Dure-Mansoor - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ : نہیں الْبِرَّ : نیکی اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ قِبَلَ : طرف الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور دن الْاٰخِرِ : آخرت وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب وَالنَّبِيّٖنَ : اور نبی (جمع) وَاٰتَى : اور دے الْمَالَ : مال عَلٰي حُبِّهٖ : اس کی محبت پر ذَوِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکین (جمع) وَابْنَ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَالسَّآئِلِيْنَ : اور سوال کرنے والے وَفِي الرِّقَابِ : اور گردنوں میں وَاَقَامَ : اور قائم کرے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَى : اور ادا کرے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالْمُوْفُوْنَ : اور پورا کرنے والے بِعَهْدِهِمْ : اپنے وعدے اِذَا : جب عٰھَدُوْا : وہ وعدہ کریں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے فِي : میں الْبَاْسَآءِ : سختی وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَحِيْنَ : اور وقت الْبَاْسِ : جنگ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ صَدَقُوْا : انہوں نے سچ کہا وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار
نیکی اس میں نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کو مشرق اور مغرب کی طرف پھیرلیا کرو۔ لیکن نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر، اور اپنا مال دے اس کی محبت ہوتے ہوئے قرابت والوں کو اور یتیموں کو، اور مسکینوں کو، اور مسافروں کو، اور سوال کرنے والوں کو، اور گردنوں کے چھڑانے میں، اور قائم کرے نماز کو اور ادا کرے زکوٰۃ کو، اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کو جب کہ وہ عہد کریں۔ اور صبر کرنے والے ہیں سختی میں اور تکلیف میں اور جنگ کے موقع پر، یہی لوگ ہیں جنہوں نے سچائی کی راہ کو اختیار کیا اور یہی لوگ متقی ہیں۔
اصول ایمان کا ذکر (1) ابن ابی حاتم نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے (یہ آیت) تلاوت فرمائی لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “ یہاں تک کہ اس (آیت) کی تلاوت سے فارغ ہوگئے پھر انہوں نے سوال کیا۔ پھر آپ نے اسی آیت کو تلاوت فرمایا اور فرمایا (کہ ایمان کی نشانی یہ بھی ہے) کہ جب تو کوئی نیک کام کرے تو اس کو تیرا دل پسند کرے اور جب تو کوئی برا کام کرے تو تیرا دل اس کو ناپسند کرے۔ (2) اسحاق بن راہو یہ نے اپنی سنن میں، عبد بن حمید اور ابن مردویہ نے قاسم بن عبد الرحمن (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی أبوذر ؓ کے پاس آیا اور کہا ایمان کیا ہے ؟ تو انہوں نے (یہ آیت) تلاوت فرمائی لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “ یہاں تک کہ اس کی تلاوت سے فارغ ہوگئے اس آدمی نے کہا کہ میں نے آپ سے نیکی کے بارے میں سوال کیا۔ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے ایسا ہی سوال کیا جیسے تو نے مجھ سے سوال کیا تو آپ نے اس پر اسی آیت کو تلاوت فرمایا وہ آدمی اسی پر راضی نہ ہوا جیسے تو راضی نہیں ہوا رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا قریب ہوجا وہ قریب ہوگیا پھر آپ نے فرمایا کہ مؤمن بندہ جب کوئی نیک کام کرتا ہے تو اس کو خوشی ہوتی ہے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اور جب کوئی برا کام کرتا ہے تو برائی اسے پریشان کرتی ہے اور وہ اس کی سزا سے ڈرتا ہے۔ (3) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ حسن بن علی ؓ سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا شام سے آتے وقت تو انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” لیس البر “ الخ (الآیہ) (4) عبد الرزاق، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ یہودی مغرب کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور انصاری مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “ (الآیہ) ۔ (5) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “ نماز کے متعلق ہے پھر فرمایا کہ یہ نیکی نہیں کہ تم نماز پڑھو اور تم کو علم نہ ہو اور یہ (اس وقت فرمایا) جب آپ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرما کر آگئے تھے اور فرائض اور حدود (کے احکام) نازل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرائض پر عمل کرنے کا حکم فرمایا۔ (6) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی نماز کے بارے میں (مطلب یہ ہے) کہ نماز پڑھنا ہی نیکی نہیں بلکہ نیکی وہ اللہ کی اطاعت ہے جو انسان کے دل میں ثابت ہوتی ہے۔ (7) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے یہ روایت کیا کہ لفظ آیت ” لیس البر۔۔ “ (الآیہ) کے بارے میں ہم کو ذکر کیا گیا کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے نیکی کے بارے میں سوال کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آپ نے اس آدمی کو بلایا اور اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس آدمی نے فرائض کو قبول کیا جب گواہی دی لفظ آیت ” ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ “ کا اقرار کیا پھر اسی حالت پر اس کی موت آئی تو اس کے لئے خیر کی امید کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب “ یہود مغرب کی طرف رخ کرتے تھے اور نصاری مشرق کی طرف (پھر فرمایا) لفظ آیت ” ولکن البر من امن باللہ “ (الآیہ) (لیکن نیکی یہ ہے کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ) ۔ (8) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ یہودی مغرب کی طرف اور نصاری مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے (اس پر) آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “۔ (9) ابو عبید نے فضائل میں اور ثعلبی نے ہارون کے طریق سے حضرت ابن مسعود اور ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا “ پڑھا۔ (10) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر نے ابو میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ جس نے اس آیت پر عمل کیا تو اس نے ایمان کو کامل کرلیا (یعنی یہ آیت) لفظ آیت ” لیس البر۔۔ “ (الآیہ) (11) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر “ (یعنی نیکی صرف مغرب اور مشرق کی طرف منہ کرنے میں نہیں بلکہ نیکی) اللہ تعالیٰ کی وہ اطاعت ہے جو دلوں میں ثابت ہوجائے۔ (12) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ ہماری قرأت میں لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا “ کی بجائے لفظ آیت ” ولا تحسبن ان البر “ ہے۔ وأما قولہ : ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر والملئکۃ والکتب والنبین : ترجمہ : لیکن نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر۔ (13) امام احمد، مسلم، أبو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم الآجری اشریقہ میں اور اللکائی نے السنۃ) میں ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی پیدال چلتے ہوئے آیا جس کے بال خوبصورت تھے اور کپڑے سفید تھے۔ صحابہ ؓ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ہم میں سے کوئی اس کو نہیں جانتا تھا کہ نہ وہ مسافر معلوم ہوتا تھا پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں آپ کے پاس آسکتا ہوں آپ نے فرمایا ہاں ! وہ آیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے لگا لئے اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھ لیا کہنے لگا اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ لفظ آیت ” لا الہ الا اللہ “ کی گواہی دینا اور اس بات کی گواہی دینا کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا (پھر) اس نے پوچھا ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب پر، نبیوں پر، جنت پر، دوزخ پر، موت کے بعد (پھر) اٹھنے پر اور اس کی ساری تقدیر پر ایمان لانا (پھر) اس نے کہا احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا (احسان یہ ہے) کہ تو اللہ کے لئے اس طرح پر عمل کرلے گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو بلاشبہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے (پھر) اس نے پوچھا قیامت کب ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اس بارے میں) جس سے پوچھا گیا وہ سوال کرنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں (پھر) اس نے پوچھا اس کی نشانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا جب ننگے بدن ننگے پاؤں والے اور بکریاں چرانے والے بڑی عمارتوں میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے اور باندیاں اپنی مالکوں کو جنیں گی (پھر وہ چلا گیا) آپ نے فرمایا اس شخص کو بلاؤ تلاش کے باوجود کچھ نظر نہ آیا پھر دو یا تین دن گزرے۔ تو فرمایا اے خطاب کے بیٹے ! کیا تو جانتا ہے یہ سائل کون تھا جو اس طرح اور اس طرح سوال کر رہا تھا میں نے عرض کیا اللہ اور اس کو رسول ہی خوب جانتے ہیں آپ نے فرمایا یہ جبرئیل (علیہ السلام) تھے تمہارے پاس (اس لئے) آئے تھے تاکہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں۔ (14) امام احمد، البزار نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ کے سامنے آپ کے گھٹنوں پر اپنے ہاتھ کو رکھ کر بیٹھ گئے (پھر) عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے جھکا دے اور یہ کہ تو گواہی دے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں (پھر) فرمایا اگر تو ایسا کرے گا تو مسلمان ہوجائے گا۔ انہوں نے (پھر) عرض کیا کہ ایمان کے بارے میں مجھے بتائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لے آئے اللہ پر آخرت کے دن پر فرشتوں پر، کتاب پر، نبیوں پر، موت پر اور موت کے بعد زندہ ہونے پر اور تو ایمان لے آئے جنت پر دوزخ پر حساب پر میزان پر اور ہر اچھی اور بری تقدیر پر۔ (پھر) فرمایا اگر تو ایسا کرے گا تو ایمان دار ہوجائے گا (پھر) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ؟ آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تو اللہ کے لئے ا طرح پر عمل کرے گویا تو اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو بالشبہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) کے ایمان کے بارے میں سوالات (15) امام البزار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ایک آدمی جس کے لباس پر سفر کا کوئی اثر نہیں تھا لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے آگے بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھوں کو رسول اللہ ﷺ کے گھٹنوں پر رکھ دیا اور عرض کیا یا محمد ﷺ اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا لفظ آیت ” لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ وان محمد عبدہ ورسولہ “ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، بیت اللہ کا حج کرنا اگر طاقت ہو۔ (پھر) اس نے عرض کیا اگر میں ایسا کرلوں تو میں مؤمن ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا اس نے پوچھا اے محمد ﷺ احسان کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر تو اس بات سے اللہ تعالیٰ سے ڈرے گویا کہ اس کو دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو بلاشبہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔ عرض کیا اگر میں ایسا کروں تو پھر میں محسن ہوجاؤں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا (پھر) عرض کیا اے محمد ﷺ قیامت کب ہوگی ؟ آپ نے فرمایا جس سے پوچھا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (اس کے بعد) اس آدمی نے پیٹھ پھیری اور چلا گیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس آدمی کو میرے پاس بلاؤ اس کے پیچھے جاؤ اور اس کو تلاش کرو صحابہ نے اس کو تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے تمہارے پاس تمہیں دین سکھانے آئے تھے۔ (16) ابن مردویہ، ابوہریرہ اور ابوذر ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ایسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے جس میں آپ گوٹ مار کر بیٹھے تھے اچانک ایک آدمی آیا جو انتہائی خوبصورت تھا اس کی خوشبو لوگوں میں سب سے زیادہ عمدہ تھی اور لوگوں میں سب سے زیادہ صاف کپڑوں والا تھا، اس نے پوچھا اے محمد ﷺ اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو (صرف) اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے نماز قائم کرے زکوٰۃ ادا کرے بیت اللہ کا حج کرے رمضان کے روزے رکھے عرض کیا گر میں یہ (سارے کام) کو لوں تو میں مسلمان ہوجاؤں گا آپ نے فرمایا ہاں اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا پھر اس نے عرض کیا یا محمد ﷺ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ؟ آپ نے فرمایا ایمان لانا اللہ پر اس کے فرشتوں پر کتاب پر نبیوں پر اور اس کی ساری تقدیر پر اس نے کہا اگر میں یہ سارے کام کرلوں تو مؤمن ہوجاؤں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اس نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا۔ (17) امام احمد اور نسائی نے معاویہ ابن حیدہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کس چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ بھیجا ہے۔ میں نے عرض کیا اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” لا الہ الا اللہ وان محمد عبدہ ورسولہ “ کی گواہی دینا نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” واتی المال علی حبہ “۔ (18) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتی المال “ یعنی مال عطا کرنا ” علی حبہ “ یعنی مال کی محبت پر (مطلب یہ ہے کہ مال کی محبت ہوتے ہوئے بھی مال کو خرچ کرے) صحت و تندرستی کے زمانہ میں صدقہ کی فضیلت (19) ابن المبارک نے الدیلمی میں وکیع، سفیان بن عینیہ، عبد الرزاق الفریابی، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، طبرانی، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتی المال علی حبہ “ سے مراد ہے کہ وہ مال عطا کرے اس حال میں کہ وہ تندرست ہے اور اس مال کو حریص بھی ہو اس سے زندگی کی امید رکھتا ہو اور تنگدستی سے ڈرتا بھی ہو۔ حاتم نے ابن مسعود ؓ سے مرفوعا اسی طرح روایت کیا۔ (20) امام بیہقی نے شعب الایمان میں مطلب (رح) سے روایت کیا ہے کہ کہا گیا یا رسول اللہ لفظ آیت ” واتی المال علی حبہ “ کا کیا مطلب ہے ؟ ہم سب مال سے محبت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو اپنے مال کو وقت تک دے اور تیرا نفس (اس وقت) تجھ سے لمبی عمر کا اور تنگدستی کا خوف یاد دلا رہا ہو۔ (21) امام احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن حبان نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افضل صدقہ یہ ہے کہ تو صدقہ کو اس حال میں کہ تو تندرست ہو (دینار میں ابھی) باقی رہنے کی امید رکھتا ہو فقر کا خوف ہو اور تنگدستی سے ڈرتا ہو اور تو صدقی کرنے میں دیر نہ کر یہاں تک کہ (تیری) موت قریب ہوجائے اور (سانس) حلق تک پہنچ جائے پھر تو کہے کہ فلاں کے لئے اتنا ہے اور فلاں کے لئے اتنا (صدقہ) ہے مگر اب تو فلاں وارث ہوچکا ہے۔ (22) امام احمد ابو داؤد، ترمذی، نسائی، حاکم، اور بیہقی نے حضرت أبو داؤد ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مثال اس شخص کو جو موت کے وقت خرچ کرتا ہے یا صدقہ کرتا ہے اس شخص کی طرح ہے جو ہدیہ کردیتا ہے جب اپنا پیٹ بھر چکا ہوتا ہے۔ أما قولہ تعالیٰ : ذوی القربی : (23) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ذوی القربی “ سے مراد قریبی رشتہ دار ہیں۔ (24) طبرانی اور حاکم اور بیہقی نے سنن میں ام کلثوم بنت عقبہ ابی معیظ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے بہتر صدقہ وہ ہے جو ایسے رشتہ دار کو دیا جائے جو دشمنی کی بنا پر اعراض کرنے والا ہے۔ (25) امام احمد، دارمی اور طبرانی نے حکیم بن حزام ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے صدقات کے بارے میں سوال کیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا ایسے رشتہ دار پر صدقہ کرنا افضل ہے جو اعراض کرنے والا ہے۔ (26) امام احمد، ابو داؤد، ابن حبان اور حاکم نے حضرت میمونہ ام المؤمنین ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اپنی ایک لونڈی آزاد کردی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تو (یہ باندی) اپنے کسی ماموں کو دے دیتی تو تیرا بڑا اجر ہوتا۔ (27) الخطیب نے تالی التلخیص میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت میمونہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نابدی کے بارے میں اجازت لی جس کو وہ آزاد کر رہی تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس (باندی) کو اپنی بہن کو دے دو اور اس کے ساتھ اپنی بہن سے صلہ رحمہ کر تو یہ تیرے لئے بہتر ہے۔ (28) ابن المنذر نے فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک مثقال سونے کا ہے (اس کو کہاں صدقہ کروں تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کو اپنے قریبی رشتہ داروں میں خرچ کر۔ (29) ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی (انہوں نے اسھ حسن کہا ہے) نسائی، حاکم، ابن ماجہ اور بیہقی نے سنن میں سلمان بن عامر الضبی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ کا ثواب ہے اور کسی ذی رحم (یعنی قریبی رشتہ دار) پر صدقہ کرنا دو صدقہ (کا ثواب ہے) ایک اجر صدقہ کا دوسرا صلی رحمی کا۔ (30) امام احمد، مسلم، بخاری، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی اہلیہ حضرت زینب ؓ سے روایت کیا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ کیا میرا اپنے خاوند اور ان یتیم بچوں پر خرچ کرنا جو میری گود میں ہیں صدقہ کے حکم میں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا تیرے دو اجر ہیں۔ ایک صدقہ کا اجر اور دوسرا رشتہ داری کا اجر۔ (31) ابن ابی حاتم نے حجرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وابن السبیل “ سے مراد وہ مہمان ہے جو کسی مسلمان کے پاس ٹھہرتا ہے۔ (32) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وابن السبیل “ وہ ہے جو تجھ پر گزرے اور وہ مسافر ہے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” والسائلین “۔ (33) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والسائلین “ سے مراد وہ مسائل ہے جو تجھ سے سوال کرے۔ (34) امام احمد، ابو داؤد، ابن ابی حاتم نے حضرت حسین بن علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سائل کے لئے حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ (35) ابن عدی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سائل کو دے دو اگرچہ وہ گھوڑے پر کیوں نہ ہو۔ (36) ابن ابی شیبہ نے سالم بن ابی جعد (رح) سے روایت کیا کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا سائل کے لئے حق ہے اگر وہ ایسے گھوڑے پر آئے جو چاندی کا طوق پہنے ہوئے ہو۔ (37) ابن سعد، ترمذی (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) ابن خزیمہ، ابن حبان نے عبد الرحمن بن عبید سے روایت کیا اور انہوں نے اپنی دادی ام بجید ؓ سے روایت کیا جو ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مسکین میرے دروازے پر آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور میں اس کے دینے کو کوئی چیز نہیں پاتی آپ نے فرمایا اگر تو جلے ہوئے کھر کے علاوہ کوئی چیز نہ پائے تو اس کو وہی دے دو اور ابن خزیمہ کے الفاظ یہ ہیں کہ اپنے سائل کو (خالی) نہ لوٹاؤ۔ اگرچہ ایک کھر ہی ہو۔ (38) سعید بن منصور، ابن سعد نے عمرو بن معاذ انصاری ؓ کے طریق سے ان کی دادی حوا سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سائل کو (خالی نہ لوٹاؤ) اگرچہ کھر جلا ہوا ہو (وہی اس کو دے دو ) ۔ (39) ابن ابی شیبہ نے حمید بن عبد الرحمن (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ کہا جاتا تھا سائل کو (کچھ دیکر) لوٹاؤ اگرچہ قطاۃ کے سر کے برابر (کوئی تھوڑی سی) چیز ہو۔ (قطاۃ) فاختہ کی قسم کا ایک پرندہ ہے۔ (40) ابو نعیم، ثعلبی، دیلمی اور خطیب نے مالک کے رواۃ سے کمزور سند کے ساتھ روایت کیا ہے حضرت ابن عمر ؓ سے مرفوع روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہدیہ مؤمن کے لئے وہ سائل ہے جو اس کے دروازہ پر ہو۔ فقیر اللہ کا ہدیہ ہے (41) ابن شاہین ابن نجار نے اپنی تاریخ میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں تم کو اللہ تعالیٰ کے تحائف کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنی مخلوق کو عطا فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا کیوں نہیں ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا فقیر اللہ تعالیٰ کا ہدیہ ہے اس کو قبول کرے یا نہ کرے۔ قولہ تعالیٰ : وفی الرقاب۔ (42) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے لفظ آیت ” وفی الرقاب “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے گردنوں کا چھڑانا یعنی غلاموں کو آزاد کرنا۔ وأما قولہ تعالیٰ : واقام الصلوۃ واتی الزکوۃ : (43) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واقام الصلوۃ “ یعنی پورا کیا اس نے فرض نمازوں کو لفظ آیت ” واتی الزکوۃ “ یعنی فرض زکوٰۃ کو ادا کیا۔ (44) امام ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن عدی، دار قطنی، ابن مردویہ نے فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں حق ہے پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “۔ (45) بخاری نے اپنی تاریخ میں حضرت أبو ہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے مال میں زکوٰۃ کے بعد دوسرے حق کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا ہاں زکوٰۃ اچھائی پر آمادہ کرتی ہے۔ (46) عبد بن حمید نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کیا آدمی پر اس کے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی کوئی حق ہے فرمایا ہاں اور یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” واتی المال علی حبہ ذوی القربی اخرہ “ (الآیہ) (47) عبد بن حمید نے ربیعہ بن کلثوم (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو میرے والد نے بیان کیا کہ مسلم بن یسار (رح) نے مجھ سے فرمایا کہ بلاشبہ نماز دو قسم کی ہے اور بلاشبہ زکوٰۃ دو قسم کی ہے۔ اللہ کی قسم یہ بات اللہ کی کتاب میں ہے میں تجھ پر قرآن کو پڑھتا ہوں میں نے عرض کیا پڑھیے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “ إلی قولہ ” واتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل “ اور پس جو اس حکم کے علاوہ ہے وہ سارا نقل (کے درجہ میں) ہے (اور) لفظ آیت ” واقام الصلوۃ “ فرض نماز کی دلیل ہے (اور) لفظ آیت ” واتی الزکوۃ “ یہ فرض زکوٰۃ ہے پس نماز اور زکوٰۃ دونوں فرض ہیں۔ وأما قولہ تعالیٰ : والموفون بعھدہم اذا عھدوا : (48) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے أبو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والموفون بعھدھم اذا عھدوا “ سے مراد ہے جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا کسی کو عہد دیا پھر اس کو توڑ ڈالا تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لیں گے اور جس شخص نے نبی اکرم ﷺ کا ذمہ کردیا پھر اس کی خیانت کی تو نبی اکرم ﷺ قیامت کے دن اس سے جھگڑیں گے۔ (49) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والموفون بعھدہم اذا عھدوا “ سے مراد ہے جو وہ آپس میں اور لوگوں کے درمیان عہد کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں۔ وأما قولہ تعالیٰ : عھدوا، والصبرین فی الباساء والضراء وحین الباس : (50) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور حاتم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ لفظ آیت ” الباساء والضراء “ سے مراد ہے ہماری (اور) لفظ آیت ” وحین الباس “ سے مراد ہے لڑائی کے وقت۔ (51) عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم یہ بیان کرتے تھے کہ لفظ آیت ” الباساء “ سے مراد مصیبت اور غربت ہے اور لفظ آیت ” والضراء “ سے مراد بیماری اور درد ہے۔ اور لفظ آیت ” وحین الباس “ سے مراد ہے جنگ کے میدانوں کا وقت۔ (52) امام والطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے لفظ آیت ” الباساء والضراء “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ” الباساء “ سے مراد ہے سرسری اور ” الضراء “ سے مراد ہے خشک سالی۔ عرض کیا کیا عرب اس (معنی) سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے زید بن عمرو کا قول نہیں سنا : ان الا لہ عزیز واسع حکیم بکفہ الصر والبأساء والنعم ترجمہ : بلاشبہ اللہ تعالیٰ غالب اور وسعت والا ہے خشک سالی اور نعمتوں کا سب اختیار اسی کے اختیار و قبضہ قدرت میں ہے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” اولئک الذین صدقوا “ (53) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبر (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” اولئک “ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے وہ کام کئے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا (اور) وہ لوگ جنہوں نے سچ بولا۔ (54) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اولئک الذین صدقوا “ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کے ساتھ بات کی (اور) اس کی حقیقت عمل ہے اور انہوں نے اللہ پر سچ بولا (اور) حسن ؓ فرمایا کرتے تھے یہ ایمان کی بات ہے اور عمل کی حقیقت ہے کیونکہ اگر بات کے ساتھ عمل نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ (55) حکیم ترمذی نے ابو عامر اشعری ؓ سے روایت کیا کہ میں عرض کیا یا رسول اللہ نیکی کی تکمیل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا تو پوشیدہ طور پر وہی عمل کرے جو تو ظاہری طور پر کرتا ہے۔ (56) ابن عساکر نے ابراہیم بن ابی شیبان (رح) سے روایت کیا کہ میں نے زید بن رفیع (رح) سے پوچھا میں نے کہا اے ابو جعفر آپ ان خوارج کے بارے میں جو لوگوں کو کافر کہتے ہیں کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” لیس البر ان تولوا وجوھکم “ کو جھٹلایا ہے سو جو شخص ان (آیات) پر ایمان لے آئے گا وہ مؤمن ہوگا اور جو ان کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا۔
Top