Ruh-ul-Quran - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
(کیا آپ نے ان لوگوں کی حالت پر غور نہیں کیا جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر
اَلَمْ تَرَا اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ کُفْرًاوََّاَحَلُّوْا قَوْمَھُمْ دَارَالْبَوَارِ ۔ جَھَنَّمَ ج یَصْلَوْنَھَا ط وَبِئْسَ الْقَرَارُ ۔ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖ ط قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَکُمْ اِلَی النَّارِ ۔ (سورۃ ابراھیم : 28۔ 29۔ 30) (کیا آپ نے ان لوگوں کی حالت پر غور نہیں کیا جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم میں لا اتارا، جس میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرائے تاکہ اس کے راستہ سے لوگوں کو گمراہ کرکے ہٹائیں۔ آپ ﷺ کہہ دیجئے چند دن لطف اٹھا لو، بالآخر تمہاری ٹھکانہ جہنم ہے۔ ) اَلَمْ تَرَکا مخاطب اور قریش کو تنبیہ اس آیت کریمہ کے آغاز میں ہر اس شخص سے خطاب ہے جو حق و باطل کی اس کشمکش کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ ایک طرف آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور مسلمان ہیں، دوسری طرف قریش اور مکہ کے عام لوگ۔ ان میں سے ہر ایک فرد کو متوجہ کرکے کہا جارہا ہے کہ ذرا ان قریش کے طوراطوار کو دیکھو، یہ خود کو بہت سمجھدار سمجھتے ہیں اور ان کی نخوت اور تکبر کسی دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بایں ہمہ حال ان کا یہ ہے کہ ان کے اس حال پر جتنا بھی تعجب کیا جائے کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس سرزمین مکہ میں کیسی کیسی نعمتیں عطا فرمائیں اور پھر ان ہی میں سے آخری پیغمبر کو اٹھایا جو ان کے پاس ایک ایسا کلمہ طیبہ لے کے آئے جس میں ان کے لیے دل و دماغ کی بالیدگی بھی ہے، احساسات کی آسودگی بھی ہے، اخلاق کی توانائی بھی ہے، معاملات کی پاکیزگی بھی ہے، ایک دوسرے سے ہمدردی و خیرخواہی بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کا احساسِ بندگی بھی ہے اور جس کے نتیجے میں تمام دنیا پر اثرونفوذ کے امکانات بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے وعدے بھی ہیں اور دنیا و آخرت میں استقامت اور استقلال کے نشانات بھی ہیں۔ ایک نئی زندگی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے۔ لیکن ان بدنصیبوں نے اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرنے کی بجائے اسے کفرانِ نعمت سے بدل ڈالا۔ قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی ناشکری کی، آنحضرت ﷺ کی دعوت کا راستہ روکا، مسلمانوں کو اذیتیں پہنچائیں اور اپنی قوم کو ایک ایسے راستے پر لے چلے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں دارالبوار یعنی ہلاکت کے گھر میں جا اتارا۔ اللہ تعالیٰ کے نبی ( علیہ السلام) نے انھیں دنیوی اور اخری کامیابیوں کے نہ صرف مژدے سنائے بلکہ خلافتِ ارضی کا انھیں مستحق بنایا اور جنت کی نعمتوں کا انھیں وارث ٹھہرایا۔ لیکن ان بدبختوں نے اللہ تعالیٰ کی یکتائی کو شرک سے ملوث کر ڈالا۔ اس کی وحدانیت کے مقابلے میں کئی کئی ہمسر لا کھڑے کیے۔ اور اس طرح سے ان کے لیے گمراہی اور بربادی کا ایک ایسا راستہ کھولا جس میں نہ فطرت کی آواز شامل ہے نہ عقل و دانش کی تائید۔ انسانیت کی اکائی کو نہ جانے کہاں کہاں تقسیم کر ڈالا۔ اپنے جیسی مخلوقات کو انسانوں کا معبود ٹھہرا کر انسان کی ایسی تذلیل کی کہ نہ اس کے اندر بلند عزمی باقی رہی اور نہ منزل کا شعور باقی رہا۔
Top