Al-Qurtubi - Al-Kahf : 74
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗ١ۙ قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِیَّةًۢ بِغَیْرِ نَفْسٍ١ؕ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّكْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّىٰٓ : یہانتک کہ اِذَا : جب لَقِيَا : وہ ملے غُلٰمًا : ایک لڑکا فَقَتَلَهٗ : تو اس نے اس کو قتل کردیا قَالَ : اس نے کہا اَقَتَلْتَ : کیا تم نے قتل کردیا نَفْسًا : ایک جان زَكِيَّةً : پاک بِغَيْرِ : بغیر نَفْسٍ : جان لَقَدْ جِئْتَ : البتہ تم آئے (تم نے کیا) شَيْئًا : ایک کام نُّكْرًا : ناپسندیدہ
پھر دونوں چلے یہاں تک کہ (راستہ میں) ایک لڑکا ملا تو (خضر نے) اسے مار ڈالا (موسی نے) کہا کہ آپ نے ایک بےگناہ شخص کو (ناحق) بغیر قصاص کے مار ڈالا (یہ تو) آپ نے بری بات کی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : غلما علماء کا غلام کے بارے میں اختلاف کیا ہے، کیا وہ بالغ تھا یا نہیں ؟ کلبی نے کہا : وہ بالغ تھا وہ دو شہروں کے درمیان ڈاکہ ڈالتا تھا اس کا باپ ان دو شہروں میں ایک شہر کے عظماء میں سے تھا اور اس کی ماں دوسرے شہر کے عظماء میں سے تھی۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اسے پکڑا اور اسے گرا دیا اور اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ کلبی نے کہا : غلام کا نام شمعون تھا۔ ضحاک نے کہا : حیسون تھا۔ وہب نے کہا : اس کا باپ کا نام سل اس اور اس کی ماں کا نام رحمی تھا۔ سہیلی نے اس کے باپ کا نام زیر اور اس کی ماں کا نام سہوی حکایت کیا ہے۔ جمہور علماء نے کہا : وہ بالغ نہ تھا، اسی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : زاکۃ جس نے گناہ نہ کیا تھا، غلام کا لفظ بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ مردوں میں غلام اسے کہا جاتا ہے جو بالغ نہ ہو، اس کے مقابل عورتوں میں جاریۃ (لڑکی) ہوتی ہے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اسے قتل کیا کیونکہ آپ نے اپنے علم باطنی سے جان لیا تھا کہ وہ کافر ہے جیسا کہ حدیث صحیح ہے (2) ، اگر وہ بالغ ہوجاتا تو وہ اپنے والدین کو کفر پر مجببور کرتا، چھوٹے بچے کو قتل کرنا محال نہیں جب اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہو، اللہ تعالیٰ فعال بما یرید ہے۔ ہر چاہت پر قادر ہے اور کتاب (العرائس) میں ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا : اقتلت نفساً زکیۃ الایۃ تو حضرت خضر (علیہ السلام) غضبناک ہوگئے اور اس کے کندھے کو الگ کیا اس کا گوشت اس سے اتار دیا اس کے کندھے کی ہڈی پر لکھا ہوا تھا : کافر للا یومن من بب اللہ ابداً ۔ ” کافر ہے کبھی اللہ پر ایمان نہیں لائے گا “ پہلے قول والے علماء نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ عرب نوجوان پر غلام کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ لیلی الاخلیلیۃ کا قول ہے : شفاھا من الداء العضا الذی بھا غلام اذا ھز القناۃ سقاھا صفوان نے حضرت حسان کو کہا تھا : تلق ذباب السیف عنی فاننی غلام اذا ھو جیت لست بشاعر خبر میں ہے : یہ غلام (لڑکا) زمین میں فساد پھیلاتا تھا اور اپنے والدین کے سامنے قسم اٹھاتا تھا کہ اس نے ایسا نہیں کیا ہے اور اس کے والدین اس قسم پر قسم اٹھاتے تھے اور اس کی اس شخص سے حفاظت کرتے تھے جو اسے پکڑنا چاہتا تھا۔ علماء نے کہا : بغیر نفس کا قول اس بات کا مقتضی ہے کہ اگر وہ کسی نفس کے بدلے میں قتل ہوتا تو کوئی حرج نہ ہوتی۔ یہ غلام کے بڑا ہونے پر دلیل ہے۔ اگر وہ بالغ نہ ہوتا تو اسے کسی نفس کے بدلے قتل کرنا بھی واجب نہ ہوتا، اس کا قتل کرنا جائز تھا کیونکہ بالغ اور گنہگار تھا۔ حضرت اببن عبب اس ؓ نے فرمایا : وہ نوجوان تھا ڈاکہ ڈالتا تھا۔ ابن جبیر کا خیال ہے کہ وہ مکلفین کی صفات سے ہیں غیر مکلف پر کفر کا اطلاق نہیں کیا جاتا مگر والدین کی تبع میں اور اس غلام کے والدین مومن تھے، جسکی دلیل نص قرانی ہے اور اس پر کافر کے اسم کا اطلاق بلوغت کی وجہ سے ہی تھا، پس اس کا کافر ہونا متعین ہوجاتا ہے۔ الغلام، الاغتلام سے ہے جس کا معنی بہت زیادہ شہوت والا ہونا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نکراً علما کا اختلاف ہے کہ نراً ابلغ ہے یا امرا۔ ایک جماعت نے کہا : یہ قتل واضح ہے اور کشتی والوں کے ڈبونے کا انتظار تھا پس نکرا زیادہ بلیغ ہے۔ ایک جماعت نے کہا : یہ ایک شخص کا قتل ہے اور وہ پوری جماعت کا قتل ہے۔ پس امراً زیادہ بلیغ ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : میرے نزدیک دونوں میں مختلف معانی ہیں۔ امراً… ایک بہت بڑی ہولناکی ظاہر کر رہا ہے جو متوقع ہے اور نکراً ۔ فساد میں واضح ہے کیونکہ ظاہراً ایک ناپسندیدہ کام واقع ہوچکا ہے۔ اور یہ واضح ہے۔
Top