Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 86
وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَآءَهُمْ قَالُوْا رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِیْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَ١ۚ فَاَلْقَوْا اِلَیْهِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَۚ
وَاِذَا : اور جب رَاَ : دیکھیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا (مشرک) شُرَكَآءَهُمْ : اپنے شریک قَالُوْا : وہ کہیں گے رَبَّنَا : اے ہمارے رب هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں شُرَكَآؤُنَا : ہمارے شریک الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كُنَّا نَدْعُوْا : ہم پکارتے تھے مِنْ دُوْنِكَ : تیرے سوا فَاَلْقَوْا : پھر وہ ڈالیں گے اِلَيْهِمُ : ان کی طرف الْقَوْلَ : قول اِنَّكُمْ : بیشک تم لَكٰذِبُوْنَ : البتہ تم جھوٹے
اور جب وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا ہے اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو پکار اٹھیں گے کہ اے ہمارے رب یہی ہمارے وہ شرکاء ہیں جن کو ہم تجھے چھوڑ کر پکارتے رہے تو وہ شریک انھیں جواب دیں گے یقینا تم جھوٹ بول رہے ہو۔
وَاِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا شُرَکَآئَ ھُمْ قَالُوْا رَبَّنَا ھٰٓؤْلَآئِ شُرَکَآؤْنَا الَّذِیْنَ کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ ج فَاَلْقَوْا اِلَیْھِمُ الْقَوْلَ اِنَّکُمْ لَکٰذِبُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 86) (اور جب وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا ہے اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو پکار اٹھیں گے کہ اے ہمارے رب یہی ہمارے وہ شرکاء ہیں جن کو ہم تجھے چھوڑ کر پکارتے رہے تو وہ شریک انھیں جواب دیں گے یقینا تم جھوٹ بول رہے ہو۔ ) مشرکین اور شریکوں میں توتکار اس آیت کریمہ میں مشرکین سے ایک ایسی بات کہی جارہی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مشرکین پر جو مصیبت پڑنے والی ہے وہ صرف عذاب ہی کی شکل میں نہیں ہوگی بلکہ جگ ہنسائی اور رسوائی کی شکل میں بھی ہوگی۔ جب وہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہوں گے تو اچانک ان کی نظر پڑے گی کہ ایک طرف سے ان لوگوں کو ہانکتے ہوئے لایا جارہا ہے جو دنیا میں انھیں اطمینان دلاتے رہے کہ تمہیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے، ہم آخرت کی ضمانت دیتے ہیں۔ ہمارا کوئی دامن گرفتہ آخرت میں پکڑا نہیں جائے گا۔ ہمارا نام اور ہماری ذات آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ چناچہ مشرکین نے یہ سمجھ کر کہ ہماری دنیوی اور اخروی کامیابیاں صرف ان شریکوں کے دم قدم سے ہیں تو زندگی بھر ان کی پوجا کی، ان کی اطاعت کی، ان کے پیچھے چلتے رہے اور انھی کی خدمت بجالاتے رہے۔ چناچہ جیسے ہی ان کو دیکھیں گے کہ وہ بھی ہماری طرح اپنے گناہوں کی شامت میں پکڑے ہوئے ہیں تو چیختے ہوئے اپنے رب سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ! یہی ہیں وہ لوگ جن کو ہم دنیا میں تیرے سوا پکارا کرتے تھے۔ انھیں کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ ہماری گمراہی کا اصل سبب یہ ہیں۔ انھوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکائے رکھا۔ ہم ان پر اعتماد کرتے رہے اور یہ ہمیں گمراہ کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی وہ شرکاء ان کے الزامات کو سنیں گے تو وہ سختی سے ان کی باتوں کو جھٹک دیں گے اور صاف صاف کہیں گے کہ ہم نے تمہیں بالکل نہیں بہکایا، تم جھوٹ بولتے ہو۔ اس تردید کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان کے شرک سے انکار کریں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمیں شریک ٹھہرایا تو وہ ہمارے کہنے پر نہیں بلکہ یہ سب کچھ تمہارے اپنے خیالات کا فساد ہے، ہم نے تمہیں دیکھا تک نہیں لیکن تم نے نہ جانے کس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا ہے۔
Top