Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ : اور اتار دیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو ظَاهَرُوْهُمْ : جنہوں نے ان کی مدد کی مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ : سے صَيَاصِيْهِمْ : ان کے قلعے وَقَذَفَ : اور ڈال دیا فِيْ : میں قُلُوْبِهِمُ : ان کے دل الرُّعْبَ : رعب فَرِيْقًا : ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرتے ہو وَتَاْسِرُوْنَ : اور تم قید کرتے ہو فَرِيْقًا : ایک گروہ
اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو انکے قلعوں سے اتار دیا اور انکے دلوں میں دہشت ڈال دی تو کتنوں کو تم قتل کردیتے تھے اور کتنوں کو قید کرلیتے تھے
آیت وانزل الذین ظاھروھم من اھل الکتاب من صیاصیھم یہاں اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جنہوں نے لشکروں کی مدد کی، لشکروں سے مراد قریش اور غطفان ہیں یہ بنو قریظہ تھے۔ ان کا وقعہ گزرچکا ہے۔ آیت من صیاصیھم ان کے قلعوں میں ؛ اس کا واحد صیصہ ہے۔ شاعر نے کہا : فاصبحت الثیران صرعی واصبحت نسائتمیمیبتدرن الصیاصیا (1) بیل مردہ پڑے تھے اور تمیم قبیلہ کی عورتیں قلعوں کی طرف جلدی جلدی جا رہی تھیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ جولا ہے کا کانٹا جس کے ساتھ وہ تانے اور بانے کو درست کرتا ہے اسے صیصہ کہا جاتا ہے۔ درید بن صمہ نے کہا : فجئت الیہوالرماحتنوشہ کو قعالصیاصی فیالنسیجالممدد (2) میں اس کی طرف آیا جب کہ نیزے اسے نوچ رہے تھے جس طرح کانٹے بنے جانے والے کپڑے میں پڑتے ہیں۔ اسی سے صیصۃ الدیک ہے جو مرغ کے پائوں میں ہوتا ہے۔ صیاصی البقر سے مراد ان کے سینگ ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ وہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ بعض اوقات لوہے کا پھل کی جگہ ان کو نیزے پر لگایا جاتا ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : جذ اللہ صئمئہ اللہ تعالیٰ نے اس کی جڑ کاٹ دی۔ آیت وقذف فی قلوبھم الرعب فریقا تقتلون تم مردوں کو قتل کرتے ہو۔ آیت وتا سرون فریقا یہاں فریق سے مراد عورتیں اور بچے ہیں، جس طرح پہلے گزرا ہے۔ آیت واورثکم ارضھم ودیارھم واموالھم وارضا لم تطئو ھاجس زمین کو تم نے ابھی تک نہیں روندا۔ یزید بن رومان، ابن زید اور مقاتل نے کہا : مراد غزوہ حنین ہے۔ ابھی تک انہوں نے اس کا موقع نہیں پایا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کا ان سے وعدہ فرمایا تھا۔ قتادہ نے کہا : ہم یہ باتیں کرتے تھے اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے (3) ۔ حضرت حسن بصری نے کہا : اس سے مراد فارس وروم ہے (4) ۔ عکرمہ نے کہا : مراد وہ تمام علاقے ہیں جو قیامت تک فتح ہونگے (5) ۔ آیت وکان اللہ علی کل شیء قدیرا اس کی دو توجیہیں ہیں : (1) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بارے میں انتقام یا عفو جس کا بھی ارادہ کرے اس پر قادر ہے ؛ یہ محمد بن اسحاق کا نقطہ نظر ہے (6) ۔ (2) جن قلعوں اور بستیوں کو فتح کرنے کا ارادہ کرے اس پر قادر ہے ؛ یہ نقاش کا قول ہے (7) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آیت وکان اللہ علی کل شیء قدیرا اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ جن چیزوں کا وعدہ کیا ان پر قادر ہے اس کی مدد کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے عجز کا ثابت کرنا جائز نہیں۔ یہ کہا جاتا ہے : تاسرون، تاسرون یعنی سین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ؛ فراء نے اس کی حکایت بیان کی ہے۔
Top