Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaashiya : 6
لَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍۙ
لَيْسَ لَهُمْ : نہیں ان کے لئے طَعَامٌ : کھانا اِلَّا : مگر مِنْ ضَرِيْعٍ : خار دار گھاس سے
ان کے کھانے کو صرف جھاڑ کانٹے ہوں گے
دوزخیوں کی غذا: پانی کے بعد یہ اس کھانے کا ذکر ہے جو دوزخ میں ان کو ملے گا۔ فرمایا کہ ان کو کھانے کی کوئی چیز وہاں میسر نہیں آئے گی۔ صرف ضریع چابیں گے اور اس پر کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ ’ضَرِیْعٌ‘ ایک خاردار زہریلی جھاڑی ہے جس کو کوئی جانور نہیں چھوتا۔ مقصود کلام یہاں حصر نہیں ہے کہ ان کا کھانا صرف ’ضَرِیْعٌ‘ ہو گا۔ بلکہ یہ استثنائے منقطع ہے۔ حصر کا مضمون اس صورت میں پیدا ہوتا جب ’ضَرِیْعٌ‘ کسی درجے میں بھی کوئی کھانے کی چیز ہوتی۔ جب وہ سرے سے طعام میں داخل ہی نہیں ہے تو استثناء سے صرف یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کھانے کی کوئی چیز جب انھیں میسر نہیں آئے گی تو بھوک سے بے بس ہو کر وہ ’ضَرِیْعٌ‘ زہر مار کریں گے جو دوزخیوں کے لیے وہاں موجود ہو گی۔ اس سے اسی نوع کی بعض دوسری چیزوں کی نفی نہیں ہوتی جو وہاں موجود ہوں گی اور دوزخی ان کو کھانے پر مجبور ہوں گے۔ چنانچہ دوسرے مقام میں مذکور ہے کہ ان گنہ گاروں کا کھانا ’زقّوم‘ بھی ہو گا: إِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوۡمِ ۵ طَعَامُ الْأَثِیْمِ (الدخان ۴۴: ۴۳-۴۴) ’’بے شک زقّوم کی جھاڑی گنہ گاروں کی غذا ہو گی۔‘‘ اسی طرح ایک مقام میں ’غِسْلِیْن‘ کا بھی ذکر آیا ہے: وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ ۵ لَا یَأْکُلُہٗٓ إِلَّا الْخَاطُِوۡنَ (الحاقہ ۶۹: ۳۶-۳۷) ’’اور ان کی غذا زخموں کا دھون ہو گی۔ جس کوصرف گنہ گار ہی کھا سکیں گے۔‘‘ اس سے واضح ہوا کہ دوزخیوں کو کوئی چیز کھانے کی نہیں ملے گی، صرف وہ چیزیں ملیں گی جو نہ صرف یہ کہ کھانے کی ہیں نہیں بلکہ وہ ایسی ہیں کہ دوزخیوں کے سوا کوئی ان کو نگل بھی نہیں سکتا۔
Top