Al-Qurtubi - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
(خط سنا کر) کہنے لگی کہ اہل دربار میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو جب تک تم حاضر نہ ہو (اور اصلاح نہ دو ) میں کسی کام کو فیصل کرنے والی نہیں
( قالت یایھا۔۔۔۔ ) اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 :۔ قالت یایھا الملواء افتونی فی امری، ملا سے مراد قوم کے اشراف ہیں۔ سورة بقرہ میں اس کے بارے میں گفتگو گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس کے ساتھ ہزار سردار تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بارہ ہزار سردار تھے، ہر سردار کے ساتھ لاکھ سپاہی تھے۔ قیل سے مراد بڑے بادشاہ کے نیچے چھوٹے بادشاہ تھے اس نے اپنی قوم کے ساتھ حسن ادب کو مخلوط خاطر رکھا ہے اور اس معاملہ میں جو اسے لا حق ہوتا ہے، اس کا ذکر اس قول میں ہے : ما کنت قاطعۃ امرا حتی تشھدون تو اس بڑی مصیبت میں کیسے تم سے مشورہ نہ کروں ؟ سرداروں نے اسے وہ جواب دیا جس سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔ انہوں نے اسے اپنی قوت اور طاقت کا بتایا پھر معاملہ کو اس کی رائے کے سپرد کردیا۔ یہ سب کی جانب سے اچھا مشورہ تھا۔ قتادہ نے کہا : ہمارے سامنے یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ اس کے تین سو تیرہ آدمی تھے جو اہل مشورہ تھے ان میں سے ہر ایک دس ہزار افراد پر مشتمل لشکر کا سردار تھا۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ اس آیت میں مشورہ کی صحت پر دلیل ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا : وشادرھم فی الامر (آل عمران : 159) یا تو آراء سے مدد لی یا اولیاء کی خاطر مدارت تھی، اللہ تعالیٰ نے فضلاء کو اس قول کے ساتھ مدح کی وامرھم شوری بینھم ( شوریٰ : 38) مشاورت یہ قدیمی امر ہے اور جنگی معاملات میں اس کا خاص مقام ہے یہ بلقیس دور جاہلیت کی عورت تھی سورج کی عبادت کیا کرتی تھی قالت یایھا الملوا افتونی فی امری یا کنت فاطمعۃ امر حتی تشھدون تاکہ دشمنوں کے ساتھ برسر پیکار ہونے کے لیے ان کے عزم سے آگاہی حاصل کرے اور جو ان کے معاملہ کو درست کرے اس میں احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھے اور اپنی اطاعت پر ان کے فیصلہ سے آگاہی حاصل کرے اور یہ جانے کہ اگر وہ اپنی جانیں، اپنے اموال اور اپنے خون اس کے دفاع کے لیے خرچ نہ کریں تو ان میں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ ہوگی۔ اگر ان کا امر، احتیاط اور کدو کاوش کو مجتمع نہ ہو تو یہ ان کی اپنے دشمن کی مدد ہوگی اگر وہ خود امتحان نہ لے جو کچھ ان کے پاس ہے اور ان کے عزم کی قدرکو نہ پہچانے تو وہ بصیرت پر نہ ہوگی۔ بعض اوقات اس کا اپنی رائے سے استبداد اختیار کرنا اس کی طاعت میں کمزوری کو ثابت کرنا اور ان کا امور کی تقدیر میں دخل اندازی بنتی اس نے ان سے جو مشورہ لیا اور ان کی رائے لی تو یہ اس امر میں مددگار ثابت ہوا جس امر کا وہ ارادہ رکھتی تھی وہ ان کی شوکت کی قوت اور ان کی مدافعت کی شدت کا ملاحظہ کرنا تھا کیا آپ ان کے اس قول کو نہیں دیکھتے جو انہوں نے جواب دیا : نحن اولوا قوۃ اولوا باس شدید۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ان میں سے ایک کی قوت یہ تھی کہ وہ اپنے گھوڑے کو دوڑاتا جب وہ خوب تیز دوڑنے لگتا تو وہ اپنی رانوں کو ملاتا تو وہ اپنی طاقت سے گھوڑے کو دوڑنے سے روک لیتا۔ مسئلہ نمبر 3 :۔ والا مرالیک فانظری ما ذاتا مرین انہوں نے اپنی قوت، طاقت اور شدت کا اظہار کیا، پھر معاملہ کو اس کی رائے کے سپرد کردیا۔ جب وہ یہ کرچکے تو اس موقع پر اس نے بتایا کہ بادشاہ جب غلبہ پاتے ہیں تو وہ بستیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ اس کلام میں اسے اپنی قوم کے بارے میں خوف اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو عظیم جاننے کا تذکرہ ہے۔ وکذلک یفعلون ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ بلقیس کے قول میں ہے جس معنی کا اس نے ارادہ کیا اس کی تائید ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس میں حضرت محمد ﷺ اور آپ کی امت کو آگاہ کرنا ہے (1) وہب نے کہا : جب اس نے ان پر خط پڑھا وہ اللہ تعالیٰ کے نام کو نہ پہچان سکی۔ اس نے کہا : یہ کیا ہے ؟ کسی نے فرد نے بتایا : ہمارا گمان نہیں مگر یہ جنوں میں بڑا جن ہے جس کے ذریعے یہ بادشاہ اس امر پر قادر ہوجاتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے۔ سرداروں نے اسے خاموش کرا دیا، ایک اور نے کہا : میں انہیں تین عفریتوں میں سے دیکھتا ہوں۔ سرداروں نے اسے بھی خاموش کرا دیا۔ ایک نوجوان نے کہا جس کو علم تھا : اے بادشاہوں کی ملکہ ! حضرت سلیمان ایک بادشاہ ہے آسمان کے بادشاہ نے اسے عظیم ملک عطاء کیا ہے وہ کوئی کلام نہیں کرتا مگر اس کے شروع میں اپنے الٰہ کا نام لیتا ہے، اللہ یہ آسمان کے بادشاہ کا نام ہے رحمن اور رحیم اس کی صفات ہیں اس موقع پر اس نے کہا : افتونی فی امری انہوں نے جواب دیا : نحن اولوا قوۃ ہم قتال میں بڑے 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 258 قوی ہیں، واولو باس شدید جنگ اور مقابلہ کے وقت بڑی قوت والے ہیں۔ والا مرالیک معاملہ تیرے سرپد ہے۔ انہوں نے اس معاملہ کو اس کی طرف سپرد کردیا کیونکہ انہیں تجربہ تھا کہ اس کی رائے میں برکت ہے۔ فانظری ماذاتا مرین تو اس موقع پر اس نے کہا : ان الملوک ذا دخلوا قریۃ افسدوھا وجعنوا اعزۃ اھلھا اذلۃ وہ شرفاء کو ذلیل کردیتے ہیں تاکہ ان کے لیے امور درست ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے قول کی تصدیق کی۔ وکذلک یفعلون ابن انباری نے کہا : وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ پر واقف تام ہے۔ اللہ تعالٰ نے ان کے قول کی تحقیق کے طور پر کہا : وکذلک یفعلون اس کی مثل سورة اعراف میں ہے : قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ۔ یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ (الاعراف : 109) فرعون نے کا : فما ذا تامرون۔ ( الاعراف) ابن شجرہ نے کہا : یہ بلقیس کے قول میں ہے، وقف و کذلک یفعلون پر ہے یعنی جب حضرت سلیمان ہمارے شہروں میں داخل ہوں گے تو اس طرح کریں گے۔
Top