Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ
: نہیں
الْبِرَّ
: نیکی
اَنْ
: کہ
تُوَلُّوْا
: تم کرلو
وُجُوْھَكُمْ
: اپنے منہ
قِبَلَ
: طرف
الْمَشْرِقِ
: مشرق
وَالْمَغْرِبِ
: اور مغرب
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور دن
الْاٰخِرِ
: آخرت
وَالْمَلٰٓئِكَةِ
: اور فرشتے
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
وَالنَّبِيّٖنَ
: اور نبی (جمع)
وَاٰتَى
: اور دے
الْمَالَ
: مال
عَلٰي حُبِّهٖ
: اس کی محبت پر
ذَوِي الْقُرْبٰى
: رشتہ دار
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنَ
: اور مسکین (جمع)
وَابْنَ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
وَالسَّآئِلِيْنَ
: اور سوال کرنے والے
وَفِي الرِّقَابِ
: اور گردنوں میں
وَاَقَامَ
: اور قائم کرے
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتَى
: اور ادا کرے
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَالْمُوْفُوْنَ
: اور پورا کرنے والے
بِعَهْدِهِمْ
: اپنے وعدے
اِذَا
: جب
عٰھَدُوْا
: وہ وعدہ کریں
وَالصّٰبِرِيْنَ
: اور صبر کرنے والے
فِي
: میں
الْبَاْسَآءِ
: سختی
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
وَحِيْنَ
: اور وقت
الْبَاْسِ
: جنگ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
صَدَقُوْا
: انہوں نے سچ کہا
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُتَّقُوْنَ
: پرہیزگار
اللہ کے ساتھ وفاداری محض یہ نہیں ہے کہ تم مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرلو بلکہ وفاداری ان کی وفاداری ہے جو اللہ پر، یومِ آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر صدق دل سے ایمان لائیں اور اپنے مال اس کی محبت کے باوجود قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور گردنیں چھڑانے پر خرچ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور جب معاہدہ کر بیٹھیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ خاص کر وہ لوگ جو فقر وفاقہ، تکالیفِ جسمانی اور جنگ کے اوقات میں ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے راست بازی دکھائی اور یہی لوگ ہیں جو سچے متقی ہیں
گزشتہ رکوع میں عربوں اور مسلمانوں کو توحید کی تعلیم دی گئی۔ توحید کے خلاف عربوں میں اور بنی اسرائیل میں جو جو تصورات پائے جاتے تھے اور جس جس طرح اللہ کی صفات میں بعض قوتوں کو شریک کیا گیا تھا ایک ایک کرکے ان سب پر تنقید کی گئی۔ اس ضمن میں مسلمانوں کو توحید کے ہمہ جہت تصور کو دل و دماغ میں راسخ کرنے کی تلقین کی گئی۔ اس طرح سے توحید کو بنیاد بنا کر اللہ سے وابستگی اور اس سے وفاداری کی بنیادیں مستحکم کی گئیں۔ انسانی زندگی کا حادثہ یہ ہے کہ انسان بعض دفعہ فکری طور پر جس سے وابستہ ہوتا ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ عملی لحاظ سے بھی اپنی وابستگی میں کامل ہو۔ بعض دفعہ فکری کاوشوں اور دماغی تصورات میں کوئی کمزوری نہیں ہوتی لیکن عمل سے الگ رہنے کی وجہ سے دماغی تصورات محض دماغ کی عیاشی ہوکررہ جاتے ہیں۔ جب کبھی عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کا موقع آتا ہے تو اصولی بات کو چھوڑ کر فروعی باتوں کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل ایک عبرتناک مثال کی حیثیت سے نگاہوں کے سامنے تھے۔ انھیں نشانہ بنا کر تعریض کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ اللہ سے وفاداری کے تقاضے چند فروعی باتوں پر عمل کرنے سے ادا نہیں ہوتے جب تک اس کے لوازم ومراسم کی فکر نہیں کی جاتی اور ان کے حصول کو دینی زندگی کا حاصل سمجھ کرہمہ تن کوشش نہیں کی جاتی۔ چناچہ اس حقیقت کو اگلی آیت کریمہ میں پوری طرح کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ لا وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُ وْا ج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّـقُوْنَ ۔ (اللہ کے ساتھ وفاداری محض یہ نہیں ہے کہ تم مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرلو بلکہ وفاداری ان کی وفاداری ہے جو اللہ پر، یومِ آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر صدق دل سے ایمان لائیں اور اپنے مال اس کی محبت کے باوجود قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور گردنیں چھڑانے پر خرچ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور جب معاہدہ کر بیٹھیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ خاص کر وہ لوگ جو فقر وفاقہ، تکالیفِ جسمانی اور جنگ کے اوقات میں ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے راست بازی دکھائی اور یہی لوگ ہیں جو سچے متقی ہیں۔ ) (البقرہ : 177) البر کا مفہوم اس آیت کریمہ میں البر کا لفظ اس طرح استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ نہ صرف یہ کہ اس آیت کا اصل مفہوم اور عنوان ہے بلکہ اسلامی زندگی کی اگر کوئی غرض وغائیت مقرر کی جاسکتی ہے تو وہ یہی لفظ ہے۔ عام تراجم میں اس لفظ کا ترجمہ ” نیکی یا اطاعت “ کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ بالکل صحیح ہے لیکن اس ترجمہ سے اس لفظ کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اس لفظ کے مفہوم میں جتنی وسعت ہے کسی زبان میں بھی ایسالفظ موجود نہیں جو اس کا حق ادا کرسکے اور معنی و مفہوم کی ساری وسعتوں کو سمیٹ سکے۔ البتہ ! ایک ایسا لفظ بعض اہل علم نے ترجمے کے طور پر اختیار کیا ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک اس کے مفہوم کو ادا کرتا ہے۔ وہ ہے ” وفاداری یا Commitment “ کیونکہ عربی لغت میں اس کا اصل مفہوم ” کسی کے حق کو پورا کرنا “ ہے اور حق میں کوئی تخصیص نہیں۔ ایک مومن پر اللہ کا بھی حق ہے، ماں باپ کا بھی، مخلوقِ خدا کا بھی اور اپنی ذات کا بھی۔ ان تمام حقوق کو ادا کرنا اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہے۔ حقوق کی ادائیگی اور حقوق کا ایفا اس لفظ کی اصل روح ہے۔ ان بنیادی حقوق کے علاوہ ان حقوق کا ایفا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے، جو معاہدات، قول وقرار، حلف وولا، عقو اور قسموں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لفظ کی اس وسعت کی وجہ سے وہ ساری نیکیاں اس کے تحت جمع ہوجاتی ہیں، جو عدل یا احسان کے تحت آسکتی ہیں۔ بر اور بار اس لفظ کے صیغے ہیں، برًّا بوالدیہ اس سعادت مند بیٹے کو کہیں گے جو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار اور ان کے حقوق پورے پورے ادا کرنے والاہو۔ مختصر یہ کہ جتنے حقوق وواجبات ہیں اور جتنی نیکیاں اور بھلائیاں ہیں سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اس قدر وسیع المعنی اور وسیع الاطراف مفہوم کو واضح کرنے کے لیے یقینا کوئی ایک لفظ ناکافی ہوگا جو پوری طرح اس کے مفہوم کو ادا کرسکے۔ عربی زبان چونکہ اپنے اندر بےپناہ وسعت رکھتی ہے اس میں ایسے الفاظ کا ہونا تو چنداں بعید نہیں اور پھر قرآن کریم کا انتخاب بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ لیکن ایسے الفاظ کا دوسری کسی زبان میں ترجمہ یقینابہت مشکل ہے۔ اس لیے اس لفظ کے مفہوم کا بھی پوری طرح احاطہ کرنا کسی لفظ سے تو ممکن نہیں۔ ہاں ! بعض اہل علم نے وفاداری سے جو اس کا ترجمہ کیا ہے وہ ایک حدتک اس لفظ کی روح کو ادا کردیتا ہے۔ وفاداری کے ایفاء کے لیے تین ناگزیر باتیں کوئی آدمی یا کوئی قوم جب کسی کو اپنا آقا بنالیتی ہے تو آقا کے ساتھ اپنی وفاداری کے تعلق کو پختہ کرنے اور اس حق کی ادائیگی کے لیے تین کام کرنا ناگزیر ہوتے ہیں۔ پہلا کام تو یہ ہوتا ہے کہ اپنے آقا سے متعلق تصورات اور آقا کی صفات کو پوری طرح دل و دماغ کا حصہ بنالیا جائے، جب بھی آقا کا خیال آئے تو وہ تصورات اور وہ صفات اس کی ذات کے ساتھ ضم ہو کر رہ جائیں اس کے دل و دماغ کبھی ان تصورات سے بےگانہ نہ ہوں اور دوسری یہ بات کہ اس کا طرز عمل خود بولتا ہو کہ اس کا آقا کون ہے اور یہ واقعی اپنے آقا کا وفادار ہے۔ جس طرح اس کی فکر اس کی عقیدت میں ڈوبی ہوئی ہو اسی طرح اس کا ایک ایک عمل اس کی اطاعت کا آئینہ دارہو اور تیسری چیز یہ کہ وہ اپنے زبان وقلم اور اپنے جذبات سے ہمیشہ وفاداری کے اس تعلق کا اظہار بھی کرتا رہے۔ اس اظہار کے لیے اسے کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے وہ کبھی دریغ نہ کرے۔ ان تنیوں چیزوں میں پہلی چیز کی حیثیت بنیاد کی ہے، دوسری چیز کی حیثیت عمارت کی، اگر بنیاد مضبوط بنے گی تو عمارت بھی مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد میں کمزوری ہے یا اس میں دراڑیں ہیں تو پھر عمارت کی ایک ایک دیوار کو شکست وریخت سے نہیں بچایاجاسکتا۔ رہی تیسری چیز تو اگر یہ دونوں چیزیں اپنی تمام ترصفات کے ساتھ موجود ہیں تو وہ چیز اس کی خوبصورتی اور اس کے ابلاغ کا ذریعہ بنتی ہے اور اگر پہلی دونوں چیزوں میں کمزوری ہے یاسرے سے موجود ہی نہیں تو پھر تیسری چیز پہلی دونوں چیزوں پر پردہ ڈالے رکھتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب دنیا اصل حقیقت سے باخبر ہوجاتی ہے اور یہ قوم ایک تماشہ بن کر رہ جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت اہل کتاب پہلی دونوں باتوں یعنی ایمان اور حسن عمل کی دولت سے محروم ہوچکے تھے۔ البتہ ! اس کمزوری کو چھپانے اور دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے انھوں نے چند فروعی باتوں کو اصل قرار دے کر اپنی قوم کی تمام تر توجہ اسی پر مبذول کررکھی تھی اور انہی فروعی باتوں کو بحث ومجادلہ کا ذریعہ بنا کر مذہب کا بازار گرم کررکھا تھا۔ قرآن کریم ان کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ بندے کا اپنے رب سے تعلق بندگی کا تعلق ہے۔ اس کا رب اس کا آقا ہے اور بندہ اس کا غلام ہے۔ اور یہ دیکھنے کے لیے کہ اللہ سے یہ تعلق بندے کا کہاں تک قائم ہے، یہ دیکھا جائے گا کہ اس تعلق کے بقاء اور استحکام کے لیے جن جن حقائق پر دل و دماغ کو یکسو کرنے کی ضرورت ہے کیا وہ یکسوئی میسر ہے یانھیں ؟ اور مزید یہ کہ کیا زندگی کا طرز عمل دل و دماغ کی یکسوئی کے مطابق ہے یا نہیں ؟ لیکن اگر یہ رویہ اختیار کرلیاجائے کہ اس بات کی تو بالکل پرواہ نہ کی جائے کہ دل و دماغ کی ایمانی کیفیت کا حال کیا ہے اور پوری زندگی کس راستے پر چل رہی ہے ؟ البتہ چند فروعی باتوں پر جھگڑے کا بازار گرم رہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسے افراد اور ایسی قوم کا اللہ کے یہاں کیا انجام ہوگا ؟ اور دنیا میں ان کا کیا مقام ہوگا ؟ چناچہ اسی بنیادی حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے فرمایا جارہا ہے کہ کسی بھی قوم کا قبلہ اس کے دینی تعلق کے اظہار کی ایک علامت ہے۔ اگر تمام دینی مقاصد اور دینی تقاضوں سے صرف نظر کرکے صرف اسی ایک بات پر تمام دینی صلاحیتیں مرکوز کردی جائیں کہ ہمارا قبلہ مشرق ہے یا مغرب ؟ تو اس سے ایک قوم کا جھوٹا بھرم تو باقی رہ سکتا ہے لیکن اس کی حقیقی زندگی کو موت سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ یہود نے اپنے دینی بھرم کو باقی رکھنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کررکھی تھی کہ تحویلِ قبلہ کے نتیجے میں تم نے جو اپنے لیے نیا قبلہ تجویز کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اورا سی ایک نقطہ پر ایک ہنگامہ کھڑا کررکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ اللہ سے وفاداری کا صرف یہی تقاضا نہیں یا صرف یہی علامت نہیں کہ تم مشرق کی طرف منہ کرتے ہو یا مغرب کی طرف بلکہ اصل بات تو دیکھنے کی یہ ہے کہ تمہارے ایمان و عمل کا حال کیا ہے اور پھر اس کے بعد ایمانیات اور اعمال کی ایک تفصیل دی گئی ہے اور اس سے مسلمانوں کو بھی توجہ دلائی جارہی ہے کہ دیکھنا تم بھی یہود کی طرح فروعی مسائل میں اپنا وقت ضائع مت کرنا اور ان کی طرح فروعی باتوں میں الجھ کر اصل دین سے دستبردار نہ ہوجانا۔ اپنے قومی مزاج کو اس طرح کا نہ بنالینا کہ بےدینی اور بدعملی کے اونٹ نگلتے ہوئے بھی تمہیں کبھی خیال نہ آئے۔ لیکن فوائد کے حصول کے لیے حقوق کے مچھر چھاننے پڑیں تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔ لیکن اسی کے ضمن میں یہود پر تعریض بھی کی کہ تمہیں دینداری کے بہت دعوے ہیں لیکن قبلہ کے بارے میں تمہارا طرز عمل کیا رہا ہے کہ تم نے بھی دنیا کی اصلاح کرنے کی بجائے دنیا کی گمراہ قوموں کی طرح مشرق ومغرب کو اپنا قبلہ بنالیا۔ یہ سراسر دنیا کی مشرک قوموں سے ان کے ربط وضبط کا نتیجہ تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ کہاں ان کے یہ دعوے کہ ہم اللہ کے دین کے وارث ہیں اور اس لحاظ سے ہمیں تمام دنیا پر فضیلت حاصل ہے اور کہاں ان کا یہ حال کہ وہ بھی دیگر گمراہ قوموں کی طرح سمت پرستی میں مبتلا ہوگئے۔ حضور کی بعثت سے پہلے بیشمار گمراہیوں میں سے ایک اہم گمراہی یہ سمت پرستی تھی اور مختلف جاہل قوموں نے یہ اعتقاد جمالیا تھا کہ فلاں مخصوص سمت مثلاً مشرق مقدس ہے اور فلاں متعین جہت مثلاً مغرب قابل پرستش ہے۔ قرآن کریم نے اسی جہت پرستی پر چوٹ لگائی کیونکہ اہل کتاب اس میں ملوث ہوچکے تھے اور ارشاد فرمایا کہ مشرق اور مغرب میں کوئی تقدیس نہیں اور اللہ سے وفاداری کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام نے اگرچہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا لیکن نماز کے لیے کوئی سمت بحیثیت سمت ہرگز متعین نہیں کی۔ اس نے صرف ایک متعین مکان یعنی خانہ کعبہ کو ایک مرکزی حیثیت دی ہے اور اسے قبلہ توجہ ٹھہرایا ہے خواہ وہ کسی سمت میں پڑجائے۔ چناچہ دیکھ لیجیے ! کہ بیت اللہ مصر وطرابلس وحبشہ سے مشرق میں پڑتا ہے۔ ہندوستان، افغانستان اور چین سے مغرب میں شام و فلسطین اور مدینہ سے جنوب میں اور یمن اور بحر قلزم کے جنوبی ساحلوں سے شمال میں اور بہت سے مقامات سے ان مختلف سمتوں کے مختلف گوشوں میں۔ المشرق ” سورج دیوتا “ دنیائے شرک کا معبودِ اعظم رہا ہے۔ مشرک قوموں نے اس کی پرستش بڑی کثرت سے کی ہے اور یہ چونکہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے اس لیے عموماً جاہل قوموں نے مشرق کو بھی مقدس سمجھ لیا ہے اور عبادت کے لیے مشرق کی طرف رخ پھیرلیا۔ یہودونصاریٰ نے بھی انہی مشرک قوموں کی طرح بیت المقدس کے مشرق ومغرب کو اپنے درمیان تقسیم کرلیا اور بیت المقدس کے باہر مشرق ومغرب کی جہت ہی ان کے لیے قبلہ بن گئی۔ اس مشرکانہ ذہنیت کی تردید کے بعد فرمایا کہ اللہ سے وفاداری اور Commitment یہ نہیں ہے کہ تم سمت پرستی کا ارتکاب کرو اور مشرق ومغرب کے نام سے ہنگامے کھڑے کرو بلکہ اس کی وفاداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل و دماغ کے قبلے درست کرو۔ ولکن البر کے بعد مضاف محذوف ہے اصل عبارت اس طرح ہوگی ولکن البر برمن امن ” لیکن وفاداری اس شخص کی وفاداری ہے جو ایمان لائے “۔ پھر ایمانیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے کیونکہ اصل مقصود توسیرت و کردار کی تعمیر ہے اور سیرت و کردار کی عمارت وجود میں نہیں آتی تاوقتیکہ اس کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم نہ ہو اور وہ مضبوط بنیاد دل و دماغ میں ان تصورات کے راسخ کرنے سے اٹھائی جاتی ہے جنھیں ایمانیات کہا جاتا ہے کیونکہ جب تک آدمی میں ان بنیادی تصورات کا استحضار نہیں ہوتا اس وقت تک اس کے اعمال کے لیے کوئی محرک وجود میں نہیں آتا جو قوت ارادی کے لیے تحریک پیدا کرسکے اور خیر و شر میں تمیز پیدا کرسکے اور پھر اس کے نتیجے میں اعمال ظہور پذیر ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کو عقائد کا نام دیا جاتا ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا ؎ دین ہو فلسفہ ہو فقر ہو سلطانی ہو ہوتے ہیں یہ پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر حرف اس قوم کا بےسوز عمل خوار و زبوں ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر اس آیت کریمہ میں اللہ سے وفاداری اور حقیقی تعلق کے لیے جن ایمانیات کو ذکر کیا گیا ہے ہم اس کو نہایت اختصار کے ساتھ ایک ترتیب سے عرض کرتے ہیں۔ 1 اللہ پر ایمان : یعنی اللہ کے ایک ہونے اور اس کے ذات وصفات اور حقوق میں ہر طرح کے شرک یا شائبہ شرک سے بھی پاک ہونے پر ایمان اور اس بات پر ایمان کہ اس کی اطاعت سب پر غالب اور اس کا دیا ہواضابطہ حیات سب سے بالا اور سب کے لیے لازم ہے۔ 2 آخرت پر ایمان : یعنی اس بات کا یقین کہ مرنے کے بعد جی کر اٹھنا ہے ‘ اپنے ہر قول وفعل کی اللہ کے سامنے جواب دہی کرنی ہے اور آخرت ہی کی کامیابی اصل کامیابی ہے۔ دنیا دارالعمل اور مہلت عمل ہے اور آخرت دارالجزا اور تا ابد قرار گاہ ہے۔ 3 فرشتوں پر ایمان : یعنی فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں۔ وہ اپنی ایک ہستی رکھتے ہیں اللہ نے ان کو معصوم اور قدسی صفت بنایا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے ہدایت لانے والے امین اور معتمد ہیں۔ قضاء وقدر کے فیصلوں کی تنفیذ انھیں کے واسطے سے ہوتی ہے۔ یہ اللہ اور پیغمبروں کے درمیان وحی لانے کے لیے واسطہ ہیں۔ اگر ان کے معصوم ہونے کا یقین نہ ہو تو وحی کے محفوظ ہونے کا تصور بےمعنی ہوجاتا ہے۔ ان کے سردار جبریل امین ہیں جو تمام فرشتوں کے مطاع ہیں۔ اللہ کے یہاں ان کا بڑا مقام و مرتبہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر وحی لے کر اترتے رہے۔ امین ان کا مستقل خطاب ہے کیونکہ وہ حقِ امانت میں نہ خیانت کرتے ہیں نہ خطا۔ انھیں قرآن کریم نے قوت والاقرار دیا ہے کوئی دوسری قوت ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ کوئی شیطانی قوت ان کے کام میں دخل انداز نہیں ہوسکتی۔ 4 انبیاء و رسل پر ایمان : وہ چونکہ ایک ہی سرچشمہ علم و ہدایت کے فیض یافتہ ہوتے ہیں اس لیے ان میں تفریق نہیں کی جاسکتی کہ کسی ایک کو ماناجائے اور کسی ایک کا انکار کردیاجائے۔ اللہ کی طرف سے مامور ہونے اور اس کے نمائندہ ہونے کی وجہ سے تمام انبیاء یکساں احترام کے مستحق ہیں اور سب پر ایمان لانا کہ وہ اپنے اپنے وقتوں میں اللہ کے پیغمبر بن کر آئے تھے اور انھوں نے نوع انسانی کو ہدایت کا راستہ دکھایا تھا یہ ہمارے لیے ازبس ضروری ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انبیاء اور رسولوں کی تعلیم اور ہدایت مرورزمانہ کے ساتھ تحریف و ترمیم کا شکار ہوتی رہی اور قوموں نے اسے طاق نسیاں کی نذر کردیا۔ اسی وجہ سے باربار اللہ کی طرف سے نبی اور رسول آتے رہے اور ان پر کتابیں اترتی رہیں، حتی کہ آخری رسول کی بعثت کا فیصلہ اس وقت ہوا جب تمام دنیا اللہ کے نبیوں کی لائی ہوئی تعلیم سے یا تو بےبہرہ ہوچکی تھی اور یا اس میں ترمیم اور تحریف کے ذریعے اسے کچھ سے کچھ بنادیا گیا تھا۔ اب ضروت تھی کہ ایک ایسا آفتابِ ہدایت طلوع ہو جو انسانوں پرچھائی ہوئی گمراہیوں اور ظلمتوں کی تاریکی کو ہدایت کے نور سے بدل دے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ اس شان سے آفتابِ ہدایت بن کر تشریف لائے کہ علم و ہدایت کے تمام دعوے ان کے سامنے سرنگوں ہوگئے۔ سابقہ شریعتیں ماند پڑگئیں، جس طرح تاریکیوں نے اپنی صف لپیٹی اسی طرح چھوٹی موٹی رہنمائی کی شمعیں بھی گل ہوتی چلی گئیں۔ ؎ صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے حب دنیا میں بےاعتدالی بہت سی خرابیوں کا باعث ہے ایمانیات کی تکمیل سے دل و دماغ کو توانا اور فکری قوتوں کو جلادینے کے بعد ضروری تھا کہ انسانی زندگی کے اس رشتے کی طرف توجہ دی جاتی جس کے بگڑ جانے سے انسانی معاملات، انسانی تعلقات اور روئے زمین کا امن تباہ ہوجاتا ہے۔ نظری اور فکری ہدایت انسانی زندگی کے لیے صحیح سمت مقرر کردیتی ہے۔ لیکن انسانی ضروریات کی الجھنیں اور انسانی تعلقات کی بےاعتدالی وہ نہ صرف انسانی تعلقات کو بگاڑتی ہے بلکہ نظریاتی سچائی کو بھی گہنا کر رکھ دیتی ہے۔ چناچہ وَاٰتَی الْمَالَسے اسی ضرورت کو پورا فرمایا جارہا ہے۔ دل و دماغ کی یکسوئی کے لیے اللہ اس کا رسول اور اس کے دین سے گہری وابستگی اور محبت یقیناپہلی ضرورت ہے۔ لیکن اس محبت کو جو چیز سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے اور جس میں اعتدال نہ ہونے کی وجہ سے تمام رشتوں میں بےاعتدالی پیدا ہوجاتی ہے وہ حبِّ دنیا ہے۔ جب آدمی مال و دولت سے اس طرح پیار کرے کہ مال و دولت اس کے لیے زندگی کی سب سے بڑی متاع بن جائے اور وہ تمام تعلقات اور رشتوں کو اس پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائے تو پھر باقی تمام رشتے اس کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں۔ کوئی بھی سمجھدار اور شائستہ آدمی کبھی اس الزام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تاکہ میں مال و دولت سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مال کے لیے ایمان چھوڑ دینا، دیانت چھوڑ دینا، رحم و مروت کے جذبات سے دستبردار ہوجانا اور اگر تصادم ہوجائے تو مال و دولت یا اس سے متعلقہ اشیاء کے حصول کے لیے خون بہادینا، جان لے لینا اور کچھ نہیں تو ہر طرح کا دجل و فریب کرگزرنا یہ تو ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے۔ مساجد تک اس سے محفوظ نہیں۔ خانقاہیں جو ذکر اللہ کا مرکز ہونی چاہئیں وہاں بھی یہی کاروبار ہوتا ہے۔ خون کے رشتے دنیا کی محبت پر قربان کردیئے جاتے ہیں۔ چند مرلے زمین، چندلاکھ روپیہ، چنددنوں کی شہرت، چند دنوں کا منصب، یہ ہوس کی مختلف صورتیں ہیں۔ جس پر ہم اپنے عزیز ترین رشتے قربان کردیتے ہیں۔ چھوٹے لوگ اگر اس کے لیے اپنی سطح کے مطابق دجل و فریب اور لڑائی دنگا کر گزرتے ہیں تو بڑے لوگ ملکوں اور قوموں کی قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ملک وقوم کو بھی بیچناپڑے تو دریغ نہیں کرتے۔ یہاں اللہ سے وفاداری کے تقاضوں کو پورا کرنے اور تمام حقوق کی ادائیگی کے لیے جس طرح ایمانیات پر زور دیا جاتا ہے، اسی طرح خالق فطرت نے مال سے تعلق کو بھی اس راستے پر ڈالنے کی تعلیم دی ہے جو راستہ اختیار کرکے بندگی اور انسانیت کے رشتے باقی رہتے ہیں اور اگر یہ راستہ اختیار نہ کیا جائے تو پھر کچھ بھی نہیں بچتا۔ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ رئوف اور رحیم ہے اور جن کے لیے مسلمانوں کی کوئی تکلیف بھی قابل برداشت نہیں جو اپنے دل میں اس امت کے لیے والدین سے بڑھ کر شفقت رکھتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی پریشانی کا حقیقی سبب قرآن وسنت کا مطالعہ کر جائیے آپ کہیں نہیں دیکھیں گے کہ جن باتوں سے ماں باپ پریشان ہوتے ہیں حضور کبھی ان باتوں پر پریشان ہوئے ہوں۔ بیٹے کی مالی حالت اگر اچھی نہیں یا وہ برسر روزگار نہیں تو ماں باپ کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی۔ لیکن حضور نے اپنی امت کے لیے اس حوالے سے کبھی پریشانی کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ پریشانی کا اظہار فرمایا تو اس سے برعکس باتوں پر۔ آپ نے فرمایا : مَاالفَقْرُ اَخشٰی عَلَیْکُم وَلٰکِنِّی اَخشٰی اَنْ تُبْسَطَ عَلَیکُمُ الدُّنْیَا کَمَابُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبلَکُم فَتَنَافَسُوھَا کَمَاتَنَافَسُوھَافَتُھْلِکُکُم کَمَا اَھْلَکَتْھُمْ (میں تم پر غربت سے نہیں لڑتا لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا وسیع کردی جائے جیسے پہلے لوگوں پر وسیع کی گئی پھر تم ایک دوسرے سے دنیا طلبی میں آگے نکلنے کی کوشش میں لگ جاؤ جیسے پہلے لوگ اسی تنافس اور دوڑ میں لگے رہے یہ صورتحال تمہیں اسی طرح تباہ کردے گی جیسے پہلے لوگوں کو تباہ کیا۔ ) اندازہ کیجیے ! آنحضرت ﷺ ہماری غربت سے پریشان نہیں بلکہ مال و دولت کی فراوانی سے پریشان ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مال و دولت کی فراوانی اپنی ذات میں پریشان کرنے والی چیز نہیں یہ اس وقت پریشان کن ثابت ہوتی ہے جب آدمی اس کی محبت کا اسیر ہو کر اسے اپنا مقصد زندگی بنالیتا ہے۔ اسے ضرورت کے وقت اور ضرورت کے مطابق نہیں کماتا بلکہ اپنی دولت میں اضافہ کرتے رہنا اس کی دھن بن جاتی ہے۔ وہ اس بات سے پریشان نہیں ہوتا کہ میرے پاس کیا نھیں جسے میں حاصل کرلوں بلکہ اس کی پریشانی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس کیا کیا ہے تاکہ اس سے بہتر میں اپنے لیے حاصل کروں اور پھر وہ ایسی جوع البقر میں مبتلا ہوتا ہے کہ جسے کسی سطح پر جاکر بھی سیری کا احساس نہیں ہوتا بلکہ جیسے جیسے دولت بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے اس کی ہوس بھی بڑھتی جاتی ہے۔ چناچہ دنیا کے مسائل اور مصائب کو دیکھا جائے تو اس کا سبب بھوک یاوسائل کی کمی نہیں بلکہ اس کا حقیقی سبب ہر دنیا دار کی ہوس ہے۔ اسے اپنی ہوس کے مطابق دنیا چاہیے اور ہوس اس کی اتنی وسیع ہے کہ تمام وسائل ِ رزق پر قابض ہو کر بھی شائد اسے سکون نہ ملے۔ اس لیے وہ اسلامی زندگی جو ادائے حقوق اور ایفائے حقوق سے عبارت ہے اور جس کے نتیجے میں اللہ سے وفاداری کا حق ادا ہوتا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ آدمی مال کی ہوس سے نکلے، وہ اسے کمائے ضرور، اس سے اپنی ضروریات بھی پوری کرے اور اپنے کاروبار کو جتنا بڑھاسکتا ہے بڑھائے لیکن اصل فکر صرف یہ ہو کہ میں دولت دولت کے لیے نہیں کمارہا بلکہ اس لیے کما رہا ہوں تاکہ میں اس میں اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرسکوں۔ اسے میں خیر کا ذریعہ اور خیر کی قوت بنائوں کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دولت ایک بہت بڑی قوت ہے اور اپنی ذات میں یہ خیر کے سوا کچھ نہیں۔ اسی لیے قرآن کریم نے اسے الخیر کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ بلکہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کے کہنے کے مطابق مال ودولتِ دنیا پانی کی مانند ہے اور انسانی زندگی ایک کشتی کی مانند ہے۔ کشتی کا بوجھ اٹھانے والی اور اسے کہیں سے کہیں لے جانے والی چیز پانی ہے۔ یہی اس کشتی کی اصل قوت ہے اس کے بغیر کشتی اپنی جگہ سے سرک بھی نہیں سکتی۔ لیکن یہ قوت اس وقت تک ہے جب تک یہ کشتی کے نیچے ہے۔ اگر کہیں یہ کشتی کے اندر داخل ہوجائے تو پھر کشتی کی تباہی و ہلاکت میں کوئی دیر نہیں ہوتی۔ یہ پانی کشتی کے نیچے اس وقت تک رہتا ہے جب تک دولت آدمی کے ہاتھ کی چھڑی ہو یا جیب کی گھڑی رہے لیکن اگر یہ دل کا محبوب بن جائے تو پھر سمجھ لیجیے کہ اب اس کشتی کے ڈوبنے میں کوئی دیر نہیں کیونکہ دل کا محبوب بن جانے کے بعد پھر آدمی اسی کی پوجا کرتا ہے اس سے حقوق ادا نہیں کرتا۔ لوگ اس کے سامنے تڑپ کرمرجائیں ‘ انسانیت پر قیامت گزر جائے ‘ اللہ کا دین یتیم ہوجائے ‘ ایک دولتمند آدمی پر اس کا کچھ اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے قرآن کریم نے انسان کی دکھتی رگ کو پکڑا اور بتایا کہ اللہ سے وفاداری کا حق ادا کرنے والے وہ لوگ ہیں جو مال سے محبت کے باوجود اسے اللہ کی راہ میں ہراس جگہ خرچ کرتے ہیں جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ لیکن مال خرچ کرنے اور مال دینے کے حوالے سے علیٰ حبہ کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے کہ وہ مال دیتے ہیں اس کی محبت میں۔ علیٰ حبہکا مفہوم سوال یہ ہے کہ حبہ کی ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ یعنی وہ کس کی محبت میں مال خرچ کرتے ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس کا مرجع اللہ کی ذات گرامی ہے، لیکن بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ اس کا مرجع خود مال ہے۔ لیکن عاجز کا ناقص گمان یہ ہے کہ دونوں ہی اس کا مرجع ہیں۔ مال اس کا مرجع ہے مال کی صفت کے اعتبار سے اور اللہ کی ذات اس کا مرجع ہے منتہا و مقصود کے اعتبار سے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بر یعنی اللہ سے وفاداری کے مقام کو وہ لوگ پہنچ سکتے ہیں جو اللہ کی راہ میں ایسا مال خرچ کریں جو نہایت قیمتی بھی ہو اور انھیں عزیز بھی ہو اور اس کا ہاتھ سے دینا آسان نہ ہو۔ چناچہ ایک جگہ قرآن کریم نے واضح طور پر اسے بیان فرمایا : ارشاد فرمایا : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط (تم ہرگز البر کو نہیں پاسکو گے جب تک تم وہ خرچ نہ کرو جسے تم خود پسند کرتے ہو) یا پھر آدمی ایسی چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے جس کا وہ خود انتہائی ضروت مند ہو۔ وہ مالی پریشانیوں یاقحط اور گرانی کی وجہ سے خرچ کرنے کی ہمت نہ پارہا ہو اس کی آمدنی میں گھر کی ضرورتیں بھی بمشکل پوری ہورہی ہوں۔ چناچہ قرآن کریم نے اس کا بھی ذکر فرمایا : ارشاد فرمایا : وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃً (اور وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ بھوک سے ہوں) حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ مہمان آئے آپ نے اپنے سب گھروں میں ایک ایک کرکے کہلابھیجا کہ کچھ کھانے کو ہو تو مہمانوں کے لیے بھیجو۔ لیکن تمام ازواجِ مطہرات کی طرف سے جواب ملا کہ گھر میں اللہ کے نام کے سوا کچھ نہیں۔ غالباً حضرت طلحہٰ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے انھوں نے عرض کیا حضور اجازت دیں تو میں ان مہمانوں کی میزبانی کروں۔ آپ نے اجازت دے دی۔ وہ اپنے ساتھ مہمانوں کو لے گئے۔ بیوی کو جاکربتایا کہ میرے ساتھ مہمان آئے ہیں۔ انھوں نے کہا گھر میں سوائے بچوں کے کھانے کے کچھ نہیں ہے۔ حضرت طلحہٰ نے کہا کہ بچوں کو کسی طرح بہلا پھسلا کر سلادو اور جب میں مہمانوں کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھوں تو کسی بہانے دیا بجھادینا۔ چناچہ مہمانوں نے تاریکی میں کھاناکھایا اور انھیں اندازہ نہ ہوسکا کہ طلحہٰ ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں یانھیں وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ ان کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔ چناچہ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو ایثار کا مستقل درس دے گئی کہ اللہ کے راستے میں انفاق اس طرح بھی ہوتا ہے کہ خودبھوکے رہو اور دوسروں کو کھاناکھلائو۔ آنحضرت ﷺ نے مختلف مواقع پر اسی کی تائید میں ارشادات فرمائے۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ سب سے افضل صدقہ کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک بےمایہ شخص اپنی محنت کی کمائی میں سے ایک ایسے عزیز پر خرچ کرے جو اس کے خلاف اپنے دل میں عداوت رکھتاہو۔ ان باتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے کس طرح کے ایثار اور کس طرح کے جذبات کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات یاد رکھنا ازبس ضروی ہے کہ بڑے سے بڑا ایثار اور بڑی سے بڑی نیکی اس وقت تک اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہوتی جب تک اس نیکی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول نہ ہو اور جب تک اللہ کی محبت دنیا کی محبت پر غالب نہ آئے۔ ایسے احساسات کے ساتھ اللہ کی راہ میں جب خرچ کیا جائے تو اس کے مصارف کی ایک ترتیب ہے جسے یہاں ذکر فرمایا گیا ہے کہ سب سے پہلے اپنے قرابت داروں کا جائزہ لو۔ ان میں سے اگر کوئی شخص ضرورتمند اور تمہاری مدد کا محتاج ہے تو تمہیں دوسروں کی نسبت سب سے پہلے اس کی مدد کرنا چاہیے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے ضروی ہے کہ وہ اپنا مال قرابتداروں پر خرچ کرے۔ قرابتداروں پر خرچ کرنا قرابتدار چاہے ددھیالی رشتے کے ہوں یا ننھیالی رشتے کے، چاہے قریب کے ہوں چاہے دور کے، چاہے وہ اس سے مخلصانہ تعلق رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، قرابت دار ہونے کی وجہ سے ان کا حق سب پر فائق ہے۔ اس بات پر اگر تھوڑا ساغور کرلیاجائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کس طرح نہایت سادہ لیکن نہایت موثر طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک ملک میں رہنے والوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا اور حصول معاش کے لیے مواقع اور ذرائع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے اسلامی مملکتیں رفاہی مملکتیں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ حکومت کی تمام مخلصانہ مساعی کے باوجود سو فیصد یہ ذمہ داری ادا نہیں ہوتی۔ اس لیے اسلام نے تمام خوشحال لوگوں کو اس میں شریک کردیا کیونکہ غربت کے علاج کے لیے جہاں یہ بات بہت ضروی ہے کہ حکومت اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے وہیں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ مسلمانوں میں ایک دوسرے کی ضرورتوں کا گہرا احساس پیداہو کوئی مسلمان اپنے آپ کو بےبس اور بےکس محسوس نہ کرے۔ ہر مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق دوسرے کی فکر کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے اور پھر یہ ذمہ داری درجہ بدرجہ تمام معاشرے تک پھیلادی گئی ہے۔ ہر آدمی کو اپنے قرابتداروں کے حوالے سے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، ہمسائے کو محلے بھر کی ہمسائیگی کا احساس دلایا گیا ہے اور پھر جیسے جیسے تعلقات کی نوعیتیں بدلتی ہیں ویسے ویسے اس ذمہ داری کی نوعیت بھی بدلتی ہے۔ لیکن آغاز اس کا سب سے پہلے قرابت داروں سے کیا گیا ہے۔ اندازہ فرمائیے ! جس معاشرے کا ہر خوشحال فرد دوسروں کی ضرورتوں کی وجہ سے پریشان رہنے لگے اس معاشرے میں بھوک کیسے باقی رہ سکتی ہے۔ بھوک تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ وسائل پر جو تمام کی ضروریات کے لیے کافی ہیں چند لوگ قابض ہوجاتے ہیں۔ اگر اس قبضے کا راستہ روک دیا جائے اور ہر ایک کے دل میں دوسرے کی فکر پیدا کردی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بھوک اور غربت کا علاج نہ ہو۔ علامہ اسد جو نومسلم جرمن اخبار نویس تھے وہ اپنی کتاب Road to Mecca میں لکھتے ہیں : (میں جن دنوں اسلام کو سمجھنے کے لیے عرب ملکوں کی سیاحت کررہا تھا تو میں نے ایک دن ٹرین میں دیکھا کہ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے اپنے اپنے ٹفن کھولے یا کینٹین سے کھانامنگوایا تو میں نے ایک عرب کو دیکھا جس نے اپنے تھیلے سے ایک روٹی نکالی اور اس کے دو حصے کیے ایک حصہ خود رکھ لیا اور دوسرا سامنے بیٹھے ہوئے عرب بھائی کی طرف بڑھادیا۔ اس نے اگرچہ لینے سے انکار کیا لیکن اس کے اصرار پرلے لیا دونوں نے ایک روٹی سے پیٹ بھرلیا۔ علامہ لکھتے ہیں کہ مجھے تب اندازہ ہوا کہ خیرالقرون میں مسلمانوں کی آسودگی کا اصل سبب یہی تھا کہ وہ نہایت سیر چشم تھے سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور ہر آدمی دوسرے کے لیے فکر مند رہتا تھا۔ جس کے پاس ایک بھی روٹی تھی وہ دوسروں کے ساتھ بانٹ کر کھاتا تھا۔ ) یتیموں مسکینوں کی دیکھ بھال یہاں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ سب سے پہلے قرابت داروں کو دیکھا جائے اور اس کے بعد مسلمان معاشرے میں سب سے پہلے ان بچوں پر نظر پڑنی چاہیے جو سایہ ٔ پدری سے محروم ہوچکے ہیں، جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی قریبی عزیز بھی باقی نہیں۔ اب یہ اسلامی معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ یتیموں کی دیکھ بھال کا انتظام کرے۔ یتیم وہ نادار بچہ ہے جس کے باپ کا سایہ بلوغ سے پہلے اس کے سر سے اٹھ گیا۔ اب جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوتا یعنی وہ بالغ نہیں ہوتا اس وقت تک اسلامی معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی ضروریات اور اس کی تعلیم کا بندوبست کرے اور اگر وہ بالغ ہونے کے بعد بھی اپنی ضروریات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوا تو ایسے شخص کو مسکین کہا جاتا ہے۔ تو یہ مسکین بھی اسلامی معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ مسافر کی مدد بعض دفعہ ایک کھاتا پیتا خوشحال آدمی بھی دورانِ سفر کسی حادثے کا شکار ہو کر ضرورتمند بن جاتا ہے تو ایسے مسافر کی مدد کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس شخص کے مالی حالات کیسے ہیں ؟ اگر سفر نے اسے محتاج کردیا ہے تو اس کی ہر صورت میں مدد ہونی چاہیے۔ اگر وہ اپنی ذات میں محتاج اور نادار ہوتا تو مسکینوں میں شامل ہوتا۔ اس کا الگ ذکر کرنے کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کھوج کرید کرنے کی ضروت نہیں بلکہ سفر میں وہ جس مصیبت سے دوچار ہے اس میں اس کی مدد کرنا ازبس ضروری ہے۔ السآئلین اس کے بعد والسآئلین، سوال کرنے والے بھی مال دئیے جانے کے مستحق ہیں۔ یہاں بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے ان کا ذکر بھی چونکہ الگ سے کیا گیا ہے اس لیے ان کے بارے میں بھی تحقیق کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔ جس نے بھی سوال کے لیے ہاتھ پھیلادیا ہے اس نے گویا عزت نفس کو دوائو پر لگا دیا ہے۔ اس لیے اب اس کی مدد کرنا ضروری ہوگیا۔ لیکن یہ بات بھولنا نہیں چاہیے کہ جب یہ آیات نازل ہورہی تھیں اس وقت مسلمان کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا بڑے شرم کی بات سمجھتے تھے۔ عربوں میں خودداری ہمیشہ سے رہی ہے اور اسلام نے انھیں توحید کا درس دے کر ہر ایک سے بےنیاز کردیا تھا۔ اس لیے ایسے لوگوں میں سے اگر کوئی شخص سوال کر ہی بیٹھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہائی ضرورت مند ہے۔ لیکن آج کے دور میں جبکہ بھیک مانگنا ایک پیشہ بن گیا ہے اور بڑے بڑے گینگ مختلف طریقوں سے یہ دھندا کرتے ہیں اور بعض تو ایسے گروپ بھی بن چکے ہیں جو دوسروں ملکوں میں اسی غرض کے لیے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہر ایک کو دے دینا شائد مناسب نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ گرانی اور وسائل ِ معاش کی کمیابی نے سفید پوشوں کو بھی بعض دفعہ سوال کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ معاملہ بڑی احتیاط کا طالب ہے۔ زیاہ تجسس کرنا تو ہرگز مناسب نہیں لیکن کسی نہ کسی حد تک دیکھ بھال کرلینا اور صحیح حاجت مند کو پہچانے کی کوشش کرنا یہ بھی ضروری ہے۔ وَفِی الرِّقَاب وَفِی الرِّقَاب : اسی سلسلے کا یہ آخری مصرف ہے۔ رقاب، رقبہ کی جمع ہے ” گردن “ کو کہتے ہیں۔ رقاب سے پہلے مضاف محذوف ہے۔ فک الرقاب کا معنی ہے ” گردنوں کا آزاد کرانا “۔ گردنوں سے غلاموں کی گردنیں مراد ہیں۔ اللہ سے وفاداری کا حق ادا کرنے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے جن بڑے بڑے اعمال کا ذکر فرمایا گیا ہے ان میں غلاموں کی آزادی کے لیے کوشش کرنا شامل فرمایا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں ایک غلام کو طوق غلامی سے آزاد کرانا اور اسے آزاد انسانوں کی سطح پر لاکر اپنے شعور اور ارادے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینا اللہ کے یہاں کس قدر محبوب عمل ہے اور اسی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غلامی اسلام کے نظام کا کوئی حصہ نہیں بلکہ اس کے اہداف سے سراسر متصادم ہے۔ حضرت ربعی ابن عامر جب مسلمانوں کے نمائندہ بن کر ایرانی سپہ سالا رستم سے ملے اس نے آپ سے پوچھا کہ تم لوگ کس غرض سے ایران پر حملہ آور ہوئے ہو آخر تمہاری اس فوج کشی کا مقصود کیا ہے ؟ تو آپ نے اس سے تین باتیں ارشاد فرمائی تھیں۔ جن میں سب سے پہلی بات یہ تھی کہ ہم اس لیے اپنے وطن سے نکلے ہیں تاکہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلائیں انسان نے مختلف شکلوں میں انسان کو غلام بنا رکھا ہے۔ کہیں دولت کے زور پر، کہیں حکومت کے زور پر اور کہیں طاقت کے زور پر، اسلام ایسی ہر زنجیر کاٹ دینا چاہتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دین جو انسان کی بیڑیاں کاٹنے کے لیے آیا ہے اس کے حریم میں طوق غلامی کا تصور کیسے داخل ہوسکتا ہے ؟ یہ تو اس وقت کے بین الاقوامی قانونِ جنگ کی مجبوری تھی جس نے مسلمان کو مجبور کیا کہ وہ وقتی طور پر غلامی کو گوارا کرلیں۔ لیکن اسلام نے اسے جس طرح ختم کیا اور جس طرح غلاموں کو گھروں میں جگہ دے کر اسلام کی نشرواشاعت اور غلاموں کی تربیت کے مواقع پیدا کیے وہ مسلمانوں کی تاریخ کے ایسے واقعات ہیں جس پر مسلمان ہمیشہ فخر کرسکتے ہیں۔ اس نے نہ تو رومیوں کی تاریخ دہرائی، نہ اس نے ایرانیوں کے ظلم کا راستہ کھلنے دیا، نہ اس نے جدید دور کے مسولینی اور ہٹلر کا طرز فکر اپنایا اور نہ اس نے یورپ اور امریکہ کے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا اس نے انسانی سطح پر انسانی احساسات کو اجاگر کیا۔ انسانی محرومیوں کا مداویٰ کیا اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کو عبادت کا درجہ دے دیا گیا۔ چناچہ مسلمان حکمرانوں سے لے کر عام مسلمانوں تک اس نیکی کے اثرات دیکھنے میں آئے، ایک محدود وقت میں غلامی کے اثرات محدود سے محدودتر ہوگئے اور تربیت کے عمل نے انھیں غلاموں میں سے جوہرِ قابل کو نمایاں کیا اور ان میں ایسے افراد تیار ہوئے جنھیں ہم محدثین، مفسرین، متکلمین اور مجاہدین کی قابل عزت صفوں میں نمایاں مقام کے حامل دیکھتے ہیں اور یہ بھی تاریخِ انسانی کا ایک عجیب واقعہ رہے گا کہ انھیں ـغلاموں میں حکمران اٹھے جنھوں نے آزادوں پر حکومت کی اور ان کی قربانیوں نے تاتاریوں جیسے وحشیوں کا راستہ روکا، ٹھیک کہا کسی نے ؎ غلاموں کو سریر سلطنت پر جس نے بٹھلایا غلاموں کے سروں پر کردیا اقبال کا سایہ ایک ہندو شاعر کہتا ہے ؎ کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درِ یتیم اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کردیا یہ اسلام کا اعجاز اور مسلمانوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج غلامی قانوناً ختم ہوچکی ہے لیکن ظالم انسانوں اور خدا بیزار تہذیب نے غلامی کی نئی شکلیں ایجاد کرلی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اب انسان منڈیوں میں نہیں بکتے ‘ لیکن آج قوموں کی معاشی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر انھیں معاشی قرضوں کی زنجیروں میں اس طرح جکڑ ا جاتا ہے کہ وہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ سرمایہ دار ملکوں کا غلام ہوتا ہے۔ یہ تو وہ غلامی ہے جو بین الاقوامی سطح پر ہورہی ہے اور جہاں تک ہر ملک کے اندر پلنے والی غلامی کا تعلق ہے اسے آپ ہر ترقی پذیر پسماندہ ملک میں دیکھ سکتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو سودی قرضوں کے باعث جیلوں میں بند ہیں، کتنے ایسے ہاری اور مضارع ہیں جو اپنے جاگیردار یا زمیندار سے لیے ہوئے قرضوں کے باعث اپنی اولاد تک کو گروی رکھ دیتے ہیں اور کتنے ایسے لوگ ہیں جو محض اپنی سادگی کے باعث قانون کی زد میں آگئے اور اب وہ برسوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور اگر کہیں ضمانت ہوجاتی ہے تو زرِ ضمانت ادا نہ کرسکنے کے باعث جیل کی خاک بن جاتے ہیں۔ یہ غلامی کی مختلف شکلیں ہیں نام ان کے کچھ بھی ہوں لیکن حقیقت ایک ہی ہے ایسے تمام مظلوموں، بےکسوں اور مجبور لوگوں کو ظلم کے ان شکنجوں سے آزادی دلانا انشاء اللہ تعالیٰ فک رقبۃ کی نیکی کا حصہ ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو بڑ چڑھ کر اس میں حصہ لینا چاہیے۔ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ : اسلام کا مزاج ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن باتوں کو دل و دماغ میں اتارنا چاہتا ہے اور جن صفات کو مزاج اور کردار کا حصہ بنانا چاہتا ہے اس کے لیے حکم بھی دیتا ہے، ترغیب بھی دیتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اس کی باربار یاددہانی کا انتظام بھی کرتا ہے۔ اسلامی سیرت کا دارومدار ایمانیات کی پختگی پر ہے۔ جب تک اللہ سے حقیقی تعلق پیدا نہیں ہوتا، اللہ کا خوف دل میں راسخ نہیں ہوجاتا، اللہ کی ذات وصفات کا استحضار نصیب نہیں ہوتا اور اللہ سے قلبی وابستگی پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک انسانی فکر اور انسانی اعمال میں کبھی تطہیر نہیں ہوسکتی۔ قلب ونگاہ کی پاکیزگی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی کو یقین ہوجا تا ہے کہ کوئی ذات ہے جو علیم بذات الصدور ہے کوئی ہے جو میرے احساسات کو جاننے والا ہے کوئی ہے جو میرے ہر عمل کو پرکھنے والا ہے۔ اسی طرح مال و دولت کے حوالے سے ایک مال دار اس وقت تک اعتدال پیدا نہیں کرسکتا جب تک وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میں اپنے پاس موجود مال و دولت کا مالک نہیں امین ہوں۔ جو اس کا مالک ہے وہ ایک دن مجھ سے اس کا حساب مانگے گا کہ تم نے میری دی ہوئی امانت کو خرچ کیا تھا یانھیں اور اگر کیا تھا تو کیا انھیں مصارف میں خرچ کیا تھا جن کا میں نے حکم دیا تھا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قلب ونگاہ کی پاکیزگی اور علائق دینوی کی شائستگی اور بالیدگی کا دارومدار ان تصورات کے رسوخ پر ہے جن کا اس سے پہلے ذکر ہوچکا ہے اس لیے پروردگار نے اس بات کا اہتمام فرمایا کہ ان بنیادی تصورات کو اس طرح باربار یاد دلایا جائے کہ آخر وہ سیرت و کردار کا حصہ بن جائیں یا سیرت و کردار اس کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوں۔ اس لیے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا۔ کیونکہ دن میں پانچ وقت نماز کی ادائیگی اس قدر موثر نسخہ ہے کہ اگر نماز پڑھنے والا شعور سے نماز پڑھے اور اس کی طبیعت اثرپذیری کے احساس سے محروم نہ ہوچکی ہو تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ نماز کے ذریعے ایمانیات کو دل و دماغ میں نفوذ پیدا کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ کیونکہ نماز اصلاً ایمان کی عظیم حقیقت کا مظہر ہے۔ نمازی جب نماز کی نیت کرتا ہے تو وہ اللہ کی الوہیت، اس کی کبریائی اور اپنی بندگی اور عاجزی کے تصور کو زندہ کرتا ہے۔ جب وہ ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہتا ہے تو دنیا کی ساری بڑائیاں اس کے قدموں میں سرنگوں ہوجاتی ہیں۔ صرف ایک بڑائی اور عظمت اللہ کی ہے جس کا وہ اقرار کرتا ہے اور اس کے سامنے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اسی کی ثنا کرتا ہے ‘ اس سے پناہ چاہتا ہے ‘ اسی کے گن گا تا ہے ‘ اسی کی حمد کے زمزمے الاپتا ہے ‘ اسی کی بندگی کا اقرار کرتا ہے ‘ اسی سے مدد کا طالب ہوتا ہے پھر اسی سے ہدایت مانگتا ہے ‘ اپنی ہر آزادی سے دستبردار ہو کر اسی کی بندگی اور اطاعت کا عہد کرتا ہے اور ان تصورات کو عملی شکل دیتے ہوئے وہ کبھی جھکتا ہے ‘ کبھی اٹھتا ہے ‘ کبھی سجدہ ریز ہوتا ہے ‘ کبھی دوزانو بیٹھتا ہے ‘ دل اللہ کے خوف سے لرزتا ہے ‘ آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ‘ دن میں پانچ دفعہ وہ امید وبیم کی کشمکش سے گزرتا ہے۔ اس طرح کے بار بار عمل سے اس کی زندگی کے تمام اعمال ایک نہج اختیار کرلیتے ہیں اس کا ذہن ایک منزل کا تعین کرلیتا ہے۔ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ دولت دنیا سے اعتدال سے بڑھا ہوا تعلق بہت سارے مفاسد کا سبب بنتا ہے۔ انفاق کا حکم دے کر ذہنی تصورات کو درست کرنا اور انسانی معاملات کو مفاسد سے بچانا مقصود ہے۔ چناچہ انفاق کے بنیادی تصور کو سیرت و کردار کا حصہ بنانے اور اس تصور کی یاددہانی کے لیے زکوٰۃ کو قانونی حیثیت دی گئی اور اسے انفاق کا قانونی مظہر بنادیا گیا۔ سال کے بعد جب اپنے پورے مال کا جائزہ لے کر آدمی زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور یہ سمجھ کر ادا کرتا ہے کہ اس کا ادا کرنا میرے لیے فرض ہے تو اسے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ اگر یہ مال بندوں کی ملکیت ہوتا تو اس میں سے ایک حصہ ادا کرنا فرض نہ ہوتا اور اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں تازہ ہوجاتی ہے کہ مال میں قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں اور دوسرے ضرورت مندوں کا بھی حصہ ہے۔ تم مال دار ہو کر بھی غریب اور مسکین مسلمانوں سے الگ حیثیت کے مالک نہیں ہو، تمہاری ایک انسانی برادری ہے جس کے تم فرد ہو اور تمہارے ایک دوسرے کے حوالے سے حقوق و فرائض ہیں۔ انھیں حقوق و فرائض سے عہدہ برآ ہونا اسلامی زندگی ہے اسی اسلامی زندگی کی یاددہانی نماز سے بھی کرائی جاتی ہے اور زکوٰۃ سے بھی۔ اور زکوٰۃ کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ضرورت مندوں کے حوالے سے جو ذمہ داریاں مالداروں پر عائد ہوتی ہیں وہ صرف زکوٰۃ ادا کرنے سے ادا نہیں ہوجاتیں اور جس انفاق کا ابھی ذکر کیا گیا ہے وہ صرف زکوٰۃ تک محدود نہیں بلکہ جس بر وتقویٰ کے حاصل کرنے کی یہاں بات ہورہی ہے اس کے حصول کے لیے ادائے زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اس طرح فیاضانہ خرچ کرنا بھی ضروری ہے کہ جس میں اخفا بھی ہو اور ضرورت کے مطابق اظہار بھی۔ اس کے بعد وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ سے ایفائے عہد کی صفت کا ذکر کیا جارہا ہے۔ لیکن اسلوبِ کلام بدل گیا ہے اوپرانفاق، نماز اور زکوٰۃ کا ذکر فعل کی شکل میں آیا ہے لیکن یہ اسم فاعل اور صفت کی صورت میں ہے۔ عربی میں فعل کے صیغے صرف کسی فعل کے وقوع کو ظاہر کرتے ہیں لیکن صفت کے صیغے کسی مستقل صفت کسی خصلت اور کسی کردار کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کے اندر ایک عزم وجزم کی روح بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ سے بروتقویٰ کا تعلق رکھنے والے اہل ایمان ایسے نہیں کہ ایفائے عہد ان کے لیے کسی وقت وقوع پذیر ہونے والا کوئی واقعہ ہو بلکہ جس طرح سورج سے روشنی، آگ سے تپش، موتی سے آب اور دریا سے بہائو الگ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اہل ایمان کے لیے ایفائے عہد ایک خصلت اور ایک کردار ہے جو ان سے منفک نہیں ہوسکتا۔ یہ ان کی پہچان اور شناخت ہے جو ان سے الگ نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد صبر و استقلال کو الصابرین کے لفظ سے ذکر فرمایا اور اس میں لفظی طور پر دو نزاکتیں رکھیں۔ ایک تو یہ کہ الصابرین بھی الموفون کی طرح صفت کی صورت میں ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ صبر و استقلال بھی ایفائے عہد کی طرح ان کی لازمی خصلت ہے اور دوسری یہ بات کہ الصابرین کو بغیر کسی ظاہری سبب کے حالت نصب میں لایا گیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے اہل نحو کی اصطلاح میں علی سبیل المدح یاعلی سبیل الاختصاص سے تعبیر کرتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہ اہل ایمان جو بروتقویٰ کے راستے کے مسافر ہیں ان میں بطور خاص دیکھو گے کہ صبر و استقلال اور استقامت ان کا ایک ایسانمایاں جوہر ہے جو زندگی کے کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی ان سے جدا نہیں ہوتا۔ چاہے وہ حالت فقر وفاقہ کی ہو، یا جسمانی عوارض سے پیش آنے والی تکالیف کی اور چاہے وہ حالت جنگ کی شدت اور ہولناکی کی ہو تم کبھی ان کے عزم کو شکست ہوتا، کبھی ان کے حوصلوں کو پست ہوتا نہیں دیکھو گے۔ الموفون اور الصابرین کی وضاحت میں آپ نے دو باتیں محسوس کی ہوں گی۔ ایک تو یہ بات کہ اسلام کی نگاہ میں عقائد اور عبادات کی بڑی اہم حیثیت ہے۔ لیکن ان کا ذکر سیدھے سادے فعل کے صیغوں سے کیا گیا ہے۔ لیکن ایفائے عہد اور صبر کے لیے بالکل اسلوب بدل دیا گیا ہے اور اسے صفت کے صیغوں کے ساتھ بڑے اہتمام اور اختصاص کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں کا تعلق سیرت و کردار سے ہے اور سیرت و کردار کا معاملہ بڑ امحنت طلب، جان مارنے والا، نہایت ریاضت اور تربیت کا محتاج اور عزم وجزم کا طالب ہوتا ہے کیونکہ کسی بڑی سے بڑی صداقت کا اقرار اور دل و دماغ سے اس کی تصدیق اگرچہ ایک مشکل کام ہے لیکن اتنا مشکل نہیں جتنا اس کے مطابق ایک مزاج تیار کرنا مشکل ہے۔ مزاج تیار ہونے کے بعد سیرت و کردار کو ایک شکل ملتی ہے۔ اس کے لیے بنیاد یقینا عقائد اور عبادات ہیں ‘ لیکن اس پر اٹھنے والی عمارت یقینا نہایت اہتمام کی متقاضی ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے نیک لوگ نمازوں کے پابند لیکن معاملات کے کھوٹے نکلتے ہیں۔ ایفائے عہد میں نہایت کمزور ثابت ہوتے ہیں اور اگر کبھی معاملہ استقات کا طالب ہو اور حوصلہ مندی کا امتحان شروع ہوجائے تو سب نیکیاں دھری رہ جاتی ہیں۔ اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ زبانی جمع خرچ اور عادۃً نماز پڑھ لینے کو کافی سمجھ لیا گیا ہے، لیکن اس پر کردار کی جو عمارت تعمیر ہونا چاہیے تھی اس کی طرف دھیان نہیں دیا گیا۔ دوسری بات جو آپ کو اس میں محسوس ہوگی وہ یہ ہے کہ سیرت و کردار کے حوالے سے صرف دوہی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایفائے عہد اور صبر۔ حالانکہ اور بھی بہت سی چیزیں سیرت و کردار سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایفائے عہد وہ خوبی ہے جو باقی تمام اسلامی اور ایمانی خوبیوں کو ایک لڑی میں پر وکررکھتی ہے۔ معاملہ حقوق اللہ کا ہو یا حقوق العباد کا، معاہدات چاہے اللہ سے ہوں یا بندوں سے، اور بندوں کی وسیع برادری میں چاہے امیر سے ہوں یا غریب سے، اپنوں سے ہوں یا بیگانوں سے ان کی حیثیت معاشرتی ہو ‘ معاشی ہو ‘ یاسیاسی ‘ ان سب چیزوں کا تعلق عہدوپیمان سے ہے اور ان تمام عہدوپیمان اور حقوق و فرائض کا ادا کرنا بر اور تقویٰ کا تقاضا ہے۔ اس لحاظ سے غور فرمائیے ! ایفائے عہد کی ایک صفت پیدا ہوجانے سے اللہ تعالیٰ اور بندوں کو تمام حقوق کی ادائیگی کی ضمانت مل جاتی ہے اور یہی البر کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ کے حقوق ہوں یا مخلوقِ خدا کے ‘ ان کی ادائیگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔ ان کے راستے میں ہزاروں رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان حقوق کا ادا کرنا دینی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا، ملک وملت کی ضرورتوں کو پورا کرنا نہایت صبر آزماکام ہے۔ کبھی اسلامی زندگی کے راستے میں فقروفاقہ کے مراحل آتے ہیں کبھی جسمانی عوارض راستہ روک لیتے ہیں۔ کبھی جنگی حالات پوری قومی زندگی کو تلپٹ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ایسی تمام حالتوں میں موقف حق پر قائم رہنا اور بروتقویٰ کے تقاضوں کو نقصان نہ پہنچنے دینا اور بہرصورت اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا صبر ہے۔ اللہ کی اطاعت پر جم جانا بھی صبر ہے۔ معصیت کے تمام راستوں کو بند کرنے کی کوشش کرنا یا اپنے آپ کو اس سے دور رکھنے کے لیے اڑجانا یہ بھی صبر ہے۔ آپ اندازہ فرمائیے ! اگر آدمی میں ایفائے عہد کا کردار جنم لے لیتا ہے اور صبر کی قوت پیدا ہوجاتی ہے تو پھر اس کے لیے بر وتقویٰ کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر پہنچنے میں کیا دشواری ہوسکتی ہے ؟ اس لیے آخر میں فرمایا : اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ” یہی لوگ ہیں جو اپنے دعویٰ وفاداری میں سچے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو حقیقت میں متقی ہیں “۔ اس طرح پروردگار نے ایک سراپا تشکیل فرماکر اس کے خدوخال ہمارے سامنے واضح فرمادئیے۔ جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ البر اور تقویٰ کوئی مبہم اصطلاح یا کسی موہوم آورش کا نام نہیں بلکہ وہ ایک سیرت و کردار کا نام ہے جس کے حامل کی یہاں تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جو امت مسلمہ کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ وہ اس سے تقابل کرکے اپنی اصل شکل پہچاننے کی کوشش کریں۔ وہ اپنی قریبی تاریخ کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں کہ انھوں ایفائے عہد کے حوالے سے کیسی تاریخ رقم کی ہے ؟ پاکستان بناتے ہوئے جو اللہ سے عہد کیا گیا تھا ہم نے اس کا کس طرح ایک ایک بند توڑا ہے۔ قبائلی علاقوں سے ہمارے قائد نے جو وعدے کیے اور جو انھیں تحفظات دیئے تھے ہم نے کس طرح ان پر خط تنسیخ کھینچا ہے۔ ہم نے اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ کیا کیا وعدے کیے ہمارے وعدوں پر اعتبار کرکے جو لوگ اپنی آرام دہ زندگی اور اپنے وطن مالوف کو چھوڑ کر کفن بردوش ہمارے پاس آئے تھے ہم نے انھیں وعدوں پر اعتبار کرنے کی کیا سزا دی ؟ اور پھر جب ہم پر سخت وقت آیا اور بڑی قوتوں نے ہمیں دھمکایا تو ہم نے جس طرح بےصبری کی تاریخ رقم کی اور جس طرح اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہایا اور اسلام اور مسلمان دشمنوں کو جس طرح اپنی زمین اور اپنا کندھا پیش کیا ان میں سے ہر واقعہ ایک سلگتا ہوا زخم ہے جو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کب چنگاری بن کر لودینے لگے اور ہمیں اس کے نتیجے میں کیسی فصل کاٹنی پڑے۔ اندیشے دراز ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ آمین۔ وہ معاشرہ جس کی بنیادیں بروتقویٰ پر اٹھائی جاتی ہیں اور جس کی تصویر ہم نے اس آیت کریمہ میں دیکھی ہے، اسے معاشرتی اور سماجی سطح پر سب سے زیادہ نقصان دو باتوں سے پہنچتا ہے۔ ایک یہ کہ اس معاشرے میں حرمت جاں کا تصور کمزور ہونے لگے اور دوسرا یہ کہ وہ معاشرہ حب مال میں مبتلا ہو کر باہمی حقوق کو نظر انداز کردے۔ چناچہ اگلی آیات کریمہ میں انھیں دونوں باتوں کے حوالے سے مسلمانون کو ہدایات دی جارہی ہیں۔
Top