Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nahl : 67
وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّ رِزْقًا حَسَنًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَ
: اور
مِنْ
: سے
ثَمَرٰتِ
: پھل (جمع)
النَّخِيْلِ
: کھجور
وَالْاَعْنَابِ
: اور انگور
تَتَّخِذُوْنَ
: تم بناتے ہو
مِنْهُ
: اس سے
سَكَرًا
: شراب
وَّرِزْقًا
: اور رزق
حَسَنًا
: اچھا
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
ذٰلِكَ
: اس
لَاٰيَةً
: نشانی
لِّقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يَّعْقِلُوْنَ
: عقل رکھتے ہیں
اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی (تم پینے کی چیزین تیار کرتے ہو) کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق (کھاتے ہو) جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں ان کیلئے ان (چیزوں) میں (قدرت خدا کی) نشانی ہے
آیت نمبر
67
اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر
1
: قولہ تعالیٰ : ومن ثمرت النخیل علامہ طبری نے کہا ہے : تقدیر کلام ہے ومن ثمرات النخیل والأعناب ما تتخذون (یعنی کھجور اور انگور کے پھلوں سے جو کچھ تم بناتے ہو) پس ماکو حذف کردیا گیا ہے اور اس کے حذف پر دلیل قوی باری تعالیٰ : منہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس میں محذوف شئ ہے، اور امر قریب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : منہ کا معنی ہے ای من المذکور (یعنی ان سے کن کا ذکر کیا گیا ہے) ۔ پس کلام میں حذف نہ ہوگا اور یہی أولیٰ ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ قول باری تعالیٰ : ومن ثمرت کا عطف الانعام پر ہو یعنی اور تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں میں عبرت ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ مما پر معطوف ہو یعنی اور ہم تمہیں پھلوں سے بھی مشروبات پلاتے ہیں۔ مسئلہ نمبر
2
: قولہ تعالیٰ : سکرا السکر ہر وہ شے جو نشہ دیتی ہے ؛ لغت میں یہی مشہور ہے، سکر سے مراد خمر (شراب) لیا ہے، اور رزق حسن سے مراد ہر وہ حلال شے ہے جو ان دونوں درختوں سے کھائی پی جاتی ہے۔ اور یہی قول ابن جبیر، نخعی، شعبی اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک لغت حبشہ کے مطابق سکر سے مراد سرکہ ہے، اور رزق حسن سے مراد طعام ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ السکر سے مراد میٹھا اور حلال رس (جوس) ہے، اور اسے سکر کا نام دیا گیا ہے کیونکہ جب یہ پڑا رہے تو یہ بھی مسکر (نشہ آور) ہوجاتا ہے، پس جب یہ نشہ دینے کی حد تک پہنچ جائے تو حرام ہوجاتا ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : ان اقوال میں سے زیادہ صحیح اور مضبوط قول حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے، اور دو معنوں میں سے ایک پر ہو سکتا ہے، یا تو یہ کہ اس آیت کا نزول تحریم خمر سے پہلے ہو، اور یا اس کا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور کے پھلوں کے ساتھ انعام فرمایا ہے اور تم اس سے وہ شے بناتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کی ہے (یہ) تمہاری طرف سے حد سے تجاوز اور زیادتی ہے، اور وہ شے بناتے ہو جو تمہارے لئے اس نے حلال کی ہے (اور) اس سے تمہاری منفعت کا قصد و ارادہ فرمایا ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ آیت تحریم خمر سے پہلے نازل ہوئی پھر یہ منسوخ ہوگئی، کیونکہ یہ آیت باتفاق علماء مکی ہے، اور شراب مدینہ طیبہ میں حرام