Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 32
اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ١ؕ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا١ؕ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ : کیا وہ تقسیم کرتے پھرتے ہیں رَحْمَتَ رَبِّكَ : رحمت تیرے رب کی نَحْنُ قَسَمْنَا : ہم نے تقسیم کی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان مَّعِيْشَتَهُمْ : ان کی معیشت فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی میں وَرَفَعْنَا : اور بلند کیا ہم نے بَعْضَهُمْ : ان میں سے بعض کو فَوْقَ بَعْضٍ : بعض پر دَرَجٰتٍ : درجوں میں لِّيَتَّخِذَ : تاکہ بنائیں بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض بَعْضًا سُخْرِيًّا : بعض کو خدمت گار۔ تابع دار وَرَحْمَتُ رَبِّكَ : اور رحمت تیرے رب کی خَيْرٌ : بہتر ہے مِّمَّا : ہراس چیز سے يَجْمَعُوْنَ : جو وہ جمع کررہے ہیں
کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں ؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے
مسئلہ نمبر 1۔ علماء نے کہا : دنیا کی حقارت اور کم مرتبہ کا ذکر کیا وہ اس کی بارگاہ میں اتنی ذلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے گھروں اور ان کی زینوں کو سونے اور چاندی کا بنا دیتا اگر دنیا کی محبت دونوں پر غالب نہ آجاتی اور یہ چیز کفر پر برانگیختہ نہ کتری۔ حضرت حسن بصری نے کہا، اس کا معنی ہے اگر سارے لوگ اس وجہ سے کافر نہ ہوجاتے کہ وہ دنیا سے محبتک رتے ہیں اور آخرت کو ترک کرتے ہیں تو ہم دنیا میں انہیں وہ عطا کرتے جو ہم نے بیان کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا ذلیل و رسوا ہے (4) ، اکثر مفسرین کا یہی نقطہ نظر ہے، یہ حضرت ابن عباس، سدی اور دوسرے علماء کا نقطہ نظر ہے۔ ابن زید نے کہا، معنی ہے اگر سارے لوگ دنیا کی طلب اور اسے آخرت پر ترجیح دینے کے اعتبار سے بس ایک جیسے نہ ہوجاتے تو جو رحمٰن کا انکار کرتے ہیں تو ہم ان کے گھروں کی چھت چاندی کے بنا دیتے۔ (5) کسائی نے کہا، معنی ہے اگر کفار میں غنی اور فقیر نہ ہوتے اور مسلمانوں میں اسی کی مثل نہ ہوتے تو ہم کفار کو دنیا دے دیتے، یہ اس کی ذلت و حقارت کی وجہ سے ہوتا۔ مسئلہ نمبر 2۔ ابن کثیر اور ابو عمرو نے سقفا پڑھا ہے یعنی سین کو مفتوح اور قاف کو ساکن پڑھا ہے یہ واحد کا صیغہ ہے اور اس کا معنی جمع کا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر قیاس کرتے ہیں : فخر علیھم السقف من فوقھم (النحل : 26) باقی قراء نے سین اور قاف کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور صیغہ جمع کا ہے جس طرح رھن اور رھن ہے۔ ابو عبید نے کہ؁، ان میں یسرا وزن نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ سقوف کی جمع ہے پس یہ جمع کی جمع ہوئی سقف و سقوف، جس طرح فلس، فلوس۔ پھر انہوں نے فعولا بنایا گیا گویا اسم واحد ہے تو انہوں نے فعل کے وزن پر جمع بناد یا۔ مجاہد سے مروی ہے : یہ سقفا ہے یعنی قاف کو ساکن کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، لبیوتھم میں لام، علی کے معنی میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ بدل ہے جس طرح تو کہتا ہے : فعلت ھذا الزید نکر امتہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ولا بویہ لکل واحد منھما الدس (النسائ : 11) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا : لجعلنا لمن یکفر بالرحمٰن لبیوتھم۔ مسئلہ نمبر 3۔ معارج اس سے مراد زینے ہیں، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے، یہ جمہور کا قول ہے اس کا واحد معراج ہے معراج کا معین سیڑھی ہے اسی سے لیلۃ المعراج ہے اس کی جمع معارج اور معاریج ہے جس طرح مفاتح اور مفاتیح دو لغتیں ہیں معاریج یہ ابو رجا عطاری اور طلحہ بن مصرف کی قرأت ہے اس سے مراد سیڑھیاں ہیں۔ اخفش نے کہا، اگر تو چاہے تو اس کا واحد معرج اور معرج ہے جس طرح مرقاۃ ہے۔ علیھا یظھرون۔ ماضمیر سے مراد معارج ہیں جن پر وہ چڑھتے ہیں یہ جملہ کہا اجتا ہے، ظھرت علی البیت یعنی میں اس کی چھت پر چڑھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آدمی کسی چیز پر بلند ہوتا ہے تو وہ لوگوں کے لئے نمایاں ہوجاتا ہے۔ یہ جملہ کہا جاتا ہے : ظھرت علی الشیء میں نے اسے جانا۔ ظھرت علی العدو۔ میں دشمن پر غالب آگیا۔ نابغہ بن جعدہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ شعر پڑھا : علونا السماء عزۃ وھابۃ وانا لنرجو فوق ذلک مظھر (1) ہم عزت اور ہیبت کے اعتبار سے آسمان پر چڑھ گئے بیشک ہم اس سے اوپر چڑھنے کی امید رکھتے ہیں۔ مظھر کا معنی مصعد ہے تو رسول اللہ ﷺ نارضا ہوگئے (2) فرمایا :” کہاں ؟ ؟ “ عرض کی : جنت کی طرف۔ فرمایا : ” ہاں انشاء اللہ۔ “ حضرت حسن بصری نے کہا : اللہ کی قسمچ دنیا نے اپنے مکینوں میں سے اکثر کو مئال کرلیا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا بھی نہیں اگر اللہ تعالیٰ اس طرح کردیتا تو کیا حال ہوتا (3) مسئلہ نمبر 4۔ بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہچھت پر بالائی منزل والے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چھت کو کمرے کا حصہ قرار دیا ہے جس طرح دروازوں کو اس کا حصہ قرار دیا ہے، یہ امام کا نقطہ نظر ہے۔ ابن عربی نے کہا، اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ بیت سے مراد صحن، دیوار، چھت اور دروازہ ہے جس کا وہ کمرہ ہوتا ہے اس کے لئے یہ اجزاء بھی ہونگے اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس کا علو آسمان تک ہے (1) سفل میں اتخلاف ہے کچھ علماء نے کہا، سفل اسی کا ہوگا جس کا وہ کمرہ ہے اور ان میں سے بعض نے کہا، زمین کے بطن میں سے کوئی چیز اس کے لئے نہ ہوگی۔ ہمارے مذہب میں دوق ول ہیں، اسرائیلی کی حدیث صحیح پہلیبیان کی جائیگی کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کے ہاتھ گھر بیچا اس کی تعمیر کی اس میں سونے کا ایک گھڑا ا پایا وہ اس گھڑے کو بیچنے والے کے پاس لایا اس نے کہا، میں نے گھر خریدا تھا گھڑا نہیں خریدا تھا بیچنے والے نے کہا، گھر میں جو کچھ تھا اس کے ساتھ میں نے گھر بیچا تھا ان میں سے ہر ایک نے گھڑے کو لینے سے انکار کر دے اور یہ مال ان دونوں کو دے دیا جائے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اوپر والا حصہ اور نچلے والا حصہ اسی کمرے والے کا ہے مگر اس صورت میں کہ وہ بیع کرتے وقت اسے خارج کردیں جب ان دونوں میں سے ایک نے دونوں جگہوں میں سے ایک کو بیچا تو اس سے جو نفع اٹھایا جاتا ہے وہ اس کے لئے ہوگا اور باقی خریدنے والے کے لئے ہوگا۔ مسئلہ نمبر 5۔ بالائی منزل اور زیریں حصہ کے احکام ،۔ جب بالائی حصہ اور نچلے والا حصہ دو افراد کی ملکیت میں ہوں نچلی منزل خراب ہوجائے یا اس کا مالک اس کے گرانے کا ارادہ کرے سحنون نے اشہب سے روایت نقل کی ہے انہوں نے کہا، جب زیریں منزل والا اسے گرانا چاہے یا بالائی منزل والا اس پر مسجد بنانا چاہے تو مجبوری کے بغیر زیریں منزل والا اسے نہ گرائے اس کا گرانا بالائی منزل والے کے مناسب ہونا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ زیریں منزل کے کرانے سے بالائی منزل گر جائے بالائی منزل کو حق حاصل نہیں کہ بالائی منزل والا اوپر منزل بنائے جو اس سے پہلے نہ ہو مگر معملوی سی چیز جو زیریں منزل والے کو نقصان دے۔ اگر باالئیم نزل کی چھت میں سے ایک ٹکڑی ٹوٹ جائے تو و اس کی جگہ دوسری لڑکی رکھ لے جبکہ وہ پہلی ٹکڑی سے بھاری نہ ہو اور زیریں منزل پر ضرر کا خوف نہ ہو۔ اشہب نے کہ؁، گھر کا دروازہ زیریں منزل والے کا ذمہ ہے اگر زیریں منزل گر جائے تو اس کے مالک و اس کے بنانے پر مجبور کیا جائے گا بالائی منزل والے پر لازم نہیں کہ وہ زیریں منزل تعمیر کرے اگر زیریں منزل والا تعمیر سے انکار کر دے تو اسے کہا جائے گا : اس کے ہاتھ بیچ دے جو اس کو بنائے۔ ابن قاسم نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ زیریں منزل ایک آدمی کی ع ہے اور بالائی منزل دوسرے آدمی کی ع ہے زیریں منزل خراب و جای ہے تو اس کو درست کرنا زیریں منزل والے کے ذمہ ہے اس کے ذمہ یہ بھی ہے کہ بالائی منزل کو سہارا دے یہاں تک کہ وہ زیریں منزل کو درست کرلے۔ حضرت نعمان بن بشیر نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے فرمایا :” حدود اللہ پر قائم کرنے والا اور ان میں واقع ہونے والا ان لوگوں کی مثل ہے جو ایک کشتی میں قرعہ اندازی کرتے ہیں ان میں سے بعض کو بالائی حصہ ملتا ہے اور ان میں سے بعض اس کا زیریں حصہ پاتے ہیں جو نچلے حصہ میں ہیں جب پانی لیتے ہیں تو اوپر والے لوگوں کے پاس سے گذرتے ہیں انہوں نے کہا : اگر ہم اپنے حصہ میں سے ایک سوراخ کرلیں اور اوپر والوں کو اذیت نہ دیں اگر اوپر والے انہیں چھوڑے رہیں اور جو وہ ارادہ کریں تو سب کے سب ہلاک ہوجائیں اگر اوپر والوں نے ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیا تو سب کے سب نجات پا جائیں گے (1) “ یہ اس باب میں اصل ہے یہ امام مالک اور اشہب کی دلیل ہے اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ نچلے حصہ والے کو حق حاصل نہیں کہ وہ کوئی ایسا نیا کام کرے جو اوپر والے کو نقصان پہنچاتا ہو اگر اس نے کو ئا یسا نیا کام کیا جس سے نقصان ہوا تو اس پر یہ لازم ہے کہ وہ اسے درست کرے بالائی منزل والے پر درست کرنے کی کوئی ذمہ داری نہ ہوگیا وپر والے کو حق حاصل ہوگا کہ وہ نقصان پہنچانے والی چیز سے اسے روک دے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ” اگر انہوں نے ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیا تو سب کے سب نجات پا جائیں گے۔ “ ظالم کے علاوہ کسی کا ہاتھ پکڑنا جائز نہیں یا وہ امر ممنوع ہو کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جو جائز ہی نہ ہو اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ جو آدمی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ترک کرتا ہے وہ سزا کا مستحق ہے سورة الانفال میں یہ بات گذر چکی ہے اس میں یہ دلل بھی موجود ہے قرعہ جائز اور اس کا استعمال بھی جائز ہے سورة آل عمران میں یہ بحث گذر چکی ہے، اس کے تمام واقع پر غور کر تو اسے واضح انداز میں پائے گا۔ الحمد اللہ۔
Top