Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 100
فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَۙ
فَمَا لَنَا : پس نہیں ہمارے لیے مِنْ : کوئی شَافِعِيْنَ : سفارش کرنے والا (جمع)
تو (آج) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے
فما لنا من شافعین ہمارے کوئی شفیع نہیں فرشتوں میں سے انبیاء میں سے اور مومنوں میں سے۔ ولا صدیق حیم اور نہ کوئی مشفق دوست ہے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ کہا کرتے تھے : بھلائیوں کو لازم پکڑو کیونکہ وہ دنیا و آخرت کا سامان ہیں کیا تو جہنمیوں کا قول نہیں سنتا۔ فما لنا من شافعین۔ ولا صدیق حمیم۔ زمحشری نے کہا : شافع کی جمع ذکر کی کیونکہ شفاعت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور صدیق کو واحد ذکر کیا کیونکہ وہ تعداد میں تھوڑے ہیں کیا تو نہیں دیکھتا کہ انسان جب ظالم کے ظلم کا شکارہو تو اس کے شہر کی بڑی جماعت اس کی سفارش کے لیے جاتی ہے مقصد اس پر رحم و شفقت کا اظہارہوتا ہے اگرچہ اکثر کو پہلے اس کی پہچان تک نہ ہو جہاں تک صدیق کا تعلق ہے وہ ہوتا ہے جو تیری محبت میں سچا ہوتا ہے اسے وہ چیز غمگین کرتی ہے جو تجھے غمگین کرتی ہے۔ ایک حکیم سے مروی ہے اس سے صدیق کا معنی پوچھا گیا ہے۔ اس نے کہا : یہ ایسا اسم ہے جس کا کوئی معنی نہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ صدیق سے مراد جمع اور قریبی اور خاص حمایت ہو، اسی سے حامۃ الرجل ہے یعنی اس کے قریبی۔ اس کی اصل حمیم ہے اس سے مراد گرم پانی ہے اسی سے حمام اور حتی ہے حامۃ الرجل سے مراد وہ لوگ ہیں انہیں وہ جلائے جو اسے جلائے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ یحزنھم ما یحزنہ، یعنی انہیں وہ چیز غمگین کرتی ہے جو اسے غمگین کرتی ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : حم الشئی واحم جب وہ قریب ہوجائے۔ اسی سے حمی ہے کیونکہ یہ موت کے قریب کردیتا ہے۔ علی بن عیسیٰ نے کہا : قریبی کو حمیم کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ساتھی کے غصہ کی وجہ سے حمیت کا مظاہرہ کرتا ہے، اسے حمیت سے ماخوذ مانا ہے۔ قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز صدیق کی محبت اور حمیم کی رقت ختم کر دے گا۔ لا صدیق حمیم مرفوع پڑھنا بھی جائز ہے کیونکہ اس کا عطف من شافعین کے محل پر ہے کیونکہ من شافعین کا محل رفع ہے۔ صدیق کی جمع اصدقاء، صدقاء اور صداق ہے صدق نہیں کہا جاتا تاکہ نعت اور غیر میں فرق کیا جائے۔ کو فیوں نے کہا : اس کی جمع صدقان بھی آتی ہے۔ نحاس نے کہا : یہ بعید ہے کیونکہ یہ ایسی جمع ہے جو نعت نہیں۔ جس طرح ررغیف کی جمع رغفان آتی ہے۔ انہوں نے صدیق کی جمع اصادق بیان کی ہے۔ افاعل یہ فعل کی جمع ہے جب وہ نعت نہ ہو۔ جس طرح اشجع کی جمع اشاجع آتی ہے۔ صدیق کا لفظ واحد، جمع اور عورت کے لیے بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا : نعبن الھواء ثم ارتمین قلوبنا باعین اعداء ومن صدیق محل استدلال ھن صدیق ہے۔ من جمع مونث کی ضمیر ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : فلان صدیقی، فلاں میرا خاص دوست ہے۔ مدح کے لیے تصغیر بنائی ہے۔ جس طرح حباب بن منذر کا قول ہے : انا جذیلھا المحک و عذیقھا المرجب محل استدلال جچذیل اور عذیق ہے۔ جوہری نے اس کو ذکر کیا ہے۔ نحاس نے کہا : حمیم کی جمع احماء اور احمۃ ہے تضعیف کے لیے افلاء کے وزن کو مکروہ جانا ہے۔ فلو ان لنا کرۃ، ان محل رفع میں ہے اگر ہمارا دنیا کی طرف لوٹنا ہوتا تو ہم ایمان لاتے یہاں تک کہ ہمارے بھی شفیع ہوتے۔ انہوں نے اس وقت تمنا کی جب تمنا کوئی نفع نہیں دے گی۔ انہوں نے یہ بات اس وقت کی جب فرشتوں اور مومنوں نے شفاعت کی۔ حضرت جابر بن عبد اللہ نے کہا : نبی کریم ﷺ نے کہا : ’ ’ انسان جنت میں کہے گا جہنم میں فلاں اور اس کا دوست کا کیا معاملہ ہے وہ لگا تار اس کی سفارش کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں اس کی سفارش قبول کرلے گا۔ جب وہ نجات پا جائے گا تو مشرک کہیں گے۔ فمالنا من شافعین۔ ولا صدیق حمیم۔ حضرت حسن بصری نے کہا : کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کے ذکر پر جمع نہیں ہوتی جن میں کوئی جنتی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان سب میں اس کی شفاعت قبول کرلیتا ہے اہل ایمان ایک دوسرے کی شفاعت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ کعب نے کہا : وہ آدمی دنیا میں دوست تھے ان میں سے ایک اپنے ساتھی کے پاس گزرے گا جب کہ اسے جہنم کی طرف کھینچا جا رہا ہوگا، اس کا بھائی اسے کہے گا : اللہ کی قسم ! میری صرف ایک نیکی رہ گئی ہے جس کے ساتھ میں نجات پا سکتا ہوں تو وہ نیکی لے لے، اے میرے بھائی ! میرا خیال ہے تو اس کے ساتھ ( جہنم سے) نجات پائے جائے گا، پھر میں اور تو اصحاب اعراف میں رہیں گے۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ ان دونوں کے بارے میں حکم دے گا تو وہ دونوں جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ ان فی ذلک لایۃ وما کان اکثرھم مومنین۔ وان ربک لھو العزیز الرحیم۔ اس بارے میں بحث پہلے گزر چکی ہے۔ الحمد للہ۔
Top