Ruh-ul-Quran - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
(اور کتاب میں حضرت ابراہیم کی سرگزشت کو ذکر کیجیے، بیشک وہ راست باز اور نبی تھے۔
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ 5 ط اِنَّـہٗ کَانَ صِدِّیْـقًا نَّبِیًّا۔ (مریم : 41) (اور کتاب میں حضرت ابراہیم کی سرگزشت کو ذکر کیجیے، بیشک وہ راست باز اور نبی تھے۔ ) روئے سخن قریش مکہ کی طرف ہے گزشتہ دو رکوعوں میں خطاب اگرچہ مشرکینِ مکہ سے تھا لیکن درحقیقت روئے سخن نصاریٰ کی طرف تھا کیونکہ جس طرح یہود نبی کریم ﷺ کی مخالفت میں قریش مکہ کی مدد کررہے ہیں اور مختلف سوالات کی صورت میں نبی کریم ﷺ کو زچ کرنے کی کوشش کررہے تھے اسی طرح نصاریٰ بھی ان کاوشوں میں شریک ہوچکے تھے۔ انھیں بھی جب موقع ملتا وہ قریش مکہ کی پیٹ ٹھونکتے اور آنحضرت ﷺ کی مخالفت کے مختلف طریقے انھیں سمجھاتے۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کا تفصیلی واقعہ حقیقتِ مسیح اور پیغامِ مسیح کو واضح طور پر بیان کرنے کے بعد اب روئے سخن قریش مکہ کی طرف پھر رہا ہے اور براہ راست ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ ان کے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سرگزشت بیان کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قریش مکہ کو یہ زعم تھا کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے واسطے سے اولاد ہیں۔ اس لحاظ سے ہم حسب و نسب کے اعتبار سے دوسروں سے بلند ہیں اور ہماری عظمت کی مزید دلیل یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے گھر کے متولی ہیں اور جب انھیں کہا جاتا کہ اگر تم واقعی ان نسبتوں کو عزیز رکھتے ہو تو پھر تم بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو۔ تو وہ جواب میں سب سے بڑی دلیل یہ دیتے تھے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو بتوں کی پرستش کرتے دیکھا ہے اور وہ یقینا حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے پر ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا طریقہ دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ ہے۔ ہمیں دین انھیں سے ملا ہے۔ ہمارے ابائواجداد نے انھیں سے بت پرستی کی تعلیم پائی ہے۔ ان کے اس رویئے کا ابطال کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ ان کے سامنے حضرت ابراہیم کی سرگزشت بیان کریں تاکہ انھیں معلوم ہو کہ انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جو تصورات قائم کر رکھے ہیں وہ سراسر غلط ہیں۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سرگزشت کو شروع کرنے سے پہلے ان کی حیثیت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صدیق اور نبی تھے۔ صدیق کے معنی میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ صدیق وہ ہوتا ہے جس نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور دوسرا قول یہ ہے کہ صدیق وہ ہے جس کے عقیدے اور قول و عمل میں کوئی تضاد نہ ہو، یعنی جس بات پر وہ دل میں یقین رکھتا اور اس کی سچائی کا معترف ہے وہی بات اس کی زبان پر بھی ہو اور اس کا ہر فعل اسی اعتقاد کا ترجمان ہو۔ نبی کا معنی و مفہوم نبی کے معنی میں بھی اہل لغت نے اختلاف کیا ہے۔ بعض اس کو لفظ نبأ سے مشتق قرار دیتے ہیں۔ نبا کا معنی ہوتا ہے، خبر۔ اس لحاظ سے نبی کا معنی ہوگا، خبر دینے والا۔ اللہ تعالیٰ جس کو نبوت عطا فرماتے ہیں، اس کا اصل کام ہی یہ ہے کہ وہ دنیا کی حقیقت کی خبر دے، آخرت کی حقیقت واضح کرے، انسانی زندگی کی بھلائی کس میں ہے اور تباہی کس میں، اس کا عقدہ کھولے۔ زندگی کے وہ حقائق جن کا تعلق عالم غیب، عالم آخرت اور اخلاق سے ہے ان کے بارے میں یہ بتائے کہ اس بارے میں پروردگار کے احکام کیا ہیں۔ غرضیکہ کہ وہ اس بات کی خبر دے کہ اللہ تعالیٰ کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں میں ناراض ہوتا ہے اور تمہاری کامیابی کے راستے کیا ہیں اور ناکامی کے کیا ہیں۔ بعض اہل لغت کا خیال ہے کہ نبی کا مادہ نَبُؤ ہے، یعنی رفعت اور بلندی۔ اس معنی کے لحاظ سے نبی کا مطلب ہوگا، بلند مرتبہ اور عالی مقام۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل نبیٔہے، جس کا معنی طریق اور راستے کے ہیں اور انبیاء کو نبی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔ صدیق کا مفہوم صدیق اور نبی کو ایک ساتھ جب کسی عظیم شخصیت کی صفت کے طور پر ذکر کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے نبی ہونے کی حیثیت سے زندگی اور آخرت کے بارے میں جو عقائد، احکام اور آداب وحی کیے گئے ہیں جن کے مجموعے کو دین کہتے ہیں اس کی ساری زندگی اس کی تصویر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین اور شریعت کو جس طرح اپنے دل میں سچ اور حق سمجھتا ہے اسی طرح اس کا مصداق بن کر زندگی گزارتا ہے۔ اس کا ہر عمل اس کے اعتقاد کی تائید ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اصل تعارف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت عطا فرمائی اور ان پر صحیفے نازل فرمائے۔ آپ ( علیہ السلام) کو جو بنیادی اعتقادات اور شریعت دی گئی آپ ( علیہ السلام) نے ساری زندگی اس کا مصداق بن کر گزاری اور اس راستے میں جو بھی امتحان دینا پڑا اس میں کامیاب ہوئے اور جو بھی تکلیف اٹھانا پڑی اسے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ تبلیغ و دعوت کے آغاز ہی میں گھر در اور وطن چھوڑنا پڑا اور قوم چھوڑنا پڑی۔ آپ ( علیہ السلام) نے نہایت استقامت سے یہ قربانی دی۔ پھر اللہ تعالیٰ کے دین کو عام کرنے کے لیے کبھی ملک شام میں نظر آئے، کبھی فلسطین کی خاک چھانی، کبھی مصر میں اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت پیش کی۔ وطن سے بےوطن ہو کر نہ جانے کیسی کیسی صعوبتیں اٹھائیں، لیکن کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے قریب بیوی اور نوزائیدہ فرزند کو چھوڑنے کا حکم دیا، تو آپ ( علیہ السلام) نے اس کی تعمیل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بچہ بڑا ہوا تو اس کی قربانی مانگ لی گئی تو اس کے پیش کرنے میں ذرا تأمل سے کام نہیں لیا اور زندگی کے اس مشکل ترین امتحان سے سرخرو ہو کر گزرے۔ تب اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کو صدیق کا خطاب دیا۔ کیونکہ آپ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو سچا کر دکھایا اور دنیا پر یہ بات واضح کردی کہ بندگی رب کا حق کس طرح ادا کیا جاتا ہے۔ قریش مکہ کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا عنوان اللہ تعالیٰ کے احکام کو سچا ثابت کرنا اور اس کا مصداق بن کر جینا ہے اور اس راستے میں آنے والے ہر امتحان سے خندہ پیشانی سے گزرنا ہے۔ تمہیں اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کا دعویٰ ہے بلکہ تم اپنے آپ کو ان کی وراثت اور ان کے ساتھ نسبت کا حقدار سمجھتے ہو تو پھر تمہیں اس عہد کو پورا کرکے دکھانا ہوگا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ باندھا تھا۔ وہ عہد تو کامل توحید اور بندگی رب کا تھا جس میں کسی شرک اور بت پرستی کا گزر بھی ممکن نہ تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ نسبت کا دعویٰ بھی رکھتے ہو اور بت پرستی پر فخر بھی کرتے ہو۔ تم اگر واقعی اپنے آبائواجداد کے دین پر ہو تو تمہارے اصل جدِامجد تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور ان کی زندگی خدا پرستی کا پیغام ہے اس میں بت پرستی کا تو شائبہ تک نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تعارف کے بعد ان کے پیغام کا ذکر کیا جارہا ہے اور اس میں خاص طور پر یہ بات نمایاں کی جارہی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیغام وہی تھا جس کی دعوت نبی کریم ﷺ دے رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے باپ اور ان کی قوم نے وہی کچھ کیا تھا جو تم آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والوں کے ساتھ کررہے ہو۔
Top