Tadabbur-e-Quran - Maryam : 89
لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّاۙ
لَقَدْ جِئْتُمْ : تحقیق تم لائے ہو شَيْئًا : ایک بات اِدًّا : بری
یہ تم نے ایسی سنگین بات کہی ہے
لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا۔ "إِدّ " کے معنی ہیں سخت، درشت اور سنگین بات۔ یہاں اس اسلوب کلام پر بھی نظر رہے کہ بات غائب کے صیغہ سے ہو رہی تھی لیکن جب شدت عتاب و غضب کا موقع آیا تو دفعۃً صیغہ خطاب کا آگیا۔ یہ وہی اسلوب کلام ہے جس کا ذکر ہم " وان منکم الا واردھا " کے تحت کر آئے ہیں۔ فرمایا کہ یہ تم بڑی ہی سنگین بات کے مرتکب ہوئے ہو۔ سنگین اس وجہ سے کہ یہ خدا کی خدائی اور اس کی کتائی میں دوسرے کو شریک وسہیم بنانا ہے اور خدا غیور ہے اس وجہ سے اس بات کو وہ کبھی گوارا نہیں کرسکتا کہ کسی کو اس کا کفو اور ہمسر قرار دے کر اس کی یکتائی کو بٹہ لگایا جائے۔ جب بندے، بندے ہوکر، کسی ایسی بات کو گوارا نہیں کرتے جو ان کی غیرت کو چیلنج کرے تو وہ خدائے غیور جو تمام ارض و سما کا تنہا مالک ہے اس بات کو کس طرح گوارا کرسکتا ہے کہ اس کے بندے اس کے سوا کسی اور کی بندگی کریں۔ خدا کی غیرت کی تعبیر کے لیے قدیم صحیفوں میں یہ تمثیل بھی استعمال ہوئی ہے کہ جب تم یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ تمہاری بیوی کسی غیر کی بغل میں سوئے تو خدائے غیور کس طرح گوارا کرسکتا ہے کہ اس کا بندہ کسی اور کو سجدہ کرے۔
Top