Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 6
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ١ؕ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِكُمْ مَّعْرُوْفًا١ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
اَلنَّبِيُّ : نیی اَوْلٰى : زیادہ (حقدار) بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے مِنْ : سے اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں وَاَزْوَاجُهٗٓ : اور اس کی بیبیاں اُمَّهٰتُهُمْ ۭ : ان کی مائیں وَاُولُوا الْاَرْحَامِ : اور قرابت دار بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلٰى : نزدیک تر بِبَعْضٍ : بعض (دوسروں سے) فِيْ : میں كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور مہاجرین اِلَّآ اَنْ : مگر یہ کہ تَفْعَلُوْٓا : تم کرو اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَوْلِيٰٓئِكُمْ : اپنے دوست (جمع) مَّعْرُوْفًا ۭ : حسن سلوک كَانَ : ہے ذٰلِكَ : یہ فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مَسْطُوْرًا : لکھا ہوا
پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور رشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے مسلمانوں اور مہاجرین سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو (تو اور بات ہے) یہ حکم کتاب (یعنی قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے
اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ آیت النبی اولی بالمومنین من انفسھم یہ وہ آیت ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو زائل فرمایا جو ابتدائے اسلام میں تھے۔ (1) نبی کریم ﷺ اس آدمی کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس کے ذ مہ کوئی قرض ہوتا جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتوحات سے نوازا فرمایا : ” میں مومنوں سے ان کی ذاتوں سے زیادہ قریب ہوں جو مومن فوت ہو اور اس پر قرض ہو تو اس قرض کو ادا کرنا میں ذمہ داری ہے اور جو مال چھوڑ جائے تو اس کے وارثوں کا ہے “ (1) ۔ دونوں صحیحوں نے نقل کیا ہے۔ ان میں یہ بھی ہے : ” تم میں سے جو قرض یا بال بچے چھوڑجائے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں “۔ ابن عربی نے کہا : اب معاملہ گناہوں کی صورت میں پلٹ گیا ہے اگر وہ مال چھوڑ جائیں تو عصبات اس میں شریک ہوں گے اور اگر وہ بال بچے چھوڑ جائیں تو ان کو رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردیا جائے گا۔ اس آیت میں ولایت مذکورہ کی یہ تفسیر اس تفسیر کی طرح ہے جو نبی کریم ﷺ نے فرمائی اور تنبیہ کی۔ ولا عطر بعد عروس عروس کے بعد کوئی عطر نہیں (2) ۔ ابن عطیہ نے کہا : علماء عارفین میں سے ایک نے کہا : نبی کریم ﷺ ان کے نفسوں سے زیادہ خیر خواہ ہیں کیونکہ ان کے نفوس انہیں ہلاکت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور نبی کریم ﷺ انہیں نجات کی طرف بلاتے ہیں۔ اسی امر کی تائید نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد کرتا ہے : انا آخذ بحجزکم عن النار وانتم تقحمون فیھا تقحم الفراش (3) میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کی جہنم سے بچارہا ہوں جب کہ تم اس میں یوں داخل ہونا چاہتے ہو جس طرح پتنگ آگ میں گرتا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس آیت کے معنی اور تفسیر میں یہ اچھا قول ہے۔ وہ حدیث جو ذکر کی گئی ہے اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : انما مثلی ومثل امتی کمثل رجل استوقد نارا فجعلت الدواب والفراش یقعن فیہ وانا اخذ بحجزکم وانتم تقحمون فیہ (1) میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو آگ کو روشن کرتا ہے تو جاندار اور پتنگے اس میں گرنا شروع ہوجاتے ہیں میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کر آگ سے بچا رہا ہوں جب کہ تم اس میں گرنا چاہتے ہو۔ حضرت جابر ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے : وانتم تفلتون من یدی جب کہ تم میرے ہاتھ سے نکلے جارہے ہو۔ علماء نے کہا : حجزہ پائجاموں کے لیے اور معقد تہبند کے لیے ہوتا ہے۔ مراد وہ جگہ ہے جہاں ان کی گرہ باندھی جاتی ہے۔ جب کوئی اس آدمی کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے جس کے گرنے کا خوف ہو تو اس کی یہی جگہ پکڑتا ہے۔ یہ اس میں مثال ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ ہماری نجات کے لیے تگ و دو کرتے ہیں اور وہ ہلاکتیں جو ہمارے سامنے ہیں ان سے ہمیں بچانے کے حریص ہیں۔ پس آپ ﷺ ہمارے ہماری جانوں سے زیادہ خیر خواہ ہیں۔ ہم اس سے ناواقف ہیں، ہم پر ہماری شہوتوں کا غلبہ ہے اور ہمارا لعین دشمن ہم پر کامیاب ہوجاتا ہے تو ہم فراش سے زیادہ حقیر اور پتنگ سے زیادہ ذلیل ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الابااللہ العلی العظیم۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آیت اولی بھم سے مراد ہے جب آپ کسی چیز کا حکم دیں اور نفس کسی اور چیز کی طرف دعوت دے تو نبی کریم ﷺ کا حکم اطاعت کے زیادہ لائق ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اولی بھم سے مراد ہے آپ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ مومنوں کو حکم دیں تو آپ ﷺ کا حکم ان کی ذاتوں میں نافذ ہو یعنی جو وہ اپنے بارے میں حکم دیتے ہیں اور وہ آپ کے حکم کے خلاف ہوتا ہے اس کی بجائے آپ کا حکم اطاعت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ بعض علماء نے کہا : امام پر لازم ہے کہ فقراء کا قرض بیت المال سے ادا کرے وہ اس امر میں نبی کریم ﷺ کی اقتدا کرے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس کے وجوب کی تصریح کی ہے۔ فرمایا : فعلی قضاء ہ، الضیاع یہ ضیاع کا مصدر ہے۔ پھر یہ لفظ ہر اس چیز کا نام بنادیا گیا جو ضائع ہوا چاہتی ہو خواہ وہ اس کے عیال سے تعلق رکھتی ہو یا وہ بیٹے ہوں، جن کا کوئی کفیل نہ ہو اور مال ہو جس کا کوئی نگہبان نہ ہو۔ زمین کو ضیعہ کا نام دیا کیونکہ وہ ضائع ہونے کے لیے پیش کی جاتی ہے۔ اس کی جمع ضیاع ضاد کے کسرہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ آیت وازواجہ امھتھم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی ازواج کو شرف سے نوازا کہ انہیں مومنوں کی مائیں بنا دیا، یعنی ان کی تعظیم، ان کے ساتھ حسن سلوک، ان کی تکریم اور مردوں کے ساتھ ان کے نکاح کی حرمت واجب ہے اسی طرح اپنی مائوں کے برعکس ان سے پردہ کرنا واجب ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب ان کی شفقت مائوں کی شفقت جیسی ہے تو انہیں مائوں کے قائم مقام رکھا۔ پھر یہ ماں کا رشتہ میراث کو ثابت نہیں کرے گا جس طرح متبنی ہونے کی وجہ سے ماں کا رشتہ وراثت کو ثابت نہیں کرتا۔ ان کی بیٹیوں سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا جائز ہے انہیں لوگوں کی بہنیں نہیں بنایا جائے گا۔ آیت تطہیر میں نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کی تعداد کا ذکر آئے گا۔ انشاء اللہ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ کیا وہ مردوں اور عورتوں کی مائیں ہیں یا صرف مردوں کی مائیں ہیں ؟ اس بارے میں دو قول ہیں : امام شعبی نے مسروق سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں ایک عورت نے آپ سے کہا : اے ماں ! حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا : میں تیری ماں نہیں ہوں۔ میں صرف تمہارے مردوں کی ماں ہوں (1) ۔ ابن عربی نے کہا : یہ صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں : عورتوں کے سوا مردوں کے لیے اس حکم کی اباحت کے حصر کے اختصاص میں کوئی فائدہ نہیں میرے لیے جو امر ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ وہ مردوں اور عورتوں کی مائیں ہیں۔ مقصد اس حق کی عظمت کا اظہار ہے جو حق ان کا مردوں اور عورتوں پر ہے جس پر آیت کا ابتدائی حصہ دلالت کرتا ہے : آیت النبی اولی بالمومنین من انفسھم۔ یہ حکم بدیہی طور پر مردوں اور عورتوں کو شامل ہوگا۔ اس پر حضرت ابوہریرہ اور حضرت جابر ؓ کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان : آیت وازواجہ امہتھم سب کی طرف لوٹ رہا ہے۔ پھر حضرت ابی کے مصحف میں وازواجہ امہتھم وھو اب لھم کے الفاظ ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے پڑھا من انفسھم وھو اب لھم وازواجہ امھتھم یہ سب کچھ اس موقف کو کمزور کردیتا ہے جسے مسروق نے روایت کیا اگر ترجیح کی جہت سے وہ صحیح ہو۔ اگر وہ صحیح نہ ہو تو تخصیص میں اس سے استدلال ساقط ہوجاتا ہے اور ہم اس اصل پر باقی رہ جاتے ہیں جو عموم ہے وہ عموم جو ذہنوں کی طرف جلدی سبقت لے جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ آیت واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ مومنین سے مراد انصار اور مہاجرین سے مراد قریش ہیں اس میں دو قول ہیں : (1) ہجرت کی وجہ سے جو وراثت جاری تھی اس کو منسوخ کردیا۔ سعید نے قتادہ سے روایت نقل کی ہے کہ سورة الانفال میں یہ حکم نازل ہوا : آیت والذین آمنو ولم یھاجرو مالکم من ولا یتھم من شیء حتی یھاجروا (الانفال : 73) مسلمان باہم ہجرت کی وجہ سے وارث بننے لگے۔ کوئی بدو مسلمان اپنے قریبی مسلم مہاجر کا اس وقت تک وارث نہ بنتا یہاں تک کہ وہ ہجرت کرتا پھر اس سورت میں اس حکم کو منسوخ کردیا گیا آیت واو لوا الارحام بعضھم اولی ببعض۔ (2) یہ اس وراثت کے حکم کے لیے ناسخ ہے جو وراثت باہمی معاہدہ اور دینی مواخات کی وجہ سے جاری تھی۔ ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے وہ حضرت زبیر ؓ سے روایت کرتے ہیں آیت واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جماعت قریش جب مدینہ طیبہ آئے تو ہمارے پاس کوئی مال وغیرہ نہیں تھا۔ ہم نے انصار کو بہت ہی اچھا بھائی پایا ہم نے ان سے مواخات قائم کی انہیں نے ہمیں اپنا وارث بنایا اور ہم نے انہیں وارث بنایا۔ حضرت ابوبکر صدیق حضرت خارجہ بن زید کے ساتھ بھائی بنے اور میں حضرت کعب بن مالک سے بھائی بنا میں اس کے پاس پہنچا میں نے اسے پایا کہ اسلحہ نے اسے بوجھل کیا ہوا ہے اللہ کی قسم ! اگر وہ اس وقت دنیا سے فوت ہوتے تو میرے سوا ان کا کوئی وارث نہ ہوتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا تو ہم اپنی اپنی وراثتوں کی طرف لوٹ گئے (2) ۔ حضرت عروہ سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر اور حضرت کعب بن مالک کے درمیان مواخات قائم کی حضرت کعب غزوہ احد کے موقع پر مرتث ہوئے (وہ مجاہد جسے میدان جنگ سے باہر لایا جائے اور اس میں زندگی کے آثار ہوں) حضرت زبیر ؓ ان کی سواری کو لگام پکڑ کر لائے اگر اس روز حضرت کعب ضح اور ریح (کثیر مال) کے ساتھ فوت ہوجاتے تو حضرت زبیر ان کے وارث ہوتے، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ آیت واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو واضح کیا کہ رشتہ داری باہمی معاہدہ سے اولی ہے۔ جو باہمی معاہدہ سے وراثت جاری ہوئی اس کو ترک کردیا گیا اور وہ قرابت سے وارث ہوئے۔ سورة الانفال میں ذوی الارحام کے وارث بننے کے احکام گذرچکے ہیں۔ آیت فی کتاب اللہ میں احتمال ہے کہ مراد قرآن حکیم ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ مراد لوح محفوظ ہو جس میں مخلوق کے احوال کا فیصلہ کردیا گیا۔ آیت من المومنین جار مجرور اولی کے متعلق ہے۔ اولوالارحام کے متعلق نہیں۔ یہی اجماع ہے کیونکہ یہ بعض مومنوں کی تخصیص کو ثابت کرتا ہے اس کے عموم میں کوئی اختلاف نہیں۔ یہی اس کے اشکال کا حل ہے ؛ یہ ابن عربی کا قول ہے (1) ۔ نحاس نے کہا (رح) : آیت واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین یہ جائز ہے کہ من المومنین، اولو کے متعلق ہو تو تقدیر کلام یہ ہوگی واولوالارحام من المومنین والمھاجرین یہ جائز ہے کہ معنی ہو مومنین سے اولی۔ مہدوی نے کہا : ایک قول یہ کیا گیا ہے اس کا معنی ہے اولو الارحام ان میں سے بعض بعض سے کتاب اللہ میں قریبی ہیں مگر نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے لیے یہ جائز ہے کہ انہیں امہات المومنین کے نام سے پکارا جائے۔ مسئلہ نمبر 5۔ اس میں اختلاف ہے کہ وہ مائوں کی طرح ہوں حرمت کے اعتبار سے اور انہیں دیکھنے کے اعتبار سے۔ اس بارے میں دو قول ہیں : (1) وہ محرم ہیں انہیں دیکھنا حرام نہیں (2) انہیں دیکھنا حرام ہے کیونکہ ان کے ساتھ نکاح کرنا اس لیے تھا کہ ان کے بارے میں جو نبی کریم ﷺ کا حق ہے اس کی حفاظت کی جائے۔ آپ ﷺ کے حق کی حفاظت اس میں ہے کہ ان کی طرف دیکھنا بھی حرام ہو، کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جب کسی بچے کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دینا چاہتیں تو آپ اپنی بہن اسماء کو کہتیں کہ وہ اسے دودھ پلادے تاکہ وہ ان کا بھانجا بن جائے تو وہ آپ کا محرم بن جاتا جس کے لیے آپ کو دیکھنا مباح ہوجاتا۔ جن عورتوں کو رسول اللہ ﷺ نے ظاہری زندگی میں طلاق دے دی ان کے لیے حرمت کے ثبوت میں تین اقوال ہیں : (1) رسول اللہ ﷺ کی حرمت کو غلبہ دیتے ہوئے ان کے لیے بھی یہ حرمت ثابت ہوجائے گی۔ (2) ان کے لیے یہ حرمت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ وہ تمام دوسری عورتوں کی طرح ہوں گی، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ان کی عصمت کو ثابت کیا اور فرمایا : ” دنیا میں جو میری بیویاں ہیں وہی آخرت میں میری بیویاں ہوں گی “۔ (3) ان میں سے جن کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے حقوق زوجیت ادا کیے ان کی حرمت ثابت ہوگی اور اس کے ساتھ نکاح کرنا بھی حرام ہوگا اگرچہ آپ نے اسے طلاق دے دی۔ مقصد ان کی حرمت کی حفاظت اور آپ کی خلوت کی نگہبانی تھی۔ جس کے ساتھ دخول نہ کیا ان کے لیے یہ حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ حضرت عمر ؓ نے ایک عورت کا رجم کرنے کا ارادہ کیا جس سے رسول اللہ ﷺ نے جدائی اختیار کی تھی۔ اور اس عورت نے بعد میں شادی کی تھی۔ اس عورت نے کہا : یہ حکم کس وجہ سے ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر پردہ نہیں ڈالا اور نہ اس کو ام المومنین کا لقب دیا گیا، حضرت عمر اس پر رجم کرنے سے رک گئے (1) ۔ مسئلہ نمبر 6۔ ایک قوم کا نقطہ نظر ہے نبی کریم ﷺ کے لیے اب کا لفظ استعال کرنا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : آیت ما کان محمد ابا احد من رجالکم (الاحزاب : 40) بلکہ کہا جائے گا : کمثل الاب للمومنین مومنوں کے لیے باپ کی طرح، جس طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے : انما انا لکم بمنزلۃ الوالد اعلمکم (2) میں تمہارے والد کے قائم مقام ہوں میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔ ابو دائود نے اسے نقل کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ کہنا جائز ہے : انہ اب للمومنین آپ کی حرمت و تکریم میں مومنوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : آیت ماکان محمد ابا احد من رجالکم (الا حزاب : 40) یعنی حضرت محمد ﷺ تمہارے نسبی باپ نہیں۔ اس کی بحث بعد میں آئے گی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے پڑھا من انفسھم وھو اب لھم وازواجہ حضرت عمر ؓ نے اس قراءت کو سنا اور اس کا انکار کیا۔ فرمایا : اے بچے ! اس کا حکم۔ حضرت ابن عباس نے عرض کی : یہ حضرت ابی کے مصحف میں ہے۔ حضرت عمر حضرت ابی کی طرف گئے اور ان سے پوچھا۔ حضرت ابی نے آپ سے کہا : قرآن مجھے ہر چیز سے غافل رکھتا تھا اور آپ کو بازار میں تجارت ہر چیز سے بےنیاز رکھتی تھی۔ اور حضرت عمر ؓ کے لیے سخت جملے کہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے قول سے کہا تھا : ھوء لاء بناتی (ہود : 78) مراد ان کی مومنات تھیں یعنی ان سے شادی کرو۔ یہ بحث پہلے گزرچکی ہے۔ مسئلہ نمبر 7۔ ایک قوم کا نقطہ نظر ہے : آپ کی بیٹیوں کو مومنوں کی بہنیں اور امہات المومنین کی بہنوں اور بھائیوں کے مومنوں کے خالو اور خالائیں نہیں کہا جائے گا۔ امام شافعی نے کہا : حضرت زبیر ؓ نے حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے شادی کی جب کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہ کی ہمشیرہ تھیں۔ انہیں مومنوں کی خالہ نہیں کہا گیا : ایک قوم نے اس لفظ کا اطلاق کیا اور کہا : حضرت معاویہ مومنوں کے خالو ہیں یعنی حرمت میں نہ کہ نسب میں خالو ہیں۔ مسئلہ نمبر 8۔ آیت الا ان تفعلو الی اولیاء کم معروفا مراد زندگی میں احسان اور موت کے وقت وصیت ہے یعنی یہ جائز ہے ؛ یہ قتادہ، حسن بصری اور عطا کا نقطہ نظر ہے۔ محمد بن حنفیہ نے کہا : یہ آیت اس بارے میں نازل ہوئی کہ کوئی مومن یہودی اور عیسائی کے حق میں وصیت کرے، یعنی مومن ولی اور قریبی رشتہ دار کے حق میں وصیت کرسکتا ہے اگرچہ وہ کافر ہو۔ مشرک نسب میں ولی ہے دین میں ولی نہیں پس وہ اس کے حق میں وصیت کرسکتا ہے۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کیا کافر کو وصی بنایا جاسکتا ہے ؟ بعض علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے اور بعض نے اس سے منع کیا۔ بعض علماء نے اس معاملہ کو سلطان کی طرف لو ٹادیا۔ ان میں امام مالک (رح) ہیں۔ مجاہد، ابن زید اور رومانی اس طرف گئے ہیں کہ معنی ہے : مومن اولیاء کے حق میں وصیت کرو۔ آیت کے الفاظ اس مذہب کی تائید کرتے ہیں۔ ولی کو عام رکھنا یہ بھی اچھا ہے۔ نسب کی ولایت یہ کافر کو رد نہیں کرتی یہ اس امر کو رد کرتی ہے اس کے ساتھ محبت کا رشتہ قائم کیا جائے جس طرح اسلام کے اعتبار سے ولی سے محبت کی جاتی ہے۔ مسئلہ نمبر 9۔ آیت کان ذالک فی الکتاب مسطورا، الکتب انہیں دو وجوہ کا احتمال رکھتی ہے جن کا ذکر کتاب اللہ میں ہوچکا ہے۔ مسطورا یہ تیرے اس قول سے ماخوذ ہے : سطرت الکتاب جب تو اسے سطروں کی صورت میں ثبت کرے۔ قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ کوئی کافر مسلمان کا وارث نہیں بنے گا۔ قتادہ نے کہا : یہ قراءت میں ہے آیت کان ذالک عنداللہ مکتوبا۔ قرظی نے کہا : مراد ہے تو رات میں یہ اس طرح ہے۔
Top