Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 60
لَئِنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا٤ۖۛۚ
لَئِنْ : اگر لَّمْ يَنْتَهِ : باز نہ آئے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : روگ وَّالْمُرْجِفُوْنَ : اور جھوٹی افواہیں اڑانے والے فِي : میں الْمَدِيْنَةِ : مدینہ لَنُغْرِيَنَّكَ : ہم ضرور تمہیں پیچے لگا دیں گے بِهِمْ : ان کے ثُمَّ : پھر لَا يُجَاوِرُوْنَكَ : تمہارے ہمسایہ نہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : اس (شہر) میں اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند دن
اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جو مدینے (کے شہر) میں بری بری خبریں اڑایا کرتے ہیں (اپنے کردار) سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو انکے پیچھے لگا دینگے پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن
اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ (آیت) لئن لم ینتۃ المنافقون اہل تفسیر نے کہا : یہ تین اوصاف ایک شے کے ہیں۔ جس طرح سفیان بن سعید نے منصور سے وہ حضرت ابو رزین سے روایت نقل کرتے ہیں کہ (آیت) المنافقون والذین فی قلوبھم مرض والمرجفون فی المدینۃ سب ایک چیز ہیں یعنی انہوں نے ان اشیاء کو جمع کیا۔ وائو زائدہ ہے۔ جس طرح کہا : الیالملکالقرموابن الھامولیث الکتیبۃ فیامزدحم ملک، قرم، ابن ہمام، لیث الکتیبۃ سے ایک ہی ذات مراد ہے۔ سورة بقرہ میں یہ بحث گزرچکی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان میں ایسے لوگ تھے جو افواہیں اڑایا کرتے تھے، کچھ لوگ ایسے تھے جو شک کی بنا پر عورتوں کا پیچھا کیا کرتے تھے اور کچھ لوگ ایسے تھے جو مسلمانوں میں شک ڈالا کرتے تھے۔ عکرمہ اور شہر بن حوشب نے کہا : (آیت) الذین فی قلوبھم مرض سے مراد ہے جن کے دلوں میں بدکاری کا میلان ہے۔ طائوس نے کہا : یہ آیت عورتوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ سلمہ بن کہیل نے کہا : یہ بدکاروں کے بارے میں نازل ہوئی (1) ۔ معنی قریب قریب ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : المنافقون اور الذین فی قلوبھم مرض ایک ہی چیز ہیں۔ انہیں الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی دلیل سورة بقرہ کے آغاز میں منافقین والی آیت ہے۔ (آیت) المرجفون فی المدینۃ سے مراد ایسے لوگ ہیں جو مومنوں کو دشمنوں کے بارے میں بری خبریں دیا کرتے تھے جب رسول اللہ ﷺ کے چھوٹے لشکر باہر جاتے تو وہ کہتے : انہیں شہید کردیا گیا ہے یا انہیں شکست ہوگئی ہے اور دشمن تم تک پہنچا چاہتا ہے ؛ یہ قتادہ اور دوسرے لوگوں کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ کہا کرتے تھے اصحاب صفہ ایسے لوگ ہیں جن کی بیویاں نہیں، یہی لوگ عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت تھی جو فتنہ کو پسند کرنے کی بنا پر جھوٹی خبریں پھلایا کرتے تھے۔ بہتان لگانے والوں میں سے مسلمان لوگ بھی تھے لیکن وہ فتنہ کو پسند کرنے کی بنا پر اس میں داخل ہوئے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : ارجاف سے مراد فتنہ کو تلاش کرنا ہے (2) ۔ ارجاف سے مراد غم میں مبتلا کرنے کے لیے جھوٹ اور باطل کو عام کرنا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد دل کو حرکت دینا ہے۔ یہ جملہ کہا جاتا ہے : رجفت الارض فرجف رجفازمین میں حرکت ہوئی اور اس میں زلزلہ برپا ہوا۔ رجفان سے مراد شدید اضطراب ہے۔ رجاف سے مراد سمندر ہے، سمندر کے موجزن ہونے کی بنا پر اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ شاعر نے کہا : المطعمونالحم کلعشیۃ حتیتغیب الشمس فیالرجاف وہ ہر شام گوشت کھلاتے ہیں یہاں تک سورج سمندر میں غائب ہوجاتا ہے۔ ارجاف کی جمع اراجیف ہے اس کا معنی خبریں ہیں۔ قد ارجفوا فی الشی وہ اس میں داخل ہوئے۔ شاعر نے کہا : فانا وان عیرتمونا بقتلہوارجف بالاسلام باغوحاسد اگر تم ہمیں ان کے قتل پر عار دلاتے ہو اسلام میں باغی اور حاسد داخل ہوگیا ہے۔ ایک اور شاعرنے کہا : ابالاراجیف یابناللوم توعدنیوفیالاراجیف خلت اللوم والخور اے کمینے ! کیا تو مجھے اراجیف کی دھمکی دیتا ہے اور تو نے گمان کیا کہ اراجیف میں ملامت اور ذلت ہے۔ ارجاف حرام ہے کیونکہ اس میں اذیت ہوتی ہے۔ آیت اس امر پر دال ہے کہ ارجاف کے ذریعے اذیت دینا حرام ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ (آیت) لنغرینک بھم ہم تجھے ان پر مسلط کردیں گے تو آپ قتل کے ذریعے ان کی جڑیں کاٹ دیں گے (1) ۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : وہ عورتوں کو اذیت دینے سے نہ رکے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ان پر تسلط عطا کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ولاتصل علی احدمنھم مات ابداولاتقم علی قبرہ (التوبہ : 84) اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کرتے کا حکم دیا ہے۔ یہ ہی وہ اغراء ہے۔ محمد بن یزید نے کہا : اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ان پر اس آیت میں جو اس آیت کے بعد ہے تسلط عطا فرمایا جبکہ کلام اس کے ساتھ متصل ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (آیت) اینماثقفوا اخذوا وقتلوا تقتیلا اس آیت میں ان کو قتل کرنے اور ان کو پکڑنے کا امر ہے جب ہو نفاق اور ارجاف پر قائم رہیں تو یہ ان کا حکم ہے۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے : خمس یقتلن فی الحل والحرام (2) پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کو حل اور حرم میں قتل کیا جائے گا۔ اس میں امر کا معنی ہے یہ حدیث آیت کی طرح حکم میں برابر ہے۔ نحاس نے کہا : اس آیت کی تعبیر میں جو اقوال کیے جاتے ہیں ان میں سے یہ سب سے خوبصورت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ ارجاف سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آپ کو تسلط عطانہ کیا۔ لنغرینک کالام لام قسم ہے، قسم اسی پر واقع ہورہی ہے۔ ان پر لام داخل کیا گیا تاکہ قسم کا شعور دلائے۔
Top