Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 100
فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَۙ
فَمَا لَنَا : پس نہیں ہمارے لیے مِنْ : کوئی شَافِعِيْنَ : سفارش کرنے والا (جمع)
تو نہ اب کوئی ہمارا سفارشی ہے
فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ ۔ وَلاَ صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ ۔ فَلَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَـکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (الشعرآء : 100 تا 102) (تو نہ اب کوئی ہمارا سفارشی ہے۔ اور نہ کوئی غمخوار دوست۔ پس اگر ہمارے اختیار میں ہوتا دنیا میں واپس جانا تو ہم اہل ایمان میں سے ہوتے۔ ) حسرت کا اظہار یہ اظہارِ حسرت کے الفاظ ہیں، یعنی ہم دنیا میں جن کی شفاعت کی امید لگائے بیٹھے تھے اور جن کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ تھا کہ ان کا دامن تھام لینے سے آخرت میں کسی غم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج ان میں سے کوئی بھی یہاں موجود نہیں، سب ہوا ہوگئے۔ کوئی بھی سفارش کے لیے زبان کھولنے والا نہیں۔ جن کا عمر بھر جھنڈا اٹھائے پھرتے رہے ان میں سے آج کوئی ہماری حمایت و مدافعت کے لیے نظر نہیں آتا۔ پھر وہ اس تمنا کا اظہار کریں گے کہ کاش ہمیں ایک مرتبہ دنیا میں جانا نصیب ہوتا تو ہم ان مجرموں سے اظہارِ براءت کرتے اور ایمان لانے والوں میں سے بنتے۔ لیکن ان کی یہ تمنا بس تمنا ہی رہے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور اس کے رسولوں نے بار بار متنبہ کیا تھا کہ یہ دنیا دارالعمل ہے، یہیں آخرت کی تیاری کرنا ہوگی۔ اور موت سے اس کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے دوبارہ دنیا میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
Top