Ruh-ul-Quran - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
(اور اے پیغمبر کتاب میں مریم کی سرگزشت بیان کیجیے جب وہ الگ ہوگئیں اپنے گھر والوں سے ایک مکان میں جو مشرق کی جانب تھا۔
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ م اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِہَا مَکَانًا شَرْقِـیًّا۔ فَا تَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِہِمْ حِجَابًا قف ص فَاَرْسَلْنَـآ اِلَیْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سْوِیًّا۔ (مریم : 16، 17) (اور اے پیغمبر کتاب میں مریم کی سرگزشت بیان کیجیے جب وہ الگ ہوگئیں اپنے گھر والوں سے ایک مکان میں جو مشرق کی جانب تھا۔ پس اس نے اپنے آپ کو لوگوں سے پردے میں کرلیا تو ہم نے اس کی طرف اپنے جبرائیل کو بھیجا جو اس کے سامنے ایک کامل بشر کی صورت میں نمودار ہوا۔ ) حضرت مریم کا ہیکل سے مشرقی جانب قیام سورة آل عمران میں یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مریم [ کی پیدائش سے پہلے ان کی والدہ نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اولاد دے گا تو میں اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے نذر کردوں گی۔ چناچہ حضرت مریم پیدا ہوئیں تو بچپن گزرنے کے بعد ان کی والدہ انھیں ہیکل میں لے کر آئیں اور وہاں کے ذمہ داروں سے درخواست کی کہ آپ انھیں اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت کے لیے قبول کرلیجئے۔ حضرت مریم چونکہ ابھی بچی تھیں اس لیے سوال پیدا ہوا کہ انھیں کس کی کفالت میں دیا جائے۔ سورة آل عمران میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کے خادموں میں اس مسئلے پر آپس میں اختلاف ہوا۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ ذمہ داری اسے دی جائے۔ مریم کے والد چونکہ اس گھر کی ایک بڑی شخصیت رہ چکے تھے تو ان کی بیٹی کی کفالت کرنا ایک اعزاز سے کم نہیں تھا۔ بڑے تردد کے بعد حضرت مریم کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں دیا گیا۔ آپ ( علیہ السلام) نے ان کو ایک محراب میں رکھا، یعنی ان حجروں میں سے ایک حجرے میں جو بیت المقدس کے خدام اور معتکفین کے لیے بنائے گئے تھے۔ اس آیت کریمہ میں یہ بتایا جارہا ہے کہ حضرت مریم جس محراب میں رہائش پذیر تھیں وہ بیت المقدس کے مشرقی حصے میں واقع تھا اور مزید یہ بات کہ انھوں نے معتکفین کے عام طریقے کے مطابق ایک پردہ لٹکا کر اپنے آپ کو لوگوں کی نگاہوں سے محفوظ کرلیا تھا۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ حضرت مریم کے بیت المقدس کے مشرقی کونے میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہیکل کا جو حصہ عورتوں کے اعتکاف و عبادت کے لیے خاص تھا وہ مشرقی سمت ہی میں تھا۔ اس میں حضرت مریم کے حجرے کی خصوصیت نہیں۔ اس عہد کے بیت المقدس کے نقشوں میں عورتوں کی جائے عبادت کو مشرق ہی جانب دکھایا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے مکاناً شرقیاً کا یہ سیدھا سادھا مطلب لینے کی بجائے یہ مطلب لیا ہے کہ اس سے مراد ناصرہ کی وہ بستی ہے جس میں مسیحی روایات کے مطابق آپ پیدا ہوئے تھے۔ وہ چونکہ یروشلم سے مشرق کی جانب تھی اس لیے اس سے مراد ناصرہ ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ناصرہ یروشلم کے مشرق میں نہیں بلکہ شمال میں ہے۔ اس واقعہ کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد لانے کی حکمت حضرت مریم کے اس واقعہ کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد ذکر کرنے سے شایدیہ بتانا مقصود ہے کہ تم نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واقعہ میں پڑھا ہے کہ جب انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اولاد کے لیے دعا کی ہے تو وہ کہولت کی انتہائی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ ان کی ہڈیاں تک جسم کا بوجھ اٹھانے سے انکار کررہی تھیں اور ان کی بیوی مدت سے بانجھ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں تخلیقِ انسانی کے عام ضابطے کے مطابق ماں باپ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی عاجزی اور اخلاص کو قبول فرمایا اور ان کی زندگی کو ایسا ثمر دیا جس کے ثمرآور ہونے کا موسم گزر چکا تھا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کا اتصال اولاد کی تخلیق کا حقیقی سبب نہیں کیونکہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو جسمانی اعتبار سے صحت مند اور توانا ہوتے ہیں لیکن اولاد سے محروم رہتے ہیں۔ حقیقی سبب اولاد کی پیدائش کا وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا حکم ہے۔ وہ چاہے تو سوکھے ہوئے درختوں کو ثمرآور کردے اور چاہے تو بھلے چنگے درختوں کو بےثمر کردے۔ حضرت یحییٰ کا پیدا ہونا سراسر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار اور اس کی قدرت کی نشانی تھی۔ بایں ہمہ کسی نے حضرت یحییٰ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار نہیں دیا تو کس قدر ستم ظریفی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس لیے اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا جائے کہ ان کا باپ کوئی نہیں تھا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حقیقت میں بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے اس کے باوجود انسان ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے ماں سے پیدا ہوتے ہیں تو انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کم عقلی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پہلے حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا کا واقعہ بیان کیا اور اب حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کو بیان کیا جارہا ہے۔ حضرت مریم کا امتحان حضرت مریم بیت المقدس کے مشرقی کونے میں اپنے محراب میں معتکف تھیں، اب وہ عمر کی اس منزل کو پہنچ چکی تھیں جب بچیوں کی شادیاں ہوتی ہیں اور ان پر اولاد کی ذمہ داری ڈالی جاسکتی ہے کہ اچانک ان کی طرف ایک شخص آیا جو نہایت خوبرو اور نہایت صحت مند نوجوان تھا۔ حضرت مریم کی جیسے ہی اس پر نظر پڑی تو عفت اور پاکدامنی کے احساس سے ان کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی اور ساتھ ہی حیرانی نے بھی آپکڑا کہ آج تک میرے حجرے میں کبھی کوئی شخص حضرت زکریا کے علاوہ داخل نہیں ہوسکا (اور ممکن ہے ان کا کمرہ مقفل بھی ہو) تو یہ شخص اندر کیسے آگیا ؟ ایسے موقعوں پر عفت مآب لڑکیاں عموماً چیخ و پکار کرنے لگتی ہیں، لیکن حضرت مریم نے ایسی کوئی کمزوری دکھانے کی بجائے نہایت جرأت کا ثبوت دیتے ہوئے کہا۔
Top