Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 11
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ
وَكَمْ قَصَمْنَا : اور ہم نے کتنی ہلاک کردیں مِنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں كَانَتْ : وہ تھیں ظَالِمَةً : ظالم وَّاَنْشَاْنَا : اور پیدا کیے ہم نے بَعْدَهَا : ان کے بعد قَوْمًا : گروہ۔ لوگ اٰخَرِيْنَ : دوسرے
(اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیاجن کے لوگ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے اور ان کے بعد دوسرے لوگ اٹھا کھڑے کیے۔
وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَھَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ ۔ (الانبیاء : 11) (اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیاجن کے لوگ اپنے جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے اور ان کے بعد دوسرے لوگ اٹھا کھڑے کیے۔ ) تاریخ کا حوالہ روئے سخن قریش ہی کی طرف ہے، ان سے کہا جارہا ہے کہ جس طرح تم ایک قوم کی حیثیت سے یہاں آباد ہو اور تمہاری طرف اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری رسول بھیجا ہے اسی طرح تم سے پہلے تم سے زیادہ وسیع سطح پر تم سے بڑی قومیں زمین کے مختلف حصوں میں آباد رہی ہیں ان کی طرف بھی مختلف وقتوں میں رسول بھیجے گئے لیکن جب انھوں نے رسول کی ہدایت کو قبول کرنے کی بجائے ظلم کا راستہ اپنایا یعنی بجائے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور اس کی اطاعت کرنے کے شیطان کی بندگی جاری رکھی اور اپنے نفس کے تقاضوں کی پیروی کرتے رہے اور اس طرح انھوں نے اپنے اوپر ظلم ڈھایا کہ جس مقصد کے لیے انھیں پیدا کیا گیا تھا اسے اختیار کرنے کی بجائے اور ہی چیزوں کو اپنا مقصد بنا لیا اور اپنے غلط رویئے سے اپنے اوپر ظلم ڈھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں پر بھی زیادتیاں کیں اور اللہ تعالیٰ کی زمین کو ظلم سے بھر دیا تو تب ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور ان کی تمام قوت و شوکت دھری رہ گئی۔ ان کی بیشمار فوجیں ان کا تحفظ نہ کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا عذاب آیا کہ ان کے پرخچے اڑا دیئے گئے۔ اب اگر تم بھی اسی راستے پر بڑھتے چلے جانے پر اصرار کررہے ہو اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کی دعوت قبول کرنے کی بجائے ہر ممکن طریقے سے اسے روکنے کے درپے ہو اور تم نے بھی وہی ظالمانہ روش اپنا لی ہے تو پھر یاد رکھو تمہارا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا۔ جس طرح آج وہ تاریخ میں عبرت کا سامان بن کے رہ گئے ہیں اسی طرح تم بھی کہانیوں کا عنوان بن کے رہ جاؤ گے۔ غلط فہمی کا ازالہ تمہیں یہ غلط فہمی ہے کہ اس علاقے کی رونق اور اس کی آبادی تمہارے دم سے ہے۔ تم نہ ہوتے تو حرم کی پاسبانی کون کرتا اور اللہ تعالیٰ کے گھر طواف و زیارت کے لیے آنے والوں کی دیکھ بھال کون کرتا۔ گویا اس سرزمین کی مانگ کے تم سیندور ہو۔ تمہارے نہ رہنے سے یہ بستی اجڑ جائے گی۔ یاد رکھو پہلی تباہ ہونے والی قومیں بھی اسی پندار کا شکار تھیں۔ انھیں بھی یہ زعم تھا کہ ہم نہ ہوئے تو یہ گلستاں بھی باقی نہیں رہے گا۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ جس اللہ تعالیٰ نے انھیں اس دھرتی پر آباد کیا ہے اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ انھیں مٹا دے اور کسی دوسری قوم کو یہاں آباد کردے۔ چناچہ دیکھ لو متذکرہ بالا قوموں کا انجام تمہارے سامنے ہے لیکن جس سرزمین پر وہ آباد تھے وہ زمین آج بھی اسی طرح سرسبز و شاداب ہے۔ زندگی کی رونقیں وہاں آج بھی رقصاں ہیں۔ البتہ وہ لوگ اپنی تباہی اور بربادی کو پہنچ چکے ہیں۔ اس میں تمہارے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ تم اپنی آبادی کے لیے اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس سرزمین کی آبادی کے لیے تمہارا محتاج نہیں۔
Top