Al-Qurtubi - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اونچی اونچی چھتریوں میں جو لوگ بناتے پیں گھر بنا۔
آیت نمبر 68 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : واوحی ربک الی النحل وحی کے بارے میں بحث پہلے گزر چکی ہے اور وہ یہ کہ یہ کبھی بمعنی الہام ہوتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ابتداء ہی بغیر کسی ظاہری سبب کے دل میں بات القا کردیتا ہے “۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے یہی مراد ہے : ونفس وما سوھا۔ فالھمھا فجورھا وتقوھا۔ (الشمس) (قسم ہے نفس کی اور اس کو درست کرنے والے کی پھر اس کے دل میں ڈال دیا اس کی نافرمانی اور اس کی پارسائی کو) اور اسی سے چوپائے اور وہ چیز ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان میں اپنے منافع پانے، اپنے نقصان اور تکلیف کے مقام سے اجتناب کرنے اور اپنی معاش کی تدیر کرنے کے بارے پیدا فرما دیتا ہے۔ اور تحقیق اللہ عزوجل نے بےجان چیزوں کے بارے میں اسی کی خبر دی اور فرمایا : تحدث اخبارھا۔ بان ربک اوحی لھا۔ (الزلزلہ) (اس روز وہ بیان کر دے گی اپنے سارے حالات، کیونکہ آپ کے رب نے اسے (یونہی) حکم بھیجا ہے) ۔ ابراہیم حرمی نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کو بےجان چیزوں میں قدرت ہے اس کے بارے معلوم نہیں وہ کیا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے پاس سے اس کے بارے کچھ نہیں لائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بارے آگاہ کردیا ہے یعنی ان کو الہام کر دیا ہے۔ اور تاویل کرنے والے علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہاں وحی بمعنی الہام ہے۔ اور یحییٰ بن وثاب نے حا کے فتحہ کے ساتھ الی النحل پڑھا ہے۔ اور اسے نحل کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے وہ شہد عطا فرمایا ہے جو اس سے نکلتا ہے ؛ یہ زجاج نے کہا ہے۔ اور جوہری نے کہا ہے : النحل اور النحلۃ الدبر (شہد کی مکھیوں کے انبوہ) کا اطلاق نر اور مادہ دونوں پر ہوتا ہے، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے : یعسوب (نر مکھی، شہد کی مکھیوں کا بادشاہ) اور اہل حجاز کی لغت میں النحل کو اور ہر اس جمع کو جس کے درمیان اور اس کی واحد کے درمیان صرف ھا کا فرق ہوتا ہے مونث لایا جاتا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے مروی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تمام مکھیاں جہنم میں ہوں گی اللہ تعالیٰ انہیں اہل جہنم کے لئے عذاب بنا دے گا سوائے شہد کی مکھی کے “۔ اسے حکم ترمذی نے ” نوادر الاصول “ میں ذکر کیا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد (لٹورا، موٹے سر، سفید، پیٹ اور سبز پیٹھ کا ایک پرندہ جو چھوٹے پرندوں کو شکار کرتا ہے) کو مارنے سے منع فرمایا ہے، اسے ابو داؤد نے بھی نقل کیا ہے، اور اس کا بیان سورة النمل میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 2: قولہ تعالیٰ : ان اتخذی من الجبال بیوتا ومن الشجر یہ تب ہے جب ان کا کوئی مالک نہ ہو ومما یعرشون اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کے چھتے ان تین قسموں میں بنائے ہیں یا تو پہاڑوں اور ان کی غاروں میں ہوں، درختوں کے درمیان (ان کی ٹہنیوں کے ساتھ) ہوں، یا پھر ان چھپروں، خالی جگہوں اور دیواروں وغیرہ کے ساتھ جنہیں لوگ بناتے ہیں۔ اور یہاں عرش بمعنی ھیا (تیار کرنا) ہے۔ اور اس کا اکثر استعمال ایسے چھپر کے لئے ہوتا ہے جو لکڑیاں گاڑ کر، ٹہنیوں کو جوڑ کر سایہ حاصل کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے، اور اسی سے وہ عریش ہے جو غزوہ بدر کے دوران رسول اللہ ﷺ کیلئے بنایا گیا تھا، اور اسی سے لفظ عرش ہے۔ کہا جاتا ہے : عرش یعرش ویعرش (یعنی را کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ) ، اور اسے دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ ابن عامر نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی تمام نے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور انہوں نے اس میں عاصم (رح) سے اختلاف کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: ابن عربی (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو پیدا فرمایا اور اس میں عجیب بات یہ ہے کہ اسے اپنا چھتہ مسدس (چھ کونوں والا) بنانے کا الہام کیا، پس اسی سبب سے وہ جڑا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ایک ٹکڑے کی مانند ہوجاتا ہے، اور وہ اس لئے کہ مثلث (تکون) سے معشر (دس کونوں والی شکل) تک تمام شکلیں جب ان میں سے ہر کوئی اپنی امثال کے ساتھ جمع ہو تو وہ آپس میں جڑتی نہیں اور ان دونوں کے درمیان شگاف آجاتا ہے، سوائے مسدس شکل کے، کیونکہ یہ جب اپنی امثال کے ساتھ جمع ہو تو یہ جڑ جاتی ہے اور اس طرح ہوجاتی ہے گویا کہ وہ ایک ٹکڑا ہے۔
Top