہے، انہیں سے مروی ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے لیے عزت ہے۔ ضحاک نے کہا : ان کے لیے خوشی و سرور ہے۔ نحاس نے کہا : یہ سارے اقوال قریب قریب ہیں، کیونکہ ” طوبی “ طیب سے فعلی کا وزن ہے، یعنی ان کے لیے پاکیزہ زندگی ہوگی اور یہ ساری چیزیں پاکیزہ چیز کی طرف ہی راجع ہیں۔ زجاج نے کہا :” طوبی “ طیب سے فعلی کا وزن ہے، اور یہ ان کی پاکیزگی کی حالت ہے، اس کی اصل طیبی ہے، ” یا “ ساکن ما قبل مضموم واو سے بدل گئی جس طرح کہ : موسز اور موقن۔ میں (قرطبی) نے کہا : صحیح بات یہ ہے کہ یہ درخت ہے، اس کی دلیل ہماری ذکر کردہ مرفوع حدیث ہے، یہ روایت سہیلی کی ذکر کردہ شرائط کے مطابق صحیح ہے، اس کو ابو عمر نے ” التمہید “ میں ذکر کیا ہے، اور اسی سے ہم نے اسے نقل کیا ہے۔ اسی طرح ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اسے ذکر کیا ہے۔ المہدوی اور قشیری نے بھی اسے معاویۃ بن قرہ عن ابیہ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” طوبی “ جنت میں ایک درخت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے دست (قدرت) سے لگایا اور اس میں اپنی روح پھونکی زیورات اور حلے اگاتا ہے اور اس کی ٹہنیاں جنت کی دیواروں کے پیچھے سے دکھائی دیتی ہیں۔ جو اس سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ثعلبی کا مطالعہ کرے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ” طوبی “ جنت میں ایک درخت ہے اس کی اصل حضرت علی ؓ کے گھر میں ہے اور ہر مومن کے گھر میں اس کی ایک ٹہنی ہے۔ حضرت ابو جعفر محمد بن علی نے کہا : نبی کریم ﷺ سے طوبی لھم وحسن ماب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ” یہ ایک درخت ہے جس کی اصل میرے گھر میں اور اس کی ٹہنیاں جنت میں ہیں “۔ آپ کو عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اصلھانی دار علی وفروعھا فی الجنۃ۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” کل جنت میں میرا گھر اور علی کا گھر ایک ہی جگہ پر ایک ہی ہوگا “۔ آپ ﷺ سے ہی مروی ہے : ” یہ ایک درخت ہے جس کی اصل میرے گھر میں ہے اور تم میں سے ہر ایک کے گھر میں اس کی ٹہنی لٹکی ہوئی ہے “۔ وحسن ماب جب کوئی واپس لوٹے تو ” آب “ کہا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق تقدیر کلام یہ ہوگا : الذین آمنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ وعملوا الصالحات طوبی لھم۔
Top