Al-Qurtubi - Al-An'aam : 164
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ وَ لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَا١ۚ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ۚ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَغَيْرَ : کیا سوائے اللّٰهِ : اللہ اَبْغِيْ : میں ڈھونڈوں رَبًّا : کوئی رب وَّهُوَ : اور وہ رَبُّ : رب كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَ : اور لَا تَكْسِبُ : نہ کمائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص اِلَّا : مگر (صرف) عَلَيْهَا : اس کے ذمے وَ : اور لَا تَزِرُ : نہ اٹھائے گا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ : بوجھ اُخْرٰي : دوسرا ثُمَّ : پھر اِلٰي : طرف رَبِّكُمْ : تمہارا (اپنا) رب مَّرْجِعُكُمْ : تمہارا لوٹنا فَيُنَبِّئُكُمْ : پس وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : تم اختلاف کرتے
کہو کیا میں خدا کے سوا اور پروردگار تلاش کروں ؟ اور وہی تو ہر چیز کا مالک اور جو کوئی (بُرا) کام کرتا ہے تو اس کا ضرر اسی کو ہوتا ہے۔ اور کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تم سب کو اپنے پروردگار کیطرف لوٹ کر جانا ہے۔ تو جن جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے وہ تم کو بتائے گا۔
آیت نمبر 164 قولہ تعالیٰ : آیت : قل اغیر اللہ ابغی ربا وھورب کل شیء یعنی ( آپ فرمائیے کیا اللہ کے سوا میں کوئی اور رب تلاش کروں) حالانکہ وہ ہر شی کا مالک ہے۔ روایت ہے کہ کفار نے حضور نبی مکرم ﷺ کو کہا : اے محمد ! ﷺ ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ اور ہمارے الہٰوں کی عبادت کرو اور جس دین پر تم ہو اسے ترک کر دو ، تو ہم تمہارے لیے ہر اس تاوان کے ضامن ہوں گے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 370) جس میں آپ اپنی دنیا اور آخرت میں واقع ہوں گے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہ استفہام ہے جو تقریر اور زجر وتوبیخ کا تقاضا کرتا ہے اور غیر، ابغی فعل کے سبب منصوب ہے اور ربا تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تکسب کل نفس الا علیھا اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تکسب کل نفس الا علیھا یعنی تمہارا اس حال پر ہونا مجھے اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کرنے کی صورت میں مجھے کوئی نفع نہیں دے سکتا، کیونکہ کوئی شخص ( کوئی چیز) نہیں کماتا مگر وہ اسی کے ذمہ ہوتی ہے، یعنی جو معصیت اور گناہ اس نے کیا اور جو خطا اس سے صادر ہوئی اس کا مواخذہ اس کے سوا کسی اور سے نہیں کیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 2۔ مخالفین میں سے بعض علماء نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ فضولی کی بیع صحیح نہیں ہوتی اور یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے اور ہمارے علماء نے کہا ہے : آیت سے مراد یہ ہے کہ اسے ثواب و عقاب پر محمول کیا جائے گا (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 772) نہ کہ احکام دنیا پر۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : ولا تزر وازرۃ وزر اخری جیسا کہ اس کا بیان آئے گا۔ اور فضولی کی بیع ہمارے نزدیک مالک کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، اگر وہ اس کی اجازت دے دے تو وہ جائز ہوجاتی ہے۔ عروہ البارقی نے حضور نبی مکرم ﷺ کے لیے خرید وفروخت کی اور آپ کے حکم کے بغیر تصرف کیا، تو حضور نبی کریم ﷺ نے اس کی اجازت عطا فرما دی۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے بھی یہی کہا ہے۔ بخاری اور دارقطنی نے عروہ بن الی الجعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے لیے کچھ مال (بکریاں) لائی گئیں تو آپ نے مجھے ایک دینار عطا فرمایا اور فرمایا : ” اے عروہ ! مال کے پاس جاؤ اور ہمارے لیے اس دینار کے عوض ایک بکری خرید لو “۔ پس میں اس مال کے پاس آیا اور میں نے سودا کیا اور میں نے ایک دینار کے بدلے دو بکریاں خریدیں اور میں ان دونوں کو ہانک کرلے آیا تو راستے میں ایک آدمی مجھ سے ملا اور اس نے مجھ سے سودا کیا تو میں نے اسے ایک بکری ایک دینار کے عوض بیچ دی اور میں دوسری بکری اور ایک دینار لے آیا اور عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ یہ بکری ہے اور یہ آپ کا دینار ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا :” تم نے یہ کیسے کیا “ ؟ تو میں نے آپ کو ساری بات عرض کی۔ تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اللھم بارک لہ فی صفقۃ یمینہ ( اے اللہ ! اس کے لیے اس کے کاروبار میں برکت رکھ دے) پھر میں نے دیکھا کہ میں کوفہ کے محلہ کناسہ میں ٹھہرا ہوا ہوں اور میں نے چالیس ہزار کا نفع کمایا اس سے پہلے کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس پہنچوں۔ یہ دارقطنی کے الفاظ ہیں۔ ابو عمرنے کہا ہے : یہ حدیث جید ہے اور اس میں دو بکریوں کا حضور نبی کریم ﷺ کے لیے ثابت ہونا صحیح ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس سے وہ دینار نہ لیتے اور نہ اپنے لیے بیع کو نافذ کرتے۔ اور اس میں وکالت کے جائز ہونے پر دلیل ہے اور اس میں علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پس جب کوئی موکل اپنے وکیل کو کہے : تو اس طرح خرید۔ تو اس نے اس سے زیادہ کے عوض خریدا جس کے ساتھ اسے وکیل بنایا گیا تھا، تو کیا وہ امر لازم آئے گا یا نہیںْ جیسا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو کہے : تو اس درہم کے عوض خریدا۔ تو اس میں امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب کا نظریہ یہ ہے کہ وہ تمام کا تمام موکل کے لیے لینا لازم ہوگا بشرطیکہ صفت اور جنس میں موافقت ہو، کیونکہ وہ محسن ( نیکی اور احسان کرنے والا) ہے۔ اور یہی قول امام یوسف اور امام محمد بن حسن کا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے کہ زیادتی مشتری کے لیے ہوگی۔ اور یہ حدیث آپ کے خلاف حجت ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تزروازرۃ وزر اخری یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، یعنی کسی شخص سے دوسرے کے گناہ کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ ہر نفس کا مواخذہ اس کے اپنے جرم کے سبب ہوگا اور اپنے گناہ کے سبب اسے سزا دی جائے گی۔ بلکہ ہر نفس کا مواخذہ اس کے اپنے جرم کے سبب ہوگا اور اپنے گناہ کے سبب اسے سزا دی جائے گی۔ الوزر کا اصلی معنی ثقل ( بوجھ) ہے اور اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ووضعنا عنک وزرک ( الم نشرح) ( اور ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ اتار دیا) اور یہاں اس کا معنی ذنب ( گناہ) ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : وھم یحملون اوزارھم علی ظھورھم ( انعام : 31) ( اور وہ اٹھائے ہوئے ہیں اپنے بوجھ اپنی بشتوں پر) اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اخفش نے کہا ہے : کہا جاتا ہے : وزریوزر اور وزریوزر اور وزریوزر، وزر اور ازر ابھی جائز ہے، جیسے کہا جاتا ہے : اسادۃ ( کہ یہ اصل میں وسادۃ تھا) اور یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ کہتا تھا : تم میرے راستے کی اتباع اور پیروی کرو میں تمہارے بوجھ اٹھالوں گا۔ اسے حضرت ابن عباس ؓ نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت عربوں کے زمانہ جاہلیت کے اس نظریہ کے رد کے لیے نازل ہوئی کہ آدمی سے اس کے باپ اور بیٹے کے بدلے اور اس کے حلیف کے گناہ کے بدلے مواخذہ کیا جائے گا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت سے مراد آخرت میں ہو اور اسی طرح اس آیت سے بھی جو اس سے پہلے ہے اور رہی دنیا تو اس میں بعض سے بعض کے جرم کا مواخذہ کیا جاتا ہے، بالخصوص جب نیک اور اطاعت شعار لوگ گنہگاروں کو نہ روکیں، جیسا کہ قول باری تعالیٰ : آیت : علیکم انفسکم ( المائدہ : 104) کے ضمن میں حدیث ابی بکر میں پہلے گزر چکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : واتقوا فتنضۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خآصۃ ( الانفال : 25) ( اور ڈرتے رہو اس فتنہ سے ( جو اگر برپا ہوگیا تو) نہ پہنچے گا صرف انہیں کو جنہوں نے ظلم کیا تم میں سے) اور آیت : ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ( الرعد : 11) ( بیشک اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا کسی قوم کی ( اچھی یا بری) حالت کو جب تک وہ لوگ اپنے آپ میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے ) اور حضرت زینب بنت جحش ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ ، کیا ہم ہلاک کردیئے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک اور صالح لوگ ہوں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں جب زنا بڑھ جائے گا “ (صحیح بخاری، کتاب الفتن والشراط الساعۃ، جلد 2، صفحہ 1056 ) ۔ علماء نے بیان کیا ہیـ ( کہ اس کا معنی ہے) زنا کی اولاد ( جب زیادہ ہوجائے گی) اور الخبث با کے فتحہ کے ساتھ یہ زنا کا اسم ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ کی زبان اقدس کے ذریعہ دیت خطا عاقلہ پر واجب کی ہے یہاں خون کی تعظیم کی خاطر کسی آزاد مسلمان کا خون رائیگا نہیں جانے دیا جائے گا۔ اور اہل علم نے اس پر اجماع کیا ہے اور اس بارے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس پر دلیل وہی ہے جو ہم نے کہا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ظلم اس دنیا میں ہو کہ عمرو کے فعل کا مؤاخذہ زید سے نہیں لیا جائے گا کہ جو جرم کا ارتکاب کرے گا تو اس کا انجام اسی پر ہوگا۔ اور ابو داؤد نے ابو رمثہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں اپنے باپ کے ساتھ حضور نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، تو حضور نبی کریم ﷺ نے میرے باپ کو فرمایا :” کیا یہ تیرا بیٹا ہے “ ؟ تو باپ نے جوابا عرض کیا : ہاں رب کعبہ کی قسم۔ مزید کہا : حقا ( یہ حق ہے) مزید کہا : اشھدبہ ( میں اس کے بارے شہادت دیتا ہوں) ۔ ابو رمثہ کہتے ہیں : میرے باپ کے ساتھ میری مشابہت ثابت ہونے اور میرے باپ کے مجھ پر قسم کھانے سے حضور نبی کریم ﷺ خوب کھل کر مسکرائے۔ پھر ارشاد فرمایا :” بلاشبہ وہ تجھ پر کوئی گناہ نہیں ڈالے گا اور تو اس پر کوئی گناہ نہ ڈال سکے گا “ اور پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : آیت : ولا تزروازرۃ وزر اخری اور یہ اس کے معارض نہیں ہے جو ہم نے پہلے کہا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ولیحملن اثقالھم واثقالا مع اثقالھم ( العنکبوت : 13) ( اور وہ ضرور اٹھائیں گے اپنے بوجھ اور دورے کئی بوجھ اپنے ( گناہوں کے) بوجھوں کے ساتھ) کیونکہ اسے دوسری روایت میں بیان کردیا گیا ہے۔ قول باری تعالیٰ ہے آیت : لیحملوا اوزارھم کاملۃ یوم القیمۃ ومن اوزار الذین یضلونھم بغیر علم ( النحل : 25) ( تاکہ (اس ہر زہ سرائی کے باعث) وہ اٹھائیں اپنے ( گناہوں کے) پورے بوجھ قیامت کے دن اور ان لوگوں کے بوجھ بھی اٹھائیں جنہیں وہ گمراہ کرتے رہے ہیں ( جہالت سے) پس جو ضلالت و گمراہی میں امام بنا اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت دی اور اس پر عمل پیرا رہا تو اس پر ان کا بوجھ بھی ڈالا جائے گا جنہیں اس نے گمراہ کیا لیکن اس گمراہ ہونے والوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اس کا بیان آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top