Urwatul-Wusqaa - Maryam : 89
لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّاۙ
لَقَدْ جِئْتُمْ : تحقیق تم لائے ہو شَيْئًا : ایک بات اِدًّا : بری
بڑی ہی سخت بات ہے جو تم گھڑ لائے ہو
ان نظریات کے حامل سب لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ بہت ہی سخت بات ہے جو تم نے کہی ہے : 89۔ (اد) کی اصل ” ادد “ ہے ۔ ” الاد : الداھیہ والامر الفظیع “ وہ امر جس کی برائی حد سے گزر چکی ہو یعنی بہت ہی بری بات کہ اس سے بری ممکن ہی نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا اتنی بری بات ہے کہ اس سے زیادہ کوئی بری بات اور دین اسلام میں نہیں ہو سکتی ۔ (جاء یجئی) کے وہی معنی ہیں جو (اتی) کے ہیں لیکن (جاء) میں قصد پایا جاتا ہے اور اس جگہ (جئتم) بولا گیا ہے یعنی جس بات کا تم نے قصد کیا ہے وہ بہت ہی بری بات اتنی بری کی اس سے زیادہ بری بات اور کوئی نہیں ہو سکتی ، گویا یہ کہا جارہا ہے کہ جس بات کا تم نے قصد کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ عقیدہ ابنیت دنیا میں پھیلا دیا ہے اور ظاہر ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا عقیدہ ابنیت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کا ہے باقی عقائد اس قدر نہیں پھیل سکے نہ یہود کا عقیدہ اور نہ مشرکین کا عقیدہ اس قدر پھیلا ہے ہاں ! اب دوسرے نمبر پر اس طرح کا کوئی عقیدہ ہے تو وہ اولیاء اللہ ہی کا ہوسکتا ہے کہ اللہ کے دوستوں اور ولیوں سے وہ کام نکالا جائے جو عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) سے نکالا ہے کہ قوم کی بخشش ونجات کے لئے ان کو سولی پر لٹکا دیا گیا اور اب جو شخص بھی یہ مان لے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب دی گئی اور ہمارے گناہوں کے عوض میں دی گئی اس نے گویا نجات حاصل کرلی ، اور (اد) کا لفظ ایک ہی بار قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ۔
Top