Al-Qurtubi - Al-Ghaashiya : 6
لَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍۙ
لَيْسَ لَهُمْ : نہیں ان کے لئے طَعَامٌ : کھانا اِلَّا : مگر مِنْ ضَرِيْعٍ : خار دار گھاس سے
اور خاردار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں (ہوگا)
لیس لھم طعام الامن ضریع۔ لھم کی ضمیر سے مراد جہنمی ہیں جب پہلے ان کے مشروب کا ذکر کیا اب ان کے کھانے کا ذکر کیا عکرمہ اور مجاہد نے کہا، ضریع ایک ایسی جڑی بوٹی ہے جس کے کانٹے ہوتے ہیں جو زمین کے ساتھ لگی ہوتی ہے جب تک وہ تر ہوتوا سے شبرق کہتے ہیں جب وہ خشک ہوجائے تو اسے ضریع کہتے ہیں کوئی جانور اور چوپایہ اس کے قریب نہیں جاتا اور نہ ہی اسے کھاتا ہے وہ قاتل زہر ہے یہ سب سے خبیث اور براکھانا ہے عام مفسرین کی یہی رائے ہے مگر ضحاک کی رائے مختلف ہے اس نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہ ایسی چیز ہے جسے سمندر باہر پھینکتا ہے جسے ضریع کہتے ہیں یہ انسانوں کی بجائے حیوانوں کی خوراک ہے جب اونٹ اسے کھائیں توسیر نہیں ہوتے اور کمزوری کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ صحیح وہی ہے جو جمہور کا نقطہ نظر ہے کہ یہ ایک بوتی ہے ہذلی نے کہا، اور اونٹوں اور ان کی بری چراگاہ کا ذکر کیا۔ وحبسن فی ھزم الضریع فکلھا، حدباء دامیۃ الیدین حرود۔ انہیں ٹوٹے پھوٹے ضریع پر روک دیا گیا ہے سب کی پشت کی ہڈیاں ظاہر ہیں ہاتھوں سے خون بہہ رہا ہے اور دودھ دوہنے سے انکاری ہیں۔ خلیل نے کہا : ضریع سبز بوٹی ہے جو بدبودار ہوتی ہے سمندر جسے پھینکتا ہے۔ والبی نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے یہ آکا درخت ہے اگر یہ دنیا میں ہوتاتوزمین اور اس پر جو کچھ ہے سب کو جلا دیتا ۔ سعید بن جبیر نے کہا یہ پتھر ہے یہی بات عکرمہ نے کہی ہے زیادہ غالب یہی ہے کہ یہ کانٹے دار درخت ہے جیسے دنیا میں ہوتا ہے، حضرت ابن عباس نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے، ضیع ایسی چیز ہے جو جہنم میں ہوگی جو کانٹے کے مشابہ ہے مصبر سے زیادہ کڑوی ہوگی مردار سے زیادہ بدبودار ہوگی آگ سے زیادہ گرم ہوگی اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ضریع رکھا ہے۔ خالد بن زیاد نے کہا : میں نے متوکل بن حمدان سے سنا جب کہ ان سے آیت کے بارے میں پوچھا جارہا تھا انہوں نے جواب دیا، مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ ضریع جہنم کی آگ کا ایک درخت ہے اس کا پھل، پیپ اور خون ہوگا وہ مبصر سے زیادہ کڑوا ہوگا یہ ان کا کھانا ہوگا۔ حضرت حسن بصری نے کہا، یہ عذاب میں سے ان چیزوں میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مخفی رکھا ہے۔ ابن کیسان نے کہا، یہ ایسا کھانا ہے جس کے پاس وہ گڑاگڑائیں گے، ذلیل ورسوا ہوں گے اور اس سے چھٹکارا پانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ زاری کریں گے، اسے یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس کا کھانے والا اس کو ناپسند کرنے اور اس کی سختی کے باعث آہ زاری کرے گا کہ اس عذاب سے اسے بری کردیا جائے ابوجعفر نحاس نے کہا، یہ ضارع سے مشتق ہے جس کا معنی ذلیل ہے یعنی ذوضراعۃ ذلت والا۔ حضرت حسن بصری سے یہ مروی ہے : یہی زقوم ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے یہ جہنم میں ایک وادی ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا، فلیس لہ الیوم ھھناحمیم۔ ولاطعام الامن غسلین۔ الحاقہ) آج اس کا یہا کوئی دوست نہیں اس کا کوئی کھانا نہیں مگر غسلین، یہاں فرمایا، الا من ضریع، یہ غسلین کے علاوہ کھانا ہے دونوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جہنم کے کئی درجے ہیں انمیں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا کھانا زقوم ہے ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا کھانا غسلین ہے ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا کھانا ضریع ہے ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا مشروب حمیم ہے، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا مشروب پیپ ہے، کلبی نے کہا، ضریع ایسے درجے میں ہے جس میں کوئی اور نہیں زقوم ایک اور دجہ ہے یہ بھی جائز ہے کہ دونوں آیتوں کو دو حالتوں پر محمول کیا جائے جس طرح ارشاد فرمایا، یطوفون بینھا وبین حمیم ان۔ الرحمن) وہ گردش کرتے رہیں گے جہنم اور گرم کھولتے ہوئے پانی کے درمیان قتبی نے کہا، یہ جائز ہے کہ ضریع اور زوقوم جہنم کی دو جڑی بوٹیاں ہوں یا دونوں کا جوہر ایسی چیز ہے جسے آگ نہیں کھاتی۔ اسی طرح زنجیریں، اس کے طوق، اس کے بچھو اور اس کے سانپ ہیں اگر یہ اس طرح ہوتے جس طرح ہم جانتے ہیں تو وہ آگ پر باقی نہ رہتے۔ کہا، اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں موجود ہم سے غائب پر ہماری راہنمائی کی اس چیز کی مدد سے جو ہمارے پاس حاضر ہے آسمان کی دلالت متفق ہے اور معانی مختلف ہیں، اس طرح جنت میں جو بھی درخت اور بستر ہیں زیادہ مناسب قول وہ ہے جو قتبی کا قول ہے کہ جو چیز کافروں کو جہنم میں ہمیشہ رکھتی ہے تاکہ ان پر عذاب دائمی ہو وہی چیز نباتات اور زقوم کے درخت کو آگ میں باقی رکھتی ہے تاکہ اس کے ذریعے کفار کو عذاب دے۔ بعض علماء کا خیال ہے ضریع بعینہ آگ میں نہیں اگتا اور نہ ہی وہ اسے کھاتے ہیں ضریع چوپاؤں کی خوراک ہے یہ لوگوں کی خوراک نہیں جب اونٹ اسے کھائیں توسیر نہیں ہوتے اور کمزوری کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ اس سے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ ایسی چیز سے روزی حاصل کرتے ہیں جوان کو سیر نہیں کرتی۔ ضریع کا ذکر بطور ضرب المثل کیا ہے کہ انہیں بھوک کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا جس طرح اسے تکلیف دی جاتی ہے جسے ضریع کھلایاجائے۔ ترمذی حکیم نے کہا، یہ قول کرنے والے کی جانب سے مریض نظر وفکر ہے اور حقیر تامل ہے گویا یہ اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں متحیر ہیں وہ ذات پاک جس نے اس مٹی میں ضریع کو اگا گیا وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ دہکتی آگ میں اس ضریع کو اگائے، اللہ تعالیٰ نے سرسبز شاداب درخت سے ہمارے لیے آگ بنائی نہ آگ اس درخت کو جلاتی ہے اور نہ اس درخت میں پانی کی رطوبت آگ بجھاتی ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، الذی جعل لکم الارض من الشجر الاخضر نارا فاذا انتم منہ توقدون۔ یاسین) وہ ذات پاک جس نے تمہارے لیے شاداب درخت سے آگ بنائی پس جس سے تم آگ روشن کرتے ہو جس طرح یہ بات کی گئی جب یہ آیت ونحشرھم یوم القیامۃ علی وجوھھم۔ الاسراء 97) ہم انہیں قیامت کے روز ان کے مونہوں کے بل اٹھائیں گے صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ وہ اپنے مونہوں کے بل کیسے چلیں گے فرمایا وہ ذات جس نے انہیں پاؤں کے بل چلایا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ انہیں منہ کے بل چلائے اس جیسی مثال میں سوائے دل کے ضعیف کے کوئی متحیر نہیں یا کیا ہم نے خبر نہیں دے دی جب بھی جلدیں پک جائیں گی تو ان کی جلدیں کسی اور چیز دے بدل دیں گے اسی طرح فرمایا، سرابیلھم من قطران۔ ابراہیم 50) اور فرمایا، ان لدینا انکالا۔ المزمل 12) یعنی ہمارے پاس بیڑیاں ہیں۔ ذاغصتہ کا معنی ہے کانٹوں والا، ان پر عذاب ان اشیاء کی وجہ سے مختلف ہوگا۔
Top