Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ : نہیں الْبِرَّ : نیکی اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ قِبَلَ : طرف الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور دن الْاٰخِرِ : آخرت وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب وَالنَّبِيّٖنَ : اور نبی (جمع) وَاٰتَى : اور دے الْمَالَ : مال عَلٰي حُبِّهٖ : اس کی محبت پر ذَوِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکین (جمع) وَابْنَ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَالسَّآئِلِيْنَ : اور سوال کرنے والے وَفِي الرِّقَابِ : اور گردنوں میں وَاَقَامَ : اور قائم کرے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَى : اور ادا کرے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالْمُوْفُوْنَ : اور پورا کرنے والے بِعَهْدِهِمْ : اپنے وعدے اِذَا : جب عٰھَدُوْا : وہ وعدہ کریں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے فِي : میں الْبَاْسَآءِ : سختی وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَحِيْنَ : اور وقت الْبَاْسِ : جنگ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ صَدَقُوْا : انہوں نے سچ کہا وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کو مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی تو اس شخص کی ہے۔ جو ایمان لایا اللہ پر اور قیامت کے دن پر اللہ کے فرشتوں پر اور سب کتابوں پر اللہ تعالیٰ کے سب نبیوں پر اور دیا اس نے مال اس کی محبت پر قرابت دا روں کو یتیموں کو ، مسکینوں کو اور مسافروں کو اور محتاجوں کو اردگرد کے چھڑانے میں اور اس نے نماز قائم کی اور زکواۃ ادا کرتا رہا اور اپنے وعدوں کا پورا کرنے الے ہیں جب کہ عہد کرتے ہیں اور سختی اور تکلیف میں صبر کرنے والے ہیں اور طلائی کے وقت بھی یہی لوگ سچے ہیں اور یہی اگر متقی ہے ۔
گندزشتہ سے پیوستہ بنی اسرائیل کی خرابیاں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا تھا اور ساتھ خانہ کعبہ کی تعمیر کا بیان تھا اور اس کو قبلہ مقرر کئے جانے کی وجہ بیان فرمائی تھی۔ اس پر اہل کتاب کے اعتراض کا بھی ذکر ہوا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی کے اہم ترین اصول بیان فرمائے جن پر ہر شخص کا کار بند ہونا ضروری ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ، لشکر ، صبر اور تعظیم شعائر اللہ شامل ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے توحید کا ذکر فرمایا ، اور مشرکین کا رد فرمایا ، حلال و حرام کا قانون بیان فرمایا پہلے پوری نسل انسانی کو تلقین فرمائی ، اس کے بعد اہل ایمان کو خصوصی طور پر حلال و حرام کے قوانین اور محرمات کی تفصیل بیانفرمائی اور پھر اللہ جل جلالہ نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ اہل کتاب نے تحویل قبلہ کی سخت مخالفت کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے بیت اللہ شریف کی طرف رخ کرنے کا کیوں حکم دیا۔ یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے بتلا دیں۔ استقبال فکر فروعی مسئلہ ہے اہل کتاب نے تحویل قبلہ کے خلاف سخت پراپیگنڈا کیا۔ وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا ہی اصل نیکی ہے اور اگر اس طرح رخ نہ کیا جائے تو کوئی نیکی اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگی۔ ان کے مطابق جب مسلمانوں نے قبلہ تبدیل کرلیا تو ان کی ساری نیکیاں ضائع ہوگئیں اہل کتاب نے قبلہ کو اس قدر اہمیت دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اہل کتاب کے اس زعم کی تردید فرمائی ہے اور واضح کیا ہے کہ استقبال قبلہ کوئی بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ایک فروعی مسئلہ ہے ۔ جسے اہل کتاب ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا تھا ، ادھر کرتے رہے اور جب اس نے پسند فرمایا تو رخ بیت اللہ شریف کی طرف ہوگیا۔ اس میں ایسی اچنبھے کی کون سی بات ہے۔ نیکی کیا ہے اس آیت پاک میں اسی چیز کو واضح کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لیس البر ان تولوا وجوھھم قبل المشرق و المغرب نیکی صرف یہ نہیں کہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلیا جائے۔ ولکن البرمن امن بلکہ اصل نیکی اسی کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر قیامت پر فرشتوں پر ، کتابوں پر اور نبیوں پر اور آگے نیکی کی دوسری باتیں بھی بیان کی ہیں۔ مفسر قرآن امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ یہ آیت قرآن پاک کی جامع ترین آیت ہے کیونکہ اس ایک آیت میں کئی ایک مسائل آگئے ہیں۔ دینی مسائل کا زیادہ تر تعلق اصلاح عقیدہ ، اخلاق یا تہذیب نفس سے ہے اور یہ سارے مسائل اس آیت میں موجود ہیں۔ گویا آیت تمام دینی مسائل کا خلاصہ ہے۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ ایمانیات کا ہے۔ جب تک عقیدہ درست نہیں ہوگا ، کوئی عمل مقبول نہیں۔ یہود نصاریٰ اور عرب کے مشرکین صحیح اعتقاد سے محروم ہیں ان کا عقیدہ مشرکانہ ہونے کا بناء پر باطل ہے۔ لہٰذا یہ سب نیکی سے یکسر محروم ہیں ، مگر قبلہ کے مسئلہ پر جھگڑا کرتے ہیں۔ ایمان باللہ تو فرمانی کی یہ ہے کہ من امن باللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی ذات اور اس کی صفات پر ایمان لانا نیکی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان ضروری ہے اسی طرح اس کی صفات کو ماننا بھی لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار بھی اسی طرح کفر ہے جس طرح اس کی ذات کا انکار دہریت ہے۔ مثلاً مقدر کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ لہٰذا تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہوا۔ اس کے بغیر انسان مومن نہیں ہو سکتا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر اللہ تعالیٰ کی راہ میں سونا خرچ کرتا ہے۔ مگر تقدیر پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی اتنی بڑی خیرات بھی مقبول نہیں۔ ایمان بالاآخرت ایمان ابلہ کے بعد فرمایا ، نیکی اس شخص کی ہے جو ایمان لایا والیوم الاخر آخرت کے دن پر قیامت کے دن پر ایمان لانا جزو ایمان ہے۔ اس کے بغیر انسان دہریہ یا کافر ہوگا۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ ایمان بالآخرت میں وہ تمام چیزیں آجاتی ہیں ، جن کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ یا جنہیں حضور نبی کریم رئوف الرحیم ﷺ نے بیان فرمایا ہے۔ موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنا ، حساب کتاب کا منعقد ہونا ، نیکی بدی کا امتیاز ، پل صراط سے گزرنا ، دوزخ ، جنت وغیرہ یہ سب چیزیں ایمان بالآخرت میں داخل ہیں۔ لہٰذا نیکی اس شخص کی ہے جو ان سب چیزوں پر ایمان لایا۔ ایمان بالملائکہ ایمان بالملائکہ یعنی فرشتوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ والملٓئکۃ یہ اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق ہے ، جسے اللہ جل شانہ ، نے زمین میں آسمان اور اس کائنات کی تخلیق سے لاکھوں سے سال پہلے پیدا فرمایا اور یہ بھی نوع انسانی کی مصلحت کی خاصر اہتمام فرمایا۔ فرشتوں کی آگے دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم ملاء اعلیٰ والے فرشتوں کی ہے ، جو خطیرۃ القدس میں ہیں اور دوسرے ملاء سافل والے ہیں ، جو ملاء اعلیٰ والوں کے معاون ہیں یہ تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کا حکم بجالانے پر مستعد رہتے ہیں اور کائنات تک فیضان پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں چناچہ ایمان بالملائکہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ایمان بالکتاب ایمان کے چوتھے جزو کے طور پر فرمایا والکتب یعنی کتاب پر ایمان لانا بھی مکمل ایمان کا ایک حصہ ہے۔ یہاں کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی کتابیں ناز لفرمائی ہیں ، سب پر ایمان لانا ضروری ہے ” امنت بصآء انزل اللہ من کتب “ یعنی اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے جو کتاب بھی اتاری ہے۔ اس پر میرا ایمان ہے کہ وہ برحق ہے اور پھر کتب سماویہ کے سلسلہ کی آخری کتاب قرآن حکیم پر تفصیلی ایمان لانا ضروری ہے۔ پہلی کتابوں پر صرف ایمان لانا ضروری ہے ، ان پر عمل کرنا ضروری نہیں کیونکہ ان میں سے بعض احکام منسوخ ہوچکے ۔ البتہ آخری کتاب قرآن پاک پر ایمان بھی ضروری اور اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے احکام قیامت تک کے لئے نافذ العمل ہیں۔ والنبین اور اللہ تعالیٰ کے سب نبیوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ ایمان بالانبیاء دیگر اجزائے ایمان کی طرح انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان لانا بھی ضروری ہے حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور خاتم النبین ﷺ تک جتنے بھی رسول اور نبی مبعوث ہوئے ہیں ، سب پر ایمان لانا ضروری ہے اس لحاظ سے ” لانفرق بین احدمن رسلہ “ ہم کسی رسول میں فرق نہیں کرتے۔ الغرض ایمان کی تمام جزیات کا زبان سے اقرار کرنا اور دل سے تصدیق کرنا لازم ہے۔ ان میں سے کسی چیز کا انکار یا کسی چیز میں شک کرنا گمراہی کے مترادف ہے۔ اس کے بعد نیکی کے باقی اجزاء کا بیان ہے ، جن کا تعلق تہذیب نفس سے ہے یا مال کے ساتھ ہے یا انسان کے بدن سے ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ فرمایا کے لحاظ سے نیکی یہ ہے کہ واتی المال علی حبہ کوئی شخص مال کے ساتھ محبت ہونے کے باوجود اسے خرچ رکے۔ انسان کی مال کے ساتھ محبت ایک فطری امر ہے۔ دوسرے مقام پر خود قرآن پاک نے بیان کیا ” انہ لحب الخیر لشدید “ انسان مال کی محبت میں سخت ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اگر مال صرف کرتا ہے۔ تو یہ نیکی کا کام ہے۔ اس سے انسانی ہمدردی اور اجتماعیت کا سبق ملتا ہے علی حبہ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی بناء پر اس کی رضا کے لئے مال خرچ کرتا ہے۔ تو یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مال کو کس جگہ خرچ کرنا ہے۔ تو فرمایا ذوی القربی اپنے قربات داروں پر خرچ کرتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی یہ اولین مد ہے اپنے عزیزوں پر خرچ کرنے پر دوہراً اجر ملتا ہے۔ ایک اجر صلہ رحمی کا حاصل ہوتا ہے اور دوسرا صدقہ کا قربات اور اگر چہ دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ مستحق ہے تو اس پر خرچ کرنا باعث اجر وثواب ہے خرچ کی دوسری مد کے متعلق فرمایا والیتمی والمسکین یتیموں اور مسکینوں کی حاجت براری بھی نیکی ہے نابالغ کی حالت میں مود اور باپ فوت ہوگیا ہے۔ کمانے الا کوئی نما رہا۔ یتیم ہوگیا ہے اس کے سرپرستی ضروری ہے۔ اس پر مال خرچ کرنا چاہئے اور مسکین وہ ہے ۔ جو محنت مزدوری کرتا ہے ۔ مگر کوشش کے باوجود اس کی بنیاد ضروریات پوری نہیں ہوتی ، وہ بھی مستحق ہے ایسے شخص کی اما امانت یقینا نیکی کا کام ہے۔ فرمایا رابن السبیل اور وہ مسافر بھی امداد کے مستحق ہیں جو دوران سفر محتاج ہ جائیں ، زاد راہ ختم ہوگیا ہے ، یا چوری ہوگئی ہے یا کسی تکلیف میں مبتلا ہوگیا ہے۔ تو ایسے شخص پر خرچ کرنا بھی نیکی ہے۔ خرچ کرنے والا ثواب کا مستحق ہوگا۔ فرمایا والسآئلین محتاج بھی اعانت کے مستحق ہیں۔ ان پر مال خرچ کرنا بھی نیکی کا کام ہے ۔ سائل کے لفظی معنی مانگنے والے کے ہیں۔ مگر مراد محتاج ہیں۔ کیونکہ سوال برائے سوال درست نہیں ہے۔ جب تک کہ سائل واقعی مستحق نہ ہو۔ بلا ضرورت سوال کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور پیشہ ورانہ گداگری کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ شرعی سائل وہ ہے جو لحاظ سے محتاج ہو اور اس کے لئے سوال کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار باقی رہے ایسے شخص کو سوال کرنا جائز ہوگا اور اس سوال کو پورا کرنا نیکی کا کام ہوگا۔ انفاق کی ایک اور مدو فی الرقاب یعنی گردنوں کا آزاد کرنا ہے اس کا عمومی مفہوم غلاموں کی آزادی ہے۔ غلام خرید کر آزاد کردیا جائے یا کسی مکاتب کار زرمکاتبت ادا کر کے اسے آزادی دلائی جائے۔ اس کی ایک اور صورت یہ بھی ہے کہ کسی مقرو ض کا قرض معاف کرکے یا اس کا قرض ادا کر کے اس کی گردن چھڑائی جائے۔ اس آیت پاک کے مطابق ایسا کرنا بھی نیکی ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔ فرمانی کی …د صرف مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلینا ہی نہیں چاہئے بلکہ اصل نیکی ایمان اور اور انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ نماز و زکواۃ پھر فرمایا کہ نیکی اس شخص کی ہے جس نے و امام الصلوۃ والی الزکوۃ نذ نماز قائم کی اور زکواۃ ادا کی۔ نماز کے ذرائع کے فیصلے انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست ہوتا ہے اور اس کی وجہ خطیرۃ القدس کی طرف ہوجاتی ہے۔ گویا فوز و فلاح کا اہم ترین ذریعہ نماز ہے جو کہ بدنی عبادت ہے اور بہت بڑی نیکی کی بات ہے۔ زکواۃ مالی عبادت ہے اور یہ فرائض میں شامل ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ ان فی المال حقا سوی الزکوۃ یعنی مال میں زکواۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔ صرف زکواۃ کے ادا کردینے سے مال کا مکمل حق ادا نہیں ہوجاتا ، یہ تو فرض ہے اور صاحب نصاب ہر سال ادا کرتا ہے جب کوئی شخص نصاب کو نہیں پنچ پاتا تو زکواۃ فرض نہیں رہتی۔ البتہ سال کے دیگر حقوق باقی رہتے ہیں جیسے فرمایا۔ وفی امرالھم خود للسآئل والحروم یعنی اس میں سائل محتاج کا بھی حق ہے۔ اس میں اہل و عیال اور قرابت داروں کا حق باقی رہتے ہیں جیسے فرمایا ۔ وفی امرالم حق للسآئل والمحروم “ یعنی اس میں سائل اور محتاج کا بھی حق ہے۔ اس میں اہل و عیال اور قرابت داروں کا حق ہے۔ ولدین کا حق ہے اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکواۃ کو اکٹھا بیان فرمایا ہے۔ ایک بدنی عبادت ہے اور دوسری مالی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتیس 32 میں اقیموالصلوۃ والزالزکواۃ کا اکٹھا ذکر فرمایا ہے۔ یہ اتنے اہم فرائض ہیں ۔ جن کے ذریعے ایک طرف اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے اور دوسری طرف مخلوق خدا کے ساتھ روابط بڑھتے ہیں۔ لہٰذا ان دونوں امور کو نیکی میں شامل فرمایا کہ نیکی اس شخص کی ہے جو نماز پڑھتا ہے اور زکواۃ ادا کرتا ہے۔ ایفائے عہد نیکی کی ایک اور قسم ہے والموفون بعھدھم اذا عھدوا یعنی نیکی ان لوگوں کی ہے کہ جب وہ وعدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ ایفائے عہد حسن اخلاق اور حسن معاشرت کا ایک بنیادی اصول ہے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ” ارفوا بالعقود “ اپنے عہد کو پورا کیا کرو۔ نیز ترہیب کے انداز میں فرمایا او قراء بالعہد لوگو ! اپنے وعدہ کا پاس کیا کرو۔ ” ان العھد کان مسئولاً “ قیامت ک دن اس کی باز پرس ہوگی۔ وعدہ خواہ اللہ تعالیٰ سے ہو یا اس کی مخلوق سے ، اس کی وفا لازم ہے۔ جب کوئی شخص کلمہ طیبہ پڑھتا ہے لا الہ الا اللہ تو اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرتا ہے کہ تیرے احکام کی تکمیل کروں گا۔ مگر پھر جب اس وعدے کو پورا نہیں کرتا تو اس میں نفاق کی علامت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح کسی مخلوق سے وعدہ خلافی بھی نفاق کی علامت ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نیکی ان لوگوں کی ہے جو اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ صبر کی عظمت اس کے بعد فرمایا نیکی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں والصبرین فی الباسآء والضرآء جو سختی اور تکلیف میں صبر کرتے ہیں۔ باسآء اس تکلیف کو کہتے ہیں جو انسان پر باہر سے وارد ہو۔ مثلاً کوئی مالی یا جانی نقصان ہوجائے ، زلزلہ یا طوفان آجائے اور ضرا وہ تکلیف ہے جو انسانی جسم کے اندر پیدا ہو ، جیسے بیمار ہوگیا پھوڑانکلا جسم کے کسی حصے میں درد ہونے لگا ، وغیرہ وغیرہ۔ الغرض فرمایا کہ نیکی ان لوگوں کی ہے جو اندرونی یا بیرونی پر پریشانی میں مبتلا ہو کر صبر کرتے ہیں رحین الباس اور وہ لوگ بھی نیکی والے ہیں کہ میدان جہاد میں پہنچنے والی تکلیف و بخوشی برداشت کرتے ہیں حتی کہ اپنی جان تک کی بازی لگا دیتے ہیں مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے صبر کی یہ تین مختلف صورتیں یہاں بیان کی ہیں اور صبر ویسے بھی ہمارے دین کا بنیادی اصول ہے۔ پہلے گزر چکا ہے۔ استعینوا بالصبر والصلوۃ “ یعنی صبر اور نماز کے ساتھ امداد حاصل کرو۔ تو یہاں پر صبر کا بیان بھی آ گیا۔ سچے لوگ فرمایا جن لوگوں میں مذکورہ اوصاف پائے جائیں ، نیکی ان لوگوں کی ہے۔ اولئک الذین صدقوا یہی سچے لوگ ہیں۔ وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں۔ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں …د اور زکواۃ ادا کرتے ہیں ایفائے عہد ان کا شیوہ ہے اور صبر کا دامن نہیں چھوڑتے ۔ فرمایا اصل نیکی کے کام تو یہ ہیں ۔ مگر یہود و نصاری نے قبلہ کے مسئلہ کو جھگڑے کا سبب بنا رکھا ہے اصل نیکی کے کام کرنے والے ہی فائز المرام ہوں گے۔ ان کی نیکی کی وجہ سے ان کے بیگانے بھی اپنے بن جائیں۔ اور اگر ان کا عقیدہ درست نہیں ہے۔ مال کی محبت میں مبتلا ہیں۔ حلال و حرام کی تمیز سے عاری ہیں تو وہ سچے کیسے ہو سکتے ہیں۔ رشوت اور سود خوار کیسے سچا ہو سکتا ہے۔ وہ تو ذرائع آمدن میں حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا۔ قرابت داروں ، محتاجوں اور غریبوں کے حقوق ادا نہیں کرتا۔ وہ نیکی کے راستے پر گامزن نہیں ہے۔ متقی لوگ واولئک ھم المتقون اور یہی لوگ متقی ہیں جو کفر اور شرک سے پاک ہیں معاصی سے بچتے ہیں۔ سورة بقرہ کی ابتدائی آیات میں گزر چکا ہے کہ یہ کتاب ھدی للمتقین یعنی تقویٰ پکڑنے والوں کے لئے ہدایت ہے اور متعین وہی لوگ ہیں جو مذکورہ صفات کے حامل ہیں اور لمبے چوڑے دعوے کر کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا نہیں شروع کردیتے ہیں۔ جن لوگوں کا نہ اخلاق اچھا ہے اور نہ وہ تہذیب نفس کے حامل ہیں مال کی محبت میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں ان کا تعلق باللہ درست نہیں ہے حقوق و فرائض ادا نہیں کرتے وہ متقی کیسے بن سکتے ہیں۔
Top