Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو اور دیکھنا غافل نہ ہونا۔
آیت نمبر : 205 قولہ تعالیٰ : آیت : واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفۃ اسی کی مثل یہ ارشاد پہلے گزر چکا ہے۔ آیت : ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ ( الاعراف : 55) ابو جعفر نحاس نے کہا ہے : آیت : واذکر ربک فی نفسک کے معنی میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ دعا کے بارے میں ہے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : تحقیق حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہاں ذکر سے مراد نماز میں قراءت کرنا ہے۔ اور کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے پورے غوروفکر اور تدبر کے ساتھ قرآن کریم پڑھو۔ تضرعا مصدر ہے، اور کبھی یہ حال کے محل میں ہوتا ہے۔ اور وخیفۃ اس پر معطوف ہے۔ خیفۃ کی جمع خوف ہے، کیونکہ یہ خوف کے معنی میں ہے، اسے نحاس نے ذکر کیا ہے۔ اور خیفۃ کی اصل خوفۃ ہے، اس میں واو کو ماقبل مکسور ہونے کی وجہ سے یا سے بدل دیا گیا ہے۔ ( کہا جاتا ہے) خاف الرجل یخاف خوفا وخیفۃ ومخافۃ فھو خائف اور قوم خوف اپنے اصل کی بنا پر ہے۔ اور خیف لفظ کی بنا پر ہے۔ اور فراء نے بیان کیا ہے کہ خیفۃ کی جمع میں خیف بھی کہا جاتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے : الخیفۃ ( کا معنی) الخوف ہے اور جمع خیف ہے اور اس کی اصل واو ہے۔ آیت : ودون الجھر یعنی آواز بلند کیے بغیر، یعنی اسمع نفسک ( تو اپنے آپ کو سنا) جیسا کہ ارشاد گرامی ہے : آیت : وابتغ بین ذلک سبیلا ( الاسرائ) یعنی اتنی آواز جو جھر) چیخ و پکار) اور مخافتۃ ( انتہائی دہیمی) کے درمیان ہو اور یہ اس پر دلیل ہے کہ ذکر کے ساتھ آواز کو انتہائی بلند کرنا ممنوع ہے، جیسا کہ پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔ آیت : بالغدو والاصال حضرت قتادہ اور ابن زید ؓ نے کہا ہے : الاصال سے مراد شامیں ہیں اور الغدو غدوۃ کی جمع ہے۔ اور ابو مجلز نے بالغدو والایصال پڑھا ہے اور یہ آصلنا کا مصدر ہے، یعنی ہم شام کے وقت داخل ہوئے ( دخلنا فی العشی) اور الآصال اصل کی جمع ہے، جیسے طنب کی جمع اطناب ہے اور جمع الجمع ہے اور اس کی واحد اصیل ہے اور اس کی جمع اصل ہے۔ یہ زجاج سے منقول ہے۔۔ اخفش نے کہا ہے : الآصال، اصیل کی جمع ہے۔ جیسے یمین اورا یمان ہے۔ اور فراء نے کہا ہے : اصل، اصیل کی جمع ہے، اور کبھی اصل واحد بھی ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : ولا باحسن منھا اذ دنا الاصل جوہری نے کہا ہے : اصیل عصر کے بعد سے لے کر مغرب تک کا وقت ہوتا ہے اور اس کی جمع اصل وآصال واصائل ہے، گویا کہ یہ اصلیۃ کی جمع ہے۔ شاعر نے کہا ہے : لعمری لانت البیت اکرم اھلہ واقعد فی افیائہ بالاصائل اور اس کی جمع اصلان بھی بنائی جاتی ہے جیسے بعیر کی جمع بعران ہے۔ پھر انہوں نے جمع کی تصغیر بنائی اور کہا : اصیلان، بعد ازاں انہوں نے نون کو لام سے بدل دیا اور کہا : اصیل اور اسی کے مطابق نابغہ کا قول ہے : وقفت فیھا اصیلالا اسائلھا عیت جوابا وما بالریع من احد اور لحیانی نے بیان کیا ہے : لقیتہ اصیلالا، آیت : ولا تکن من الغفلین اور ذکر سے غافل رہنے والوں سے نہ ہوجاؤ۔
Top