Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 38
قَالَ ادْخُلُوْا فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ فِی النَّارِ١ؕ كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا١ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ١ؕ۬ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ
قَالَ : فرمائے گا ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِيْٓ اُمَمٍ : امتوں میں (یہمراہ) قَدْ خَلَتْ : گزر چکی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل مِّنَ : سے الْجِنِّ : جنات وَالْاِنْسِ : اور انسان فِي النَّارِ : آگ (دوزخ) میں كُلَّمَا : جب بھی دَخَلَتْ : داخل ہوگی اُمَّةٌ : کوئی امت لَّعَنَتْ : لعنت کرے گی اُخْتَهَا : اپنی ساتھی حَتّٰى : یہانتک اِذَا ادَّارَكُوْا : جب مل جائیں گے فِيْهَا : اس میں جَمِيْعًا : سب قَالَتْ : کہے گی اُخْرٰىهُمْ : ان کی پچھلی قوم لِاُوْلٰىهُمْ : اپنے پہلوں کے بارہ میں رَبَّنَا : اے ہمارے رب هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں اَضَلُّوْنَا : انہوں نے ہمیں گمراہ کیا فَاٰتِهِمْ : پس دے ان کو عَذَابًا : عذاب ضِعْفًا : دوگنا مِّنَ النَّارِ : آگ سے قَالَ : فرمائے گا لِكُلٍّ : ہر ایک کے لیے ضِعْفٌ : دوگنا وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا : نہیں تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے
تو خدا فرمائے گا کہ جنوں اور انسانوں کی جو جماعتیں تم سے پہلے ہو گزری ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھنم میں داخل ہوجاؤ۔ جب ایک جماعت وہاں جا داخل ہوگی تو اپنی مذہبی بہن یعنی اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت کریں گے یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گیں تو پچھلی جماعت پہلی کی نسبت کہے گی کہ اے پروردگار ! ان ہی لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا تو انکو آتش جہنم کا دگنا عذاب دے۔ خدا فرمائے گا کہ تم سب کو دگنا عذاب دیا جائیگا مگر تم نہیں جانتے
آیت نمبر : 38۔ 39 قولہ تعالیٰ : قال ادخلوا فی امم قد خلت من قبلکم من الجن والانس فی النار، ای مع امم یعنی تم داخل ہوجاؤ ان امتوں کے ساتھ۔ تو اس میں فی بمعنی مع ہے۔ اور یہ ممتنع نہیں ہے، کیونکہ تیرا قول : زید فی القوم بمعنی زید مع القوم ہی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فی اپنے معنی میں ہی ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 398) ۔ ای ادخلوا فی جملتھم ( تم بھی ان کے اجتماع میں داخل ہوجاؤ) اور قائل ( کہنے والا) کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم داخل ہوجاؤ۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ دروغہ جہنم مالک ہے۔ (یعنی وہ انہیں کہے گا : تم داخل ہوجاؤ ) ۔ آیت : کلما دخلت امۃ لعنت اختھا جب بھی کوئی امت داخل ہوگی تو وہ اس پر لعنت بھیجے گی جو اس سے پہلے جہنم کی طرف جا چکی ہے اور یہ دین اور ملت کے اعتبار سے اسی کی طرح ہے (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 149 ) ۔ آیت : حتی اذا ادارکوا فیھا جمیعا یہاں تک کہ جب سب امتیں اس میں جمع ہوجائیں گی۔ اعمش نے تدارکوا پڑھا ہے اور یہ اصل ہے، پھر اس میں ادغام ہوا اور اسے ہمزہ وصل کی ضرورت پڑی۔ اسے مہدوی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے بیان کیا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : حضرت ابن مسعود ؓ کی قراءت ہے۔ حتی اذا ادرکوا یعنی جب بعض بعج کو پالیں گے۔ اور عصمہ نے ابو عمرو سے حتی اذا ادارکوا نقل کیا ہے اس میں اجتماع ساکنین کی بنا پر الف کو ثابت رکھا ہے۔ اور بیان کیا ہے کہ یہ دونوں قرأتیں حضرت عبداللہ ؓ سے مروی ہیں۔ اور اس کے لیے مال کا دوتہائی ہے۔ اور ابو عمرو سے یہ بھی منقول ہے : اذا ادارکوا یعنی الف وصل کو قطع کے ساتھ پڑھا ہے، تو گویا انہوں نے تذکرکے لیے اذا پر سکوت کیا۔ اور جب ان کا سکوت طویل ہوا تو ہمزہ وصل قطعی ہوگیا جیسے اس سے ابتدا کی جائے۔ اور شعر میں الف وصل بطور قطع استعمال ہوا ہے جیسے شاعر کا قول ہے : یا نفس صبرا کل حی لاقی وکل اثنین الی افتراق حضرت مجاہد اور حمید بن قیس سے آیت : حتی اذا ادارکوا مروی ہے ( یعنی) اس میں التقاء ساکنین کی وجہ سے اذا کے الف کو حذف کردیا گیا ہے اور دال کے بعد والے الف کو بھی حذف کردیا گیا ہے اور جمیعا حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ آیت : قالت اخرھم لاولٰھم یعنی بعد میں داخل ہونے والی امت اور یہ اتباع کرنے والے ہیں پہلی امتوں کے بارے کہے گی۔ اور وہ قیادت کرنے والے والیاں ہیں۔ آیت : ربنا ھٓولآء اضلونا فاتھم عذابا ضعفا من النار۔ لاولٰھم میں لام لام اجل ہے، کیونکہ انہوں نے پہلی امتوں کو خطاب نہیں کیا، بلکہ انہوں نے پہلی امتوں کے حق میں کہا : آیت : ربنا ھولآء اضلونا ( اے ہمارے رب ! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا) اور الضعف سے مراد ایک مقدار پر اسی کی مثل زائد مقدار چاہے ایک باریا کئی بار۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ یہاں الضعف سے مراد اثدھا اور سانپ ہیں۔ اور اس کی نظیر یہ آیت ہے۔ آیت : ربنا اتھم ضعفین من العذاب والعنھم لعنا کبیرا (الاحزاب) ( اے ہمارے رب ! ان کو دو گناہ عذاب دے اور لعنت بھیج ان پر بہت بڑی لعنت) اور وہاں ضعف کا ذکر اس سے کثیر معنی اور جو احکام اس پر مترتب ہو رہے ہیں ان کے لیے آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آیت : قال لکل ضعف ( اللہ تعالیٰ فرمائے گا) تابع اور متبوع ہر ایک کے لیے دگنا عذاب ہے۔ ولکن لا تعلمون یہ ان کی قراءت ہے جنہوں نے یا کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی ہر فریق اس (عذاب) کے بارے نہیں جانتا جو دوسرے فریق کے لیے ہے، کیونکہ اہل جہنم میں سے بعض جب یہ جان لیں کہ کسی اور کا عذاب اس کے عذاب سے زیادہ ہے تو یہ بھی اس کے لیے راحت اور تسلی کی ایک قسم ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے آیت : ولٰکن لا تعلمون یعنی لیکن تم نہیں جانتے اے مخاطبین ! جو عذاب وہ پا رہے ہیں۔ اور جائز ہے کہ معنی یہ ہو لیکن تم نہیں جانتے اے اہل دنیا ! اس عذاب کی مقدار جس میں وہ مبتلا ہیں۔ آیت : وقالت اولٰھم لاخرھم فما کان لکم علینا من فضل یعنی پہلی امتیں پچھلی امتوں کو کہیں گی : تحقیق تم نے کفر کیا اور تم نے وہی کیا جو ہم نے کیا، پس تم عذاب میں کسی تخفیف کے مستحق نہیں ہو۔ آیت : فذوقوا العذاب بما کنتم تکسبون۔
Top