Ruh-ul-Quran - Maryam : 89
لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّاۙ
لَقَدْ جِئْتُمْ : تحقیق تم لائے ہو شَيْئًا : ایک بات اِدًّا : بری
یقینا تم نے ایک سخت معیوب بات کہی ہے۔
لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا۔ تَکَادُالسَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَحِزُّالْجِبَالُ ھَدًّا۔ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ (مریم : 89، 90، 91) (یقینا تم نے ایک سخت معیوب بات کہی ہے۔ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ دھماکے کے ساتھ گرپڑیں۔ کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ رحمن کا ایک بیٹا ہے۔ ) اِدًّا … اَی مُنْکَرًا عَظِیْمًا یعنی سخت معیوب اور قبیح چیز۔ جوہری نے کہا الادَّم والادَّۃ۔ الدَّاھِیَۃُ وَالْاَمْرُالْفَظِیْعُ (قرطبی) ھَدًّا … اس کا معنی کسی دیوار وغیرہ کے دھماکے کے ساتھ گرنے کے ہیں۔ اسلوبِ کلام کی تبدیلی پہلی آیت میں سب سے پہلی بات جو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ اسلوبِ کلام کی تبدیلی ہے۔ سابقہ آیت کریمہ میں بات غائب کے صیغے سے کہی گئی ہے اور اس آیت میں صیغہ خطاب استعمال ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے تو گمراہ اور مشرک قوموں کے طرز عمل کا ذکر فرماتے ہوئے یہ فرمایا کہ ان بدبختوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد بنا رکھی ہے اور اس کا انتساب پروردگار کی طرف کیا جارہا ہے۔ ایک تو یہ دریدہ دہنی کے ساتھ ساتھ حد سے بڑھی ہوئی جسارت ہے کہ اپنی گمراہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہے اور دوسرا ان کی گمراہیوں کا اصل سبب ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسی باتوں کا تذکرہ بھی نہایت پر جلال انداز میں ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے نہایت مثبت اور پرسکون انداز میں ان کی گمراہی کا تذکرہ کیا۔ لیکن پھر یکلخت شدت غضب میں جن لوگوں کا غائب سے تذکرہ کیا جارہا تھا ان سے خطاب کرکے فرمایا کہ بدبختو، تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی جو نسبت کی ہے یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اس سے زیادہ مکروہ، معیوب اور بےہودہ بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو اتنی بڑی بات ہے کہ تم انسانوں کو تو شاید اس کا اندازہ نہیں لیکن باقی کائنات کے لیے تو اس بات کا برداشت کرنا آسان نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ انھیں اسے برداشت کرنے کا حکم نہ دیتا اور پھر ساتھ ہی اس کی طاقت عطا نہ کرتا تو قریب تھا کہ آسمان پھٹ جاتے، زمین شق ہوجاتی اور پہاڑ ایک دھماکے سے گرجاتے جبکہ انسان کے دل کا پھٹ جانا اور اس پر موت واقع ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن زمین و آسمان کا پھٹ جانا اور پہاڑوں کا گر جانا ایک بہت بڑی بات ہے۔ لیکن پروردگار فرماتے ہیں کہ یہ ساری مخلوقات چونکہ ہمارے حکم کے تابع ہیں اس لیے انھوں نے جیسے کیسے اس ظلم کو برداشت کیا، ورنہ ان پر جو گزری ہے اس کا نتیجہ لازماً یہی ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنی حیثیتِ عرفی کھو دیتے۔ ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یہ اندازِ بیان سراسر مجاز ہے، محاوراتی انداز میں یہ بات کہہ دی گئی ہے ورنہ حقیقت میں زمین و آسمان کا پھٹنا مراد نہیں۔ اس لیے کہ زمین، آسمان اور پہاڑ یہ سب ازقسمِ جمادات ہیں جن میں نہ روح ہے نہ شعور۔ تو ان کا صدمے سے پھٹ جانے کا کیا معنی ؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر روح یا شعور ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیسا ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن قرآن و سنت سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ چٹانیں اللہ تعالیٰ کے خوف سے پھٹ جاتی ہیں اور بعض دفعہ بڑے بڑے پتھر اللہ تعالیٰ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال سے تأثر ضرور رکھا گیا ہے۔ وہ پروردگار کی عظمت و جلال کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اس لیے یہ بات قرین قیاس ہے کہ جس پروردگار کو وہ خالق کائنات، مالک ارض و سما اور مدبر کائنات سمجھتے ہیں اس کے بارے میں وہ یہ ہر زہ سرائی کیسے گوارا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد بھی ہے جو یقینا اس کی شریک وسہیم بھی ہوگی کیونکہ یہ تصور اس کے قدیم و ازلی اور حیی قیوم ہونے کے سراسر خلاف ہے۔ مزیدبرآں یہ بھی کہ پدری و فرزندی کا رشتہ حدوث و احتیاج کا لازمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ قدیمہ اور قائمہ کی ضد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت کو چیلنج اللہ تعالیٰ کے لیے کسی کو ہمسر اور کفو قرار دینا اس کی یکتائی کو بٹہ لگانا اور اللہ تعالیٰ کی غیرت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اور یہ بات سامنے کی ہے کہ جس بات پر اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑکتی ہے اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کی دیگر مخلوقات کی غیرت بھی اس پر جوش میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حلم اور اس کی بردباری اس کے غضب اور جلال پر غالب آجاتی ہے تو کفار اور مشرک بسا اوقات دنیا میں اس کے غضب سے بچے رہتے ہیں۔ لیکن اس کی مخلوقات بالخصوص زمین و آسمان اور پہاڑ یقینا اپنے اوپر وہ قابو نہیں رکھتے۔ اس لیے قریب ہے کہ وہ ایسی باتوں پر پھٹ جائیں اور گرجائیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم انھیں بےقابو نہیں ہونے دیتا بلکہ ان کی باگیں کھینچ کر رکھتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کیخلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے۔ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ اس آیت کریمہ میں مزید وضاحت فرما دی کہ زمین و آسمان اور پہاڑوں کے غیض و غضب کو پروردگار نے جو بیان فرمایا ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ پر اولاد کی تہمت لگائی ہے اور اسی سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے لیے اولاد ثابت کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ اسی وجہ سے اس نے باردگر اس کو کھول کر بیان فرمایا ہے۔
Top