Al-Qurtubi - An-Nahl : 67
وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّ رِزْقًا حَسَنًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَ : اور مِنْ : سے ثَمَرٰتِ : پھل (جمع) النَّخِيْلِ : کھجور وَالْاَعْنَابِ : اور انگور تَتَّخِذُوْنَ : تم بناتے ہو مِنْهُ : اس سے سَكَرًا : شراب وَّرِزْقًا : اور رزق حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : عقل رکھتے ہیں
اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی (تم پینے کی چیزین تیار کرتے ہو) کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق (کھاتے ہو) جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں ان کیلئے ان (چیزوں) میں (قدرت خدا کی) نشانی ہے
آیت نمبر 67 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : ومن ثمرت النخیل علامہ طبری نے کہا ہے : تقدیر کلام ہے ومن ثمرات النخیل والأعناب ما تتخذون (یعنی کھجور اور انگور کے پھلوں سے جو کچھ تم بناتے ہو) پس ماکو حذف کردیا گیا ہے اور اس کے حذف پر دلیل قوی باری تعالیٰ : منہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس میں محذوف شئ ہے، اور امر قریب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : منہ کا معنی ہے ای من المذکور (یعنی ان سے کن کا ذکر کیا گیا ہے) ۔ پس کلام میں حذف نہ ہوگا اور یہی أولیٰ ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ قول باری تعالیٰ : ومن ثمرت کا عطف الانعام پر ہو یعنی اور تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں میں عبرت ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ مما پر معطوف ہو یعنی اور ہم تمہیں پھلوں سے بھی مشروبات پلاتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: قولہ تعالیٰ : سکرا السکر ہر وہ شے جو نشہ دیتی ہے ؛ لغت میں یہی مشہور ہے، سکر سے مراد خمر (شراب) لیا ہے، اور رزق حسن سے مراد ہر وہ حلال شے ہے جو ان دونوں درختوں سے کھائی پی جاتی ہے۔ اور یہی قول ابن جبیر، نخعی، شعبی اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک لغت حبشہ کے مطابق سکر سے مراد سرکہ ہے، اور رزق حسن سے مراد طعام ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ السکر سے مراد میٹھا اور حلال رس (جوس) ہے، اور اسے سکر کا نام دیا گیا ہے کیونکہ جب یہ پڑا رہے تو یہ بھی مسکر (نشہ آور) ہوجاتا ہے، پس جب یہ نشہ دینے کی حد تک پہنچ جائے تو حرام ہوجاتا ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : ان اقوال میں سے زیادہ صحیح اور مضبوط قول حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے، اور دو معنوں میں سے ایک پر ہو سکتا ہے، یا تو یہ کہ اس آیت کا نزول تحریم خمر سے پہلے ہو، اور یا اس کا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور کے پھلوں کے ساتھ انعام فرمایا ہے اور تم اس سے وہ شے بناتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کی ہے (یہ) تمہاری طرف سے حد سے تجاوز اور زیادتی ہے، اور وہ شے بناتے ہو جو تمہارے لئے اس نے حلال کی ہے (اور) اس سے تمہاری منفعت کا قصد و ارادہ فرمایا ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ آیت تحریم خمر سے پہلے نازل ہوئی پھر یہ منسوخ ہوگئی، کیونکہ یہ آیت باتفاق علماء مکی ہے، اور شراب مدینہ طیبہ میں حرام ہوئی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ اس بنا پر کہ سکر سے مراد سرکہ یا میٹھا رس ہو تو اس میں کوئی