ہوئی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ اس بنا پر کہ سکر سے مراد سرکہ یا میٹھا رس ہو تو اس میں کوئی نسخ نہیں ہے، اور یہ آیت محکم ہوگی اور یہی اچھا اور بہتر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اہل حبشہ سرکہ کو سکر کا نام دیتے ہیں، مگر جمہور کا موقف یہ ہے کہ سکر سے مراد خمر (شراب) ہے، ان میں سے حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر، حضرت ابو رزین، حسن، مجاہد، ابن ابی لیلیٰ اور کلبی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہم ہیں ان کا ذکر پہلے ہوچکا ہے ان تمام نے یہ کہا ہے : سکر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے پھلوں میں سے حرام قرار دیا ہے۔ اور اسی طرح اہل لغت نے بھی کہا ہے : السکر اسم الخمر وما یسکر۔ (یعنی سکر خمر کا نام ہے اور ہر اس شے کا جو نشہ آور ہوتی ہے) ۔ اور انہوں نے یہ شعر بھی بیان کیا ہے : بئس الصحاۃ وبئس الشرب شربھم إذا جری فیھم المزاء والسکر اور رزق حسن سے مراد وہ ہے جو ان دونوں کے پھلوں میں سے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک قول باری تعالیٰ تتخذون منہ سکرا خبر ہے۔ اس کا معنی استفہام بمعنی انکار ہے، یعنی کیا اس سے شراب بناتے ہو اور پاکیزہ رزق (یعنی) سرکہ، کشمش، اور کھجور سب چھوڑ دیتے ہو ؟ جیسا کہ یہ قول ہے : فھم الخالدون یعنی کیا وہ ہمیشہ رہیں گے ؟ یعنی یہ تیرے لئے خوراک ہے۔ اور شاعر کا قول بیان کیا ہے : جعلت عیب الأکرمین سکرا (تو نے معززین کی عیب جوئی کو خوراک بنا لیا ہے) یعنی تو نے ان کی مذمت کو خوراک بنا لیا ہے۔ اور یہ علامہ طبری کی پسند ہے کہ السکر سے مراد ہر وہ شے جو کھانے میں سے کھائی جاتی ہے اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے اس کا پینا حلال ہو اور یہی رزق حسن ہے، پس الفاظ مختلف ہیں لیکن معنی ایک ہے۔ اسی طرح یہ قول ہے : انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ (یوسف :
86
) (میں تو شکوہ کر رہا ہوں اپنی مصیبت اور اپنے دکھوں کا خدا کی بارگاہ میں) یہ معنی مراد لینا اچھا ہے اور اس میں کوئی نسخ نہیں، مگر زجاج نے کہا ہے : ابو عبیدہ کا یہ قول معروف نہیں ہے، اور علماء تفسیر اس کے خلاف ہیں، اور جو شعر انہوں نے کہا ہے اس میں ان کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ان کے سوا دوسروں کے نزدیک اس کا عمنی ہے کہ وہ یہ بیان کر رہا ہے کہ وہ لوگوں کے عیوب کو ڈھانپ لیتی ہے، چھپا لیتی ہے۔ اور احناف نے کہا ہے : قول باری تعالیٰ سکرا سے مراد وہ ہے جو نبی ذوں میں سے نشہ آور نہ ہو اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ان چیزوں کے ساتھ احسان کیا ہے جو اس نے ان کے لئے تخلیق فرمائی ہیں، اور احسان صرف انہیں چیزوں کے ساتھ ہو سکتا ہے جو حلال کی گئی ہیں نہ کہ ان کے ساتھ جو حرام ہیں، پس یہی ایسی نبیذ کے پینے کے جواز پر دلیل ہے جو مسکر نہ ہو، پس جب وہ نشہ کی حد تک پہنچ جائے تو وہ جائز نہ ہوگی، اور انہوں نے اسے اس حدیث کے ساتھ قوی اور مضبوط کیا ہے جو حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے اس خمر (شراب) کو حرام بعینہا اور سکر (نشہ آور شراب) کو حرام من غیرھا قرار دیا ہے “۔ اور اس روایت سے جسے عبد الملک بن نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے ایک آدمی کو دیکھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ رکن کے ساتھ تشریف فرما تھے، اور اس نے آپ کو ایک پیالہ پیش کیا سو آپ نے اسے اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو اسے سخت (نشہ آور) پایا تو آپ نے اسے اس کے مالک کے پاس لوٹا دیا۔ تو اس وقت آپ کو لوگوں میں سے ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا وہ حرام ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ” اس آدمی کو میرے پاس لاؤ “۔ اسے لایا گیا تو آپ نے اس سے پیالہ پکڑ لیا، پھر پانی منگایا اور وہ اس میں انڈیل دیا پھر اسے اپنے منہ کی طرف بلند کیا اور اسے ہلایا۔ پھر پانی منگایا اور وہ بھی اس میں انڈیل دیا پھر ارشاد فرمایا : ” جب تم پر یہ برتن جوش مارنے لگیں تو تم ان کی شدت اور سختی کو پانی کے ساتھ توڑ دو “۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے لئے نبیذ بنائی جاتی تھی اور اسی دن آپ اسے نوش فرما لیتے تھے۔ اور جب اسے دوسرا یا تیسرا دن ہوجاتا تو آپ خادم کو پلا دیتے جب اس میں معمولی تغیر ہوتا، اگر یہ حرام ہوتی تو آپ قطعاً اسے نہ پلاتے۔ امام طحاوی (رح) نے کہا ہے : ابو عون ثقفی نے عبد اللہ بن شداد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : خمر (شراب) بعینھا حرام ہے وہ قلیل ہو یا کثیر اور ہر مشروب سے سکر (نشہ آور) حرام ہے۔ اسے دار قطنی نے بھی نقل کیا ہے۔ پس اس حدیث میں اور ان میں جو اس کی مثل ہیں، یہ ہے کہ غیر خمر کا عین اس طرح حرام نہیں جس طرح خمر بعینھا حرام ہے۔ انہوں نے کہا : خمر انگور کی شراب ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں، اور ان کے دلائل میں سے وہ روایت بھی ہے جسے شریک بن عبد اللہ نے بیان کیا ہے کہ ابو اسحاق ہمدانی نے عمرو بن میمون سے ہمیں بیان کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بیان فرمایا : بیشک ہم ان اونٹوں کا گوشت کھاتے ہیں اور اسے ہمارے پیتوں میں سوائے نبیذ کے کوئی شے ہضم نہیں کرسکتی۔ شریک نے بیان کیا ہے : میں نے ثوری (رح) کو اپنے زمانے کے جید عالم مالک بن معول کے گھر نبیذ پیتے ہوئے دیکھا ہے۔ جواب یہ ہے کہ ان کا یہ قول کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان فرمایا ہے اور اس کا احسان نہیں ہوسکتا مگر ان چیزوں کے ساتھ جو اس نے حلال فرمائی ہیں یہ بالکل صحیح ہے ؛ مگر یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ یہ ارشاد تحریم خمر سے پہلے کا ہو جیسا کہ ہم نے اسے بیان کردیا ہے تو پھر یہ منسوخ ہوگا جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : اگر یہ کہا جائے اسکا نسخ کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ یہ خبر ہے اور خبر میں نسخ داخل نہیں ہوسکتا ؟ تو ہم کہیں گے : یہ اس کا کلام ہے جس نے شریعت کی تحقیق نہیں کی، تحقیق ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ خبر وجود حقیقی کے بارے میں ہو یا ثواب عطا کرنے کے بارے میں درآنحالیکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فضل ہو تو وہ خبر ہے جس میں نسخ داخل نہیں ہوسکتا، لیکن جب خبر حکم شرعی کو متضمن ہو تو احکام تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور منسوخ بھی ہوجاتے ہیں، چاہے وہ خبر کی صورت میں ہوں یا امر کی صورت میں، اور نسخ نفس لفظ کی طرف راجع نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کی طرف راجع ہوتا ہے جسے وہ متضمن ہوتا ہے، پس جب تم یہ سمجھ گئے تو تم ان کندذہنوں کی صنف سے خارج ہوگئے جس کے متعلق کفار کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ خبر دی ہے : واذا بدلنا ایۃ مکان ایۃ واللہ اعلم بما ینزل قالوا انما انت مفتر، بل اکثرھم لا یعلمون۔ (النحل) (اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو وہ نازل کرتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں تم صرف افترا پر داز ہو، بلکہ ان میں سے اکثر (آیت بدلنے کی حکمت کو) نہیں جانتے) ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس سے جاہل اور ناواقف ہیں کہ رب کریم جس کے بارے چاہتا ہے حکم دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے پابند اور مکلف بنا دیتا ہے اور اپنے عدل کے ساتھ اس میں سے جو چاہتا ہے اٹھا لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ انتہائی براطعن وتشنیع ہے یہاں تک کہ اس میں نیکوکار علماء بھی فہم و فراست کی کمی میں کفار کے ساتھ مل جاتے ہیں، اور یہ مسئلہ اصولی ہے، وہ یہ کہ احکام شرعیہ کے بارے اخبار کا نسخ جائز ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ نسخ جائز ہے اور اس کی وجہ یہ آیت اور اسکی مثل آیات ہیں، اور اس لیے بھی کہ کسی حکم کے مشروع ہونے کے بارے خبر اس مشروع کی طلب کو متضمن ہوتی ہے، اور وہی طلب وہ حکم شرعی ہے جس کے نسخ پر استدلال کیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور رہیں وہ احادیث جو انہوں نے ذکر کی ہیں تو ان میں سے پہلی اور دوسری دونوں ضعیف ہیں، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ سے نقل ثابت کے ساتھ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ہر شراب جو نشہ دے پس وہ حرام ہے “۔ اور مزید فرمایا : ” ہر نشہ آور (مشروب) خمر ہے اور ہر نشہ آور (شراب) حرام ہے “۔ کل مسکر خمرو کل مسکر حرام اور مزید فرمایا :” جس شے کی کثیر مقدار نشہ آور ہو تو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے “۔ نسائی نے کہا ہے : ان احادیث کے تمام روات اہل ثبت و عدالت ہیں اور صحت نقل کے ساتھ مشہور ہیں، اور عبد الملک ان میں سے کسی ایک کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتا اگرچہ اس کے ہم مثلوں کی جماعت بھی اس کی تائید اور معاونت کرے۔ وباللہ التوفیق۔ اور رہی تیسری حدیث تو اگرچہ وہ صحیح ہے کیونکہ آپ ﷺ خادم کو وہ اس لئے نہیں پلاتے تھے کہ وہ مسکر ہے بلکہ آپ اس لئے پلا دیتے تھے کہ اس کی بوتبدیل ہوچکی ہے۔ اور آپ ﷺ ناپسند کرتے تھے کہ آپ سے بو پائی جائے، پس اسی لئے آپ اسے نہ پیتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی ازواج نے عسل زینب کے بارے میں آپ پر یہ وہم اور شبہ کیا کہ آپ کو کہا گیا : بیشک ہم آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہیں، مراد ناپسندیدہ بو ہے، پھر اسکے بعد آپ نے اسے نہ پیا۔ اس کا بیان سورت تحریم میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور رہی حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ! تو آپ سے اس کے خلاف بھی مروی ہے اور وہ حضرت عطا (رح)، طاؤس (رح) اور مجاہد کی روایت سے ہے کہ آپ نے فرمایا : ” وہ شے جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو تو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے “۔ اور اسے آپ سے حضرت قیس بن دینار نے روایت کیا ہے۔ اور اسی طرح مسکر کے بارے میں آپ کا فتویٰ ہے ؛ یہ دار قطنی نے کہا ہے۔ اور پہلی حدیث آپ سے حضرت عبد اللہ بن شداد نے روایت کی ہے حالانکہ ایک جماعت نے ان سے مخالفت کی ہے، پس اسکے ساتھ قول ساقط ہوگیا اس کے ساتھ ساتھ کہ وہ حضور نبی مکرم ﷺ سے ثابت بھی نہیں اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے جو حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا : ہمارے پیٹوں میں نبیذ کے سوا کوئی شے اسئ ہضم نہیں کر سکری، تو آپ اس سے غیر مسکر کا ارادہ فرما رہے ہیں اور اس کی دلیل وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں۔ اور نسائی نے عتبہ بن فرقد سے روایت بیان کی ہے انہوں نے کہا : وہ نبیذ جسے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے پیا تھا اس کا سرکہ بنا لیا گیا۔ نسائی نے بیان کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر حضرت سائب (رح) کی حدیث دلالت کرتی ہے، حارث بن مسکین نے کہا ہے آپ پر پڑھا گیا اور میں ابن قاسم سے سنتا رہا : مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے سائب بن یزید سے مجھے بیان کیا ہے کہ انہوں نے انہیں خبر دی کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : بیشک میں نے فلاں سے شراب کی بو پائی ہے تو آپ کو گمان ہوا کہ وہ شراب الطلاء ہو اور میں اس کے بارے پوچھنے لگا ہوں جو اس نے پیا ہے، پس اگر وہ مسکر ہوا تو میں اسے کوڑے لگاؤں گا، پس حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اسے مکمل حد کے کوڑے لگائے۔ تحقیق آپ نے منبر رسول ﷺ پر اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا : اما بعد ! اے لوگو ! چونکہ شراب (خمر) کے حرام ہونے کا حکم نازل ہوچکا ہے اور یہ پانچ چیزوں سے تیار ہوتی ہے انگور، شہد، کھجور، گندم اور جو سے اور خمر وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے۔ اور سورة المائدہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ پس اگر کہا جائے کہ ابراہیم نخعی اور امام ابو جعفر طحاوی نے اس کے پینے کو حلال قرار دیا ہے اور وہ بھی اپنے اہل زمانہ کے امام تھے، اور سفیان ثوری (رح) اسے پیتے تھے۔ تو ہم کہیں گے : نسائی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے جس نے نبی ذوں میں سے مسکر کو حلال قرار دیا وہ حضرت ابراہیم نخعی (رح) ہیں، اور یہ ایک عالم کی پھسلاہٹ (اور خطا) ہے اور ہمیں عالم کی پھسلاہٹ سے محتاط رکھا گیا ہے، اور سنت کے ہوتے ہوئے کسی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے۔ اور نسائی نے بھی ابن المبارک سے ذکر کیا کہ انہوں نے کہا : میں نے مسکر کے بارے میں کسی سے ایسی رخصت نہیں پائی جو صحیح ہو سوائے ابراہیم کے۔ ابو اسامہ نے کہا ہے : میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو بلاد شام، مصر، یمن اور حجاز میں حضرت عبد اللہ بن مبارک (رح) تعالیٰ سے بڑھ کر علم کا طالب ہو۔ اور رہے حضرت امام طحاوی (رح) اور حضرت سفیان (رح) ! اگر ان دونوں سے یہ قول صحیح ہے تو بھی ان سے ان کے خلاف استدلال نہیں کہا جاسکتا جن ائمہ کرام نے تحریم مسکر میں ان کی مخالفت کی ہے اس کے ساتھ ساتھ کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ اس بنا پر کہ امام طحاوی نے اپنی کتاب ” الکبیر “ میں اخلتاف میں اس کے خلاف ذکر کیا ہے۔ ابو عمر بن عبد البر نے کتاب التمہید میں ذکر کیا ہے کہ ابو جعفر طحاوی نے کہا ہے : امت اس پر متفق ہے کہ انگور کا رس (عصیر العنب) جب سخت ہوجائے، ابل جائے اور اس پر جھاگ بن جائے تو وہ خمر ہے اور اسے حلال سمجھنے والا کافر ہے۔ اور نقیع التمر (بھگوئی ہوئی کھجوروں کا شربت) میں علماء نے اختلاف کیا ہے جب وہ اہل جائے اور نشہ پیدا کر دے۔ فرمایا : پس یہ تیری اس پر رہنمائی کر رہا ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ” خمران دو درختوں سے بنتا ہے کھجور اور انگور “۔ ان کے نزدیک اس کے مطابق عمل نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ حدیث کو قبول کرتے تو وہ نقیع التمر کو حلال قرار دینے والوں کو کافر قرار دیتے، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ خمر جو حرام کیا گیا ہے اس میں انگور کے اس رس کے سوا کوئی داخل نہیں جو سخت ہوگیا ہو اور اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ نشہ سینے لگے۔ فرمایا : پھر وہ اس سے خالی نہ ہوگا کہ تحریم صرف اسی کے ساتھ معلق ہو اور اس پر کسی غیر کو قیاس نہ کیا گیا ہو یا اس پر قیاس واجب اور ضروری ہوگا، تو ہم نے تمام کو پایا ہے کہ انہوں نے اس پر نقیع التمر کو قیاس کیا ہے جب وہ ابلنے لگے اور اس کی کثیر مقدار نشہ دینے لگے اور نقیع الزبیب بھی اسی طرح ہے۔ فرمایا : پس اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ واجب ہے کہ شروبات میں سے ہر اس کو حرام قرار دیا جائے جو نشہ آور ہو۔ فرمایا : تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ہر مسکر حرام ہے “۔ اور اس کی سند کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے تمام نے قبول کیا ہے۔ اور ان کے درمیان اختلاف اس کی تاویل میں ہے، پس ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ آپ نے اس سے اس جنس کا ارادہ کیا ہے جو نشہ دیتی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : آپ نے اس سے ارادہ اس کا کیا ہے جس کے ساتھ وہ نشہ میں مبتلا ہوجائے جیسا کہ کسی کو قتل کے وجود کے بغیر قاتل کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : پس یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام طحاوی (رح) کے نزدیک وہ حرام ہے ان کے اس قول کی وجہ ہے : پس اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ واجب ہے کہ ہر نشہ آور مشروب کو حرام قرار دیا جائے۔ اور دار قطنی نے اپنی سنن میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے خمر کو اس کے نام کی وجہ سے حرام نہیں کیا بلکہ اس کے انجام کی وجہ سے اسے حرام کیا ہے، پس ہر شراب کا انجام خمر کے انجام کی مثل ہی ہوتا ہے پس وہ خمر کے حرام ہونے کی طرح ہی حرام ہوگی۔ ابن منذر نے کہا ہے : اہل کوفہ معلول اخبار لائے ہیں، اور جب لوگوں کا کسی شے کے بارے اختلاف ہوجائے تو پھر اسے کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی طرف لوٹانا واجب ہے۔ اور بعض تابعین کے بارے میں جو یہ مروی ہے کہ انہوں نے وہ شراب پی ہے جس کی کثیر مقدار نشہ دیتی ہے تو یہ قوم کے گناہ ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت طلب کریں گے، اور یہ دو معنوں میں سے ایک سے خالی نہیں ہے کہ یا تو وہ خطاکار ہے اس حدیث کی تاویل میں اس نے خطا کی ہے جو اس نے سنی یا آدمی سے گناہ صادر ہوا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کثرت سے کرے، اور حضور نبی مکرم ﷺ اس امت کے اولین و آخرین پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہیں۔ اور آیر کی تاویل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشک یہ عبرت کے لئے ذکر کی گئی ہے یعنی جو (ذات) ان اشیاء کو پیدا کرنے پر قادر ہے وہ یقیناً دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اور یہ اعتبار اس سے مختلف نہیں ہوتا کہ خمر حلال ہو یا حرام، پس السکر (رس) بنانا تحریم پر دلالت نہیں کرتا، اور یہ اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس (البقرہ :
219
) (آپ فرمائیے : ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور کچھ فائدے بھی ہیں لوگوں کے لئے) ۔ واللہ اعلم۔
Top