Al-Qurtubi - An-Naml : 10
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ
وَكَمْ قَصَمْنَا : اور ہم نے کتنی ہلاک کردیں مِنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں كَانَتْ : وہ تھیں ظَالِمَةً : ظالم وَّاَنْشَاْنَا : اور پیدا کیے ہم نے بَعْدَهَا : ان کے بعد قَوْمًا : گروہ۔ لوگ اٰخَرِيْنَ : دوسرے
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو سمتگار تھیں ہلاک کرمارا اور ان کے بعد اور لوگ پیدا کردیئے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و کم قصمنا من قریۃ کا نت ظالمۃ قریۃ سے مراد وہ شہر ہیں جو یمن میں تھے۔ اہل تفسیر اور مؤخرین نے کہا : اس سے مراد اہل حضور ہیں۔ یہ قوم وہ تھی جن کی طرف ایک نبی مبعوث کیا گیا تھا جس کا نا شعیب بن ذی مہدم تھا اور اس شعیب نبی کی قبر یمن میں ایک پہاڑ کے پاس ہے جس کو ضنن کہا جاتا ہے اس میں کثیر نمک ہے۔ یہ شعیب صاحب مدین نہیں ہیں کیونکہ حضور کا قصہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مدت سے پہلے کا ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مدت سے دو سو سال بعد ہوا ہے۔ ان لوگوں نے اپنے نبی کو قتل کیا تھا اور اصحاب الرس نے اسی تاریخ میں اپنے نبی کو قتل کیا تھا ان کا نام حنظلہ بن صفوان تھا۔ حضور شہر حجاز کی زمین شام کی طرف میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ارمیاء کی طرف وحی کی بخت نصر کے پاس جائو اور اسے بتائو کے میں نے اسے عرب کی زمین پر تسلط بخشا ہے اور میں تیرے ذریعے ان سے انتقام لینے والا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ارمیان کی طرف وحی کی معد بن عدنان کو براق پر سورا کر کے عراق کی زمین کی طرف بھیج تاکہ اسے ان کے ساتھ عذاب اور مصیبت نہ پہنچے کیونکہ میں اس کی صلب سے نبی آخر الزماں کو نکالنے والا ہوں جس کا نام محمد ہے۔ معد کو ارمیانے سوار کیا جبکہ وہ بارہ سال کا تھا۔ معد، بنی اسرائیل کے ساتھ رہا یہاں تک کہ وہ بڑا ہوا اور ایک عورت سے نکاح کیا جس کا نام عانۃ تھا۔ پھر بخت نصر لشکروں کو لے کر گیا اور عربوں کے لیے کمین گاہیں بنائیں یہ پہلا شخص تھا جس نے کمین گاہیں بنائی تھیں۔ پھر اس نے اہل حضول پر کئی حملے کیے انہیں قتل کیا اور بعض کو قیدی بنایا اور آبادیوں کو خراب کیا اس نے حضور شہر کا نام و نشان مٹا دیا پھر وہ السوادا کی طرف لوٹا۔ کم، قصمنا کی وجہ سے منصوب ہے۔ اقصم کا معنی توڑ پھوڑ کرنا ہے، کہا جاتا ہے : قصمت ظھر فلان۔ فلاں کی پیٹھ میں نے توڑ دی۔ انقصمت سنۃ اس کا دانت ٹوٹ گیا۔ یہاں القصم کا معنی ہلاک کرنا ہے۔ الفصم (فائ) کسی چیز میں ایسی پھٹن جو واضح نہ ہو۔ شاعر نے کہا : کانہ دملج من فضۃ نبہ فی ملعب من عذاری الحی مفصوم اسی سے حدیث ہے : فیفصم عنہ و ان جبینہ لیتفصد عرقا، (1) جب آپ سے وحی ختم ہوئی تو پیشانی سے پسینہ بہہ نکلتا تھا۔ کا نت ظالمۃ یعنی اس شہر والے کافر تھے۔ الظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے مقام پر نہ رکھنا۔ انہوں نے کفر کو ایمان کی جگہ رکھا۔ وانشانا یعنی ہم نے ان کو ہلاک کرنے کے بعد قوما اخرین۔ دوسری قوم کو پیدا کیا۔ فلما احسو جب انہوں نے ہمارے عذاب کو محسوس کیا۔ کہا جاتا ہے : أحست منہ ضعفا۔ میں نے اس سے کمزوری محسوس کی۔ اخفش نے کہا : احسو کا معنی ہے خافوا و تو قعوا خوف کھایا اور توقع کی۔ اذا ھم منھا یرکصون۔ یعنی وہ بھاگ رہے تھے۔ الرکض کا معنی ہے تیزی سے ڈوڑنا۔ الرکض کا معنی ہے پائوں کو حرکت دینا، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ارکض برجلک (ص :42) رکفت الفرس برجلی یعنی میں نے گھوڑے کو دوڑنے پر ابھارا۔ پھر یہ کثرت سے استعمال ہونے لگا حتی کہ بعض نے کہا : رکض الفرس ہو گھوڑا دوڑایا گیا۔ فھو مرکوض۔ لا ترکضو یعنی نہ بھاگو۔ و ارجعو الی ما اترفتم فیہ یعنی تم ان نعمتوں کی طرف لوٹو جو تمہارے تکبر و غرور کا سبب تھیں۔ المترف جس پر انعام کیا گیا ہو۔ کہا جاتا ہے : اترف علی فلان یعنی معیشت میں خوشحالی دی گی ہے۔ انما اترفھم اللہ عزوجل۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشحالی دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : و اترفنھم فی الحیوۃ الدنیا (المومنون :33) ہم نے دنیوی زندگی میں انہیں خوشحالی دی۔ لعلکم تسئلون۔ تاکہ تم سے دنیا کی کسی چیز کا سوال کیا جائے : یہ ان سے استہزاء کیا گیا، یہ قتادہ کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی یہ ہے کہ کس وجہ سے تمہیں یہ سزا دی گئی پھر تم اس کے متعلق خبر دو ؟ بعض نے علماء نے فرمایا : لعلکم تسئلون۔ تاکہ تم سے ایمان لانے کا سوال کیا جائے جیسا کہ تم پر عذاب کے نزول سے پہلے یہ سوال کیا گیا تھا ان کو یہ استہزاء، تقریع اور توبیخ کے لیے کہا جائے گا۔ قالوا یویلنآ جب ملائکہ نے انہیں کہا : بھاگو مت اور کہا : انبیاء کا بدلہ ہے۔ انہوں نے کلام کرتے ہوئے کوئی شخص نہ دیکھا (جبکہ یہ آواز آرہی تھی) تو وہ جان گئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے دشمن کو مسلط کردیا ہے کیونکہ انہوں نے انبیاء کو قتل کیا ہے جو ان کی طرف مبعوث کیے گئے تھے۔ وہ اس وقت ان لوگوں نے کہا : یویلنا ان کنا ظلمین۔ انہوں نے ظالم ہونے کا اعتراف اس وقت کیا جب ان کا اعتراف نفع بخش نہ تھا۔ فما زالت تلک دعو ھم وہ ہمیشہ یہ کہتے رہے : یویلنا ان کنا ظلمین۔ شومی قسمت ! ہم ہی ظالم تھے۔ حتی جعلنھم حصیداً تلواروں کے ساتھ انہیں اس طرح کاٹ دیا جس طرح کھیتی درانتی کے ساتھ کاٹی جاتی ہے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ حسن نے کہا : عذاب کے ساتھ ہم نے انہیں کاٹ دیا۔ خبدین۔ مردہ تھے۔ الخمود کا معنی ہے آگ کی طرح بجھ جانا۔ زندگی کے بجھ جانے کو آگ کے بجھ جانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جیسے کہا جاتا ہے جو مرجاتا ہے : قد طفی آگ کے بجھ جانے کیساتھ تشبیہ دیا گیا ہے۔
Top