نسخ نہیں ہے، اور یہ آیت محکم ہوگی اور یہی اچھا اور بہتر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اہل حبشہ سرکہ کو سکر کا نام دیتے ہیں، مگر جمہور کا موقف یہ ہے کہ سکر سے مراد خمر (شراب) ہے، ان میں سے حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر، حضرت ابو رزین، حسن، مجاہد، ابن ابی لیلیٰ اور کلبی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہم ہیں ان کا ذکر پہلے ہوچکا ہے ان تمام نے یہ کہا ہے : سکر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے پھلوں میں سے حرام قرار دیا ہے۔ اور اسی طرح اہل لغت نے بھی کہا ہے : السکر اسم الخمر وما یسکر۔ (یعنی سکر خمر کا نام ہے اور ہر اس شے کا جو نشہ آور ہوتی ہے) ۔ اور انہوں نے یہ شعر بھی بیان کیا ہے : بئس الصحاۃ وبئس الشرب شربھم إذا جری فیھم المزاء والسکر اور رزق حسن سے مراد وہ ہے جو ان دونوں کے پھلوں میں سے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک قول باری تعالیٰ تتخذون منہ سکرا خبر ہے۔ اس کا معنی استفہام بمعنی انکار ہے، یعنی کیا اس سے شراب بناتے ہو اور پاکیزہ رزق (یعنی) سرکہ، کشمش، اور کھجور سب چھوڑ دیتے ہو ؟ جیسا کہ یہ قول ہے : فھم الخالدون یعنی کیا وہ ہمیشہ رہیں گے ؟ یعنی یہ تیرے لئے خوراک ہے۔ اور شاعر کا قول بیان کیا ہے : جعلت عیب الأکرمین سکرا (تو نے معززین کی عیب جوئی کو خوراک بنا لیا ہے) یعنی تو نے ان کی مذمت کو خوراک بنا لیا ہے۔ اور یہ علامہ طبری کی پسند ہے کہ السکر سے مراد ہر وہ شے جو کھانے میں سے کھائی جاتی ہے اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے اس کا پینا حلال ہو اور یہی رزق حسن ہے، پس الفاظ مختلف ہیں لیکن معنی ایک ہے۔ اسی طرح یہ قول ہے : انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ (یوسف :86) (میں تو شکوہ کر رہا ہوں اپنی مصیبت اور اپنے دکھوں کا خدا کی بارگاہ میں) یہ معنی مراد لینا اچھا ہے اور اس میں کوئی نسخ نہیں، مگر زجاج نے کہا ہے : ابو عبیدہ کا یہ قول معروف نہیں ہے، اور علماء تفسیر اس کے خلاف ہیں، اور جو شعر انہوں نے کہا ہے اس میں ان کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ان کے سوا دوسروں کے نزدیک اس کا عمنی ہے کہ وہ یہ بیان کر رہا ہے کہ وہ لوگوں کے عیوب کو ڈھانپ لیتی ہے، چھپا لیتی ہے۔ اور احناف نے کہا ہے : قول باری تعالیٰ سکرا سے مراد وہ ہے جو نبی ذوں میں سے نشہ آور نہ ہو اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ان چیزوں کے ساتھ احسان کیا ہے جو اس نے ان کے لئے تخلیق فرمائی ہیں، اور احسان صرف انہیں چیزوں کے ساتھ ہو سکتا ہے جو حلال کی گئی ہیں نہ کہ ان کے ساتھ جو حرام ہیں، پس یہی ایسی نبیذ کے پینے کے جواز پر دلیل ہے جو مسکر نہ ہو، پس جب وہ نشہ کی حد تک پہنچ جائے تو وہ جائز نہ ہوگی، اور انہوں نے اسے اس حدیث کے ساتھ قوی اور مضبوط کیا ہے جو حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے اس خمر (شراب) کو حرام بعینہا اور سکر (نشہ آور شراب) کو حرام من غیرھا قرار دیا ہے “۔ اور اس روایت سے جسے عبد الملک بن نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے ایک آدمی کو دیکھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ رکن کے ساتھ تشریف فرما تھے، اور اس نے آپ کو ایک پیالہ پیش کیا سو آپ نے اسے اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو اسے سخت (نشہ آور) پایا تو آپ نے اسے اس کے مالک کے پاس لوٹا دیا۔ تو اس وقت آپ کو لوگوں میں سے ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا وہ حرام ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ” اس آدمی کو میرے پاس لاؤ “۔ اسے لایا گیا تو آپ نے اس سے پیالہ پکڑ لیا، پھر پانی منگایا اور وہ اس میں انڈیل دیا پھر اسے اپنے منہ کی طرف بلند کیا اور اسے ہلایا۔ پھر پانی منگایا اور وہ بھی اس میں انڈیل دیا پھر ارشاد فرمایا : ” جب تم پر یہ برتن جوش مارنے لگیں تو تم ان کی شدت اور سختی کو پانی کے ساتھ توڑ دو “۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے لئے نبیذ بنائی جاتی تھی اور اسی دن آپ اسے نوش فرما لیتے تھے۔ اور جب اسے دوسرا یا تیسرا دن ہوجاتا تو آپ خادم کو پلا دیتے جب اس میں معمولی تغیر ہوتا، اگر یہ حرام ہوتی تو آپ قطعاً اسے نہ پلاتے۔ امام طحاوی (رح) نے کہا ہے : ابو عون ثقفی نے عبد اللہ بن شداد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : خمر (شراب) بعینھا حرام ہے وہ قلیل ہو یا کثیر اور ہر مشروب سے سکر (نشہ آور) حرام ہے۔ اسے دار قطنی نے بھی نقل کیا ہے۔ پس اس حدیث میں اور ان میں جو اس کی مثل ہیں، یہ ہے کہ غیر خمر کا عین اس طرح حرام نہیں جس طرح خمر بعینھا حرام ہے۔ انہوں نے کہا : خمر انگور کی شراب ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں، اور ان کے دلائل میں سے وہ روایت بھی ہے جسے شریک بن عبد اللہ نے بیان کیا ہے کہ ابو اسحاق ہمدانی نے عمرو بن میمون سے ہمیں بیان کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بیان فرمایا : بیشک ہم ان اونٹوں کا گوشت کھاتے ہیں اور اسے ہمارے پیتوں میں سوائے نبیذ کے کوئی شے ہضم نہیں کرسکتی۔ شریک نے بیان کیا ہے : میں نے ثوری (رح) کو اپنے زمانے کے جید عالم مالک بن معول کے گھر نبیذ پیتے ہوئے دیکھا ہے۔ جواب یہ ہے کہ ان کا یہ قول کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان فرمایا ہے اور اس کا احسان نہیں ہوسکتا مگر ان چیزوں کے ساتھ جو اس نے حلال فرمائی ہیں یہ بالکل صحیح ہے ؛ مگر یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ یہ ارشاد تحریم خمر سے پہلے کا ہو جیسا کہ ہم نے اسے بیان کردیا ہے تو پھر یہ منسوخ ہوگا جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : اگر یہ کہا جائے اسکا نسخ کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ یہ خبر ہے اور خبر میں نسخ داخل نہیں ہوسکتا ؟ تو ہم کہیں گے : یہ اس کا کلام ہے جس نے شریعت کی تحقیق نہیں کی، تحقیق ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ خبر وجود حقیقی کے بارے میں ہو یا ثواب عطا کرنے کے بارے میں درآنحالیکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فضل ہو تو وہ خبر ہے جس میں نسخ داخل نہیں ہوسکتا، لیکن جب خبر حکم شرعی کو متضمن ہو تو احکام تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور منسوخ بھی ہوجاتے ہیں، چاہے وہ خبر کی صورت میں ہوں یا امر کی صورت میں، اور نسخ نفس لفظ کی طرف راجع نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کی طرف راجع ہوتا ہے جسے وہ متضمن ہوتا ہے، پس جب تم یہ سمجھ گئے تو تم ان کندذہنوں کی صنف سے خارج ہوگئے جس کے متعلق کفار کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ خبر دی ہے : واذا بدلنا ایۃ مکان ایۃ واللہ اعلم بما ینزل قالوا انما انت مفتر، بل اکثرھم لا یعلمون۔ (النحل) (اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو وہ نازل کرتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں تم صرف افترا پر داز ہو، بلکہ ان میں سے اکثر (آیت بدلنے کی حکمت کو) نہیں جانتے) ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس سے جاہل اور ناواقف ہیں کہ رب کریم جس کے بارے چاہتا ہے حکم دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے پابند اور مکلف بنا دیتا ہے اور اپنے عدل کے ساتھ اس میں سے جو چاہتا ہے اٹھا لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ انتہائی براطعن وتشنیع ہے یہاں تک کہ اس میں نیکوکار علماء بھی فہم و فراست کی کمی میں کفار کے ساتھ مل جاتے ہیں، اور یہ مسئلہ اصولی ہے، وہ یہ کہ احکام شرعیہ کے بارے اخبار کا نسخ جائز ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ نسخ جائز ہے اور اس کی وجہ یہ آیت اور اسکی مثل آیات ہیں، اور اس لیے بھی کہ کسی حکم کے مشروع ہونے کے بارے خبر اس مشروع کی طلب کو متضمن ہوتی ہے، اور وہی طلب وہ حکم شرعی ہے جس کے نسخ پر استدلال کیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور رہیں وہ احادیث جو انہوں نے ذکر کی ہیں تو ان میں سے پہلی اور دوسری دونوں ضعیف ہیں، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ سے نقل ثابت کے ساتھ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ہر شراب جو نشہ دے پس وہ حرام ہے “۔ اور مزید فرمایا : ” ہر نشہ آور (مشروب) خمر ہے اور ہر نشہ آور (شراب) حرام ہے “۔ کل مسکر خمرو کل مسکر حرام اور مزید فرمایا :” جس شے کی کثیر مقدار نشہ آور ہو تو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے “۔ نسائی نے کہا ہے : ان احادیث کے تمام روات اہل ثبت و عدالت ہیں اور صحت نقل کے ساتھ مشہور ہیں، اور عبد الملک ان میں سے کسی ایک کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتا اگرچہ اس کے ہم مثلوں کی جماعت بھی اس کی تائید اور معاونت کرے۔ وباللہ التوفیق۔ اور رہی تیسری حدیث تو اگرچہ وہ صحیح ہے کیونکہ آپ ﷺ خادم کو وہ اس لئے نہیں پلاتے تھے کہ وہ مسکر ہے بلکہ آپ اس لئے پلا دیتے تھے کہ اس کی بوتبدیل ہوچکی ہے۔ اور آپ ﷺ ناپسند کرتے تھے کہ آپ سے بو پائی جائے، پس اسی لئے آپ اسے نہ پیتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی ازواج نے عسل زینب کے بارے میں آپ پر یہ وہم اور شبہ کیا کہ آپ کو کہا گیا : بیشک ہم آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہیں، مراد ناپسندیدہ بو ہے، پھر اسکے بعد آپ نے اسے نہ پیا۔ اس کا بیان سورت تحریم میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور رہی حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ! تو آپ سے اس کے خلاف بھی مروی ہے اور وہ حضرت عطا (رح)، طاؤس (رح) اور مجاہد کی روایت سے ہے کہ آپ نے فرمایا : ” وہ شے جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو تو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے “۔ اور اسے آپ سے حضرت قیس بن دینار نے روایت کیا ہے۔ اور اسی طرح مسکر کے بارے میں آپ کا فتویٰ ہے ؛ یہ دار قطنی نے کہا ہے۔ اور پہلی حدیث آپ سے حضرت عبد اللہ بن شداد نے روایت کی ہے حالانکہ ایک جماعت نے ان سے مخالفت کی ہے، پس اسکے ساتھ قول ساقط ہوگیا اس کے ساتھ ساتھ کہ وہ حضور نبی مکرم ﷺ سے ثابت بھی نہیں اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے جو حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا : ہمارے پیٹوں میں نبیذ کے سوا کوئی شے اسئ ہضم نہیں کر سکری، تو آپ اس سے غیر مسکر کا ارادہ فرما رہے ہیں اور اس کی دلیل وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں۔ اور نسائی نے عتبہ بن فرقد سے روایت بیان کی ہے انہوں نے کہا : وہ نبیذ جسے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے پیا تھا اس کا سرکہ بنا لیا گیا۔ نسائی نے بیان کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر حضرت سائب (رح) کی حدیث دلالت کرتی ہے، حارث بن مسکین نے کہا ہے آپ پر پڑھا گیا اور میں ابن قاسم سے سنتا رہا : مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے سائب بن یزید سے مجھے بیان کیا ہے کہ انہوں نے انہیں خبر دی کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : بیشک میں نے فلاں سے شراب کی بو پائی ہے تو آپ کو گمان ہوا کہ وہ شراب الطلاء ہو اور میں اس کے بارے پوچھنے لگا ہوں جو اس نے پیا ہے، پس اگر وہ مسکر ہوا تو میں اسے کوڑے لگاؤں گا، پس حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اسے مکمل حد کے کوڑے لگائے۔ تحقیق آپ نے منبر رسول ﷺ پر اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا : اما بعد ! اے لوگو ! چونکہ شراب (خمر) کے حرام ہونے کا حکم نازل ہوچکا ہے اور یہ پانچ چیزوں سے تیار ہوتی ہے انگور، شہد، کھجور، گندم اور جو سے اور خمر وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے۔ اور سورة المائدہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ پس اگر کہا جائے کہ ابراہیم نخعی اور امام ابو جعفر طحاوی نے اس کے پینے کو حلال قرار دیا ہے اور وہ بھی اپنے اہل زمانہ کے امام تھے، اور سفیان ثوری (رح) اسے پیتے تھے۔ تو ہم کہیں گے : نسائی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے جس نے نبی ذوں میں سے مسکر کو حلال قرار دیا وہ حضرت ابراہیم نخعی (رح) ہیں، اور یہ ایک عالم کی پھسلاہٹ (اور خطا) ہے اور ہمیں عالم کی پھسلاہٹ سے محتاط رکھا گیا ہے، اور سنت کے ہوتے ہوئے کسی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے۔ اور نسائی نے بھی ابن المبارک سے ذکر کیا کہ انہوں نے کہا : میں نے مسکر کے بارے میں کسی سے ایسی رخصت نہیں پائی جو صحیح ہو سوائے ابراہیم کے۔ ابو اسامہ نے کہا ہے : میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو بلاد شام، مصر، یمن اور حجاز میں حضرت عبد اللہ بن مبارک (رح) تعالیٰ سے بڑھ کر علم کا طالب ہو۔ اور رہے حضرت امام طحاوی (رح) اور حضرت سفیان (رح) ! اگر ان دونوں سے یہ قول صحیح ہے تو بھی ان سے ان کے خلاف استدلال نہیں کہا جاسکتا جن ائمہ کرام نے تحریم مسکر میں ان کی مخالفت کی ہے اس کے ساتھ ساتھ کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ اس بنا پر کہ امام طحاوی نے اپنی کتاب ” الکبیر “ میں اخلتاف میں اس کے خلاف ذکر کیا ہے۔ ابو عمر بن عبد البر نے کتاب التمہید میں ذکر کیا ہے کہ ابو جعفر طحاوی نے کہا ہے : امت اس پر متفق ہے کہ انگور کا رس (عصیر العنب) جب سخت ہوجائے، ابل جائے اور اس پر جھاگ بن جائے تو وہ خمر ہے اور اسے حلال سمجھنے والا کافر ہے۔ اور نقیع التمر (بھگوئی ہوئی کھجوروں کا شربت) میں علماء نے اختلاف کیا ہے جب وہ اہل جائے اور نشہ پیدا کر دے۔ فرمایا : پس یہ تیری اس پر رہنمائی کر رہا ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ” خمران دو درختوں سے بنتا ہے کھجور اور انگور “۔ ان کے نزدیک اس کے مطابق عمل نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ حدیث کو قبول کرتے تو وہ نقیع التمر کو حلال قرار دینے والوں کو کافر قرار دیتے، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ خمر جو حرام کیا گیا ہے اس میں انگور کے اس رس کے سوا کوئی داخل نہیں جو سخت ہوگیا ہو اور اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ نشہ سینے لگے۔ فرمایا : پھر وہ اس سے خالی نہ ہوگا کہ تحریم صرف اسی کے ساتھ معلق ہو اور اس پر کسی غیر کو قیاس نہ کیا گیا ہو یا اس پر قیاس واجب اور ضروری ہوگا، تو ہم نے تمام کو پایا ہے کہ انہوں نے اس پر نقیع التمر کو قیاس کیا ہے جب وہ ابلنے لگے اور اس کی کثیر مقدار نشہ دینے لگے اور نقیع الزبیب بھی اسی طرح ہے۔ فرمایا : پس اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ واجب ہے کہ شروبات میں سے ہر اس کو حرام قرار دیا جائے جو نشہ آور ہو۔ فرمایا : تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ہر مسکر حرام ہے “۔ اور اس کی سند کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے تمام نے قبول کیا ہے۔ اور ان کے درمیان اختلاف اس کی تاویل میں ہے، پس ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ آپ نے اس سے اس جنس کا ارادہ کیا ہے جو نشہ دیتی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : آپ نے اس سے ارادہ اس کا کیا ہے جس کے ساتھ وہ نشہ میں مبتلا ہوجائے جیسا کہ کسی کو قتل کے وجود کے بغیر قاتل کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : پس یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام طحاوی (رح) کے نزدیک وہ حرام ہے ان کے اس قول کی وجہ ہے : پس اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ واجب ہے کہ ہر نشہ آور مشروب کو حرام قرار دیا جائے۔ اور دار قطنی نے اپنی سنن میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے خمر کو اس کے نام کی وجہ سے حرام نہیں کیا بلکہ اس کے انجام کی وجہ سے اسے حرام کیا ہے، پس ہر شراب کا انجام خمر کے انجام کی مثل ہی ہوتا ہے پس وہ خمر کے حرام ہونے کی طرح ہی حرام ہوگی۔ ابن منذر نے کہا ہے : اہل کوفہ معلول اخبار لائے ہیں، اور جب لوگوں کا کسی شے کے بارے اختلاف ہوجائے تو پھر اسے کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی طرف لوٹانا واجب ہے۔ اور بعض تابعین کے بارے میں جو یہ مروی ہے کہ انہوں نے وہ شراب پی ہے جس کی کثیر مقدار نشہ دیتی ہے تو یہ قوم کے گناہ ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت طلب کریں گے، اور یہ دو معنوں میں سے ایک سے خالی نہیں ہے کہ یا تو وہ خطاکار ہے اس حدیث کی تاویل میں اس نے خطا کی ہے جو اس نے سنی یا آدمی سے گناہ صادر ہوا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کثرت سے کرے، اور حضور نبی مکرم ﷺ اس امت کے اولین و آخرین پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہیں۔ اور آیر کی تاویل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشک یہ عبرت کے لئے ذکر کی گئی ہے یعنی جو (ذات) ان اشیاء کو پیدا کرنے پر قادر ہے وہ یقیناً دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اور یہ اعتبار اس سے مختلف نہیں ہوتا کہ خمر حلال ہو یا حرام، پس السکر (رس) بنانا تحریم پر دلالت نہیں کرتا، اور یہ اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس (البقرہ :219) (آپ فرمائیے : ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور کچھ فائدے بھی ہیں لوگوں کے لئے) ۔ واللہ اعلم۔
Top