Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 106
قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ
قَالُوْا : وہ کہیں گے رَبَّنَا : اے ہمارے رب غَلَبَتْ : غالب آگئی عَلَيْنَا : ہم پر شِقْوَتُنَا : ہماری بدبختی وَكُنَّا : اور ہم تھے قَوْمًا : لوگ ضَآلِّيْنَ : راستہ سے بھٹکے ہوئے
اے ہمارے پروردگار ! ہم پر ہماری کم بختی غالب ہوگئی اور راستے سے بھٹک گئے
آیت نمبر 106 تا 108 ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قالو ربنا غلبت علینا شقو تنا اہل مدینہ، ابو عمرو اور عاصم کی قرات شقوتنا ہے اور عاصم کے سوا کو فیوں نے شقاوتنا پڑھا ہے ؛ یہ قرآت حضرت ابن مسعود اورع حسن سے مروی ہے۔ کہا جاتا ہے۔ شقاء وشقا مد اور قصر کے ساتھ اور اس کے معنی میں بہتر قول یہ ہے کہ ہم پر ہماری لذات و خواہشات نفسانی غالب آگئیں۔ لذات اور خواہشات کو شقوۃ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ شقاوت تک پہنچاتی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان الذین یا کلون اموال الیتمی ظلما انما یا کلون فی بطونھم نارا (النساء : 10) کیونکہ یہ عمل انہیں آگ کی طرف لے جاتا ہے اس لئے فرمایا وہ اپنے پیٹوں میں آگ کھاتے ہیں۔ بعض نے فرمایا : اس کا مطلب ہے جو ہماری شقاوت تیرے علم میں پہلے تھی اور ام الکتاب میں ہمارے اوپر شقاوت لکھی گئی تھی۔ بعض نے فرمایا : شقاوت سے مراد یہ ہے کہ ہم پر اپنی ذات کے بارے میں حسن ظن اور مخلوق پر سوء ظن کا خیال غالب آگیا۔ و کنا قوما ضآ لین ہم اپنے فعل میں ہدایت سے گمراہ تھے۔ یہ ان کی طرف سے عذر نہیں بلکہ یہ اقرار ہے۔ اس پر دلیل یہ قول ہے : ربنا آخرجنامنھا فان عدنافانا ظلمون۔ وہ دنیا کی طرف لوٹتا طلب کریں گے جیسے موت کے وقت انہوں نے دنیا کی طرف لوٹنا طلب کیا تھا۔ فان عدنا اگر ہم کفر کی طرف لوٹے فانا ظلمون تو کفر کی طرف لوٹنے کی وجہ سے ظلم کرنے والے ہوں گے تو انہیں ہزار سال کے بعد جواب دیا جائے گا : اخسنوا فیھا ولا تکلمون۔ جہنم میں دور چلے جائو جیسے کتے کو کہا جاتا ہے : اخسا دور چلا جا، خسات الکلب خساء کا مطلب ہے میں کتے کو دہتکارا۔ خسا الکلب بنفسہ خسوا۔ کبھی یہ متعدی ہوتا ہے اور کبھی متعدی نہیں ہوتا۔ انخسا الکلب بھی استعمال ہوتا ہے۔ ابن المبارک نے کہا : ہمیں سعید بن ابو عروبہ نے بتایا انہوں نے قتا دہ سے روایت کیا انہوں نے ابوایوب سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن خاص سے روایت کیا فرمایا : اہل جہنم، مالک جہنم کے فرشتہ کو پکاریں گے وہ انہیں چالیس سال جواب نہیں دے گا پھر ان پر یہ لوٹائے گا کہ تم یہاں ٹھر نے والے ہوَ فرمایا : پھر وہ اپنے رب کو پکاریں گے اور کہیں گے۔ ربنا غلبت علینا شقو تناو کنا قوما ضآلین۔ پھر اللہ تعالیٰ ان پر یہ لوٹائے گا۔ اخسنو فیھا۔ فرمایا : اللہ کی قسم ! اس کے بعد قوم ایک کلمہ بھی نہیں کہہ سکے گی اور جہنم کی آگ میں صرف شیخ و پکار ہی ہوگی۔ ان کی آواز کو گدھے کی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کی ابتدائی آواز کو زفیر اور آخری آواز کو شہیق کہتے ہیں۔ اس روایت کو اما ترمذی نے مرفوع حضرت اب الدرداء کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ قتا دہ نے کہا : آگ میں کفار کی آواز گدھے کی آواز کی طرح ہوگی اس کا اول زفیر اور آخر شہیق کہلاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : کفار کیلئے کتے کی طرح بھونکنا ہوگا۔ محمد بن کعب قرظی نے کہا : مجھے خبر پہنچی ہے یا مجھے ذکر کیا گیا ہے کہ دوزخی، دوزخ کے فرشتوں سے مدد طلب کریں گے۔ یہ طویل خبر ہے۔ اس کو ابن المبارک نے ذکر کیا ہے۔ مکمل التذکرہ کتاب میں ذکر کی ہے اور اس کے آخر میں ہے پھر پہلے وہ انہیں کوئی جواب نہ دے گا جتنا عرصہ اللہ چاہے گا پھر انہیں ندادے گا : الم تکن ایتی تتلی علیکم فکنتم بھا تکذبون۔ فرمایا : جب وہ اللہ تعالیٰ کی آواز سنیں گے تو کہیں گے : اب ہمارا پر ودگار ہم پر رحم فرمائے گا۔ وہ اس وقت کہیں گے : ربنا غلبت علینا شقوتنا یعنی ہم پر ہماری کتاب غالب آگئی جو ہم پر لکھی گئی تھی۔ وکنا قوما ضالیں۔ ربنا اخرجنا منھا فان عدنا فانا ظالمون۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اخسنو فیھا ولا تکلمون اس وقت ان کی پکار اور دعا ختم ہوجائے گی وہ ایک دوسرے پر کتے کی طرح بونکیں گے اور پھر جہنم ان پر بند کردی جائیگی۔
Top