Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ : نہیں الْبِرَّ : نیکی اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ قِبَلَ : طرف الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور دن الْاٰخِرِ : آخرت وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب وَالنَّبِيّٖنَ : اور نبی (جمع) وَاٰتَى : اور دے الْمَالَ : مال عَلٰي حُبِّهٖ : اس کی محبت پر ذَوِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکین (جمع) وَابْنَ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَالسَّآئِلِيْنَ : اور سوال کرنے والے وَفِي الرِّقَابِ : اور گردنوں میں وَاَقَامَ : اور قائم کرے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَى : اور ادا کرے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالْمُوْفُوْنَ : اور پورا کرنے والے بِعَهْدِهِمْ : اپنے وعدے اِذَا : جب عٰھَدُوْا : وہ وعدہ کریں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے فِي : میں الْبَاْسَآءِ : سختی وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَحِيْنَ : اور وقت الْبَاْسِ : جنگ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ صَدَقُوْا : انہوں نے سچ کہا وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار
نیکی اس میں نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کو مشرق اور مغرب کی طرف پھیرلیا کرو۔ لیکن نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر، اور اپنا مال دے اس کی محبت ہوتے ہوئے قرابت والوں کو اور یتیموں کو، اور مسکینوں کو، اور مسافروں کو، اور سوال کرنے والوں کو، گردنوں کے چھڑانے میں، اور قائم کرے نماز کو اور ادا کرے زکوۃ، اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کو جب کہ وہ عہد کریں۔ اور صبر کرنے والے ہیں سختی میں اور تکلیف میں اور جنگ کے موقعہ پر۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے سچائی کی راہ اختیار کی اور یہی لوگ متقی ہیں۔
اعمال حسنہ اور اخلاق عالیہ کا بیان یہ آیت کریمہ ان آیات میں سے ہے جن میں بہت سے اعمال حسنہ اور اخلاق عالیہ کو ایک ہی جگہ جمع فرما دیا ہے۔ لباب النقول ص 23 میں بحوالہ مصنف عبدالرزاق حضرت قتادہ (رح) سے نقل کیا ہے کہ یہودی مغرب کی جانب نماز پڑھتے تھے اور نصاریٰ مشرق کی طرف (اور اپنے اپنے قبلہ پر جمنے ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے اور ایمان قبول نہ کرتے تھے) لہٰذا آیت (لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ) (الایۃ) نازل ہوئی۔ حضرت قتادہ (رح) سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے نیکی (کی تفصیلات) کے بارے میں سوال کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آپ نے اس شخص کو بلایا اور آیت کریمہ پڑھ کر اسے سنا دی۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں (ص 207 ج 1) کہ جب پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا پھر کعبہ شریف کو قبلہ قرار دے دیا گیا تو اہل کتاب اور بعض مسلمانوں کو شاق گزرا اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کی حکمت نازل فرمائی کہ کوئی جہت مقصود بالذات نہیں ہے۔ بندوں کا مقصود یہ کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبر داری کریں اس کے حکموں کو مانیں جدھر رخ کرنے کا حکم ہو ادھر رخ کرلیں۔ بس یہ نیکی اور تقویٰ ہے اور ایمان کامل کا تقاضا ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق عمل ہوجائے، مشرق یا مغرب کو رخ ہو عنداللہ یہ کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر میں فرمایا یہ نیکی نہیں ہے کہ نماز پڑھا کرو اور دوسرے احکام پر عمل نہ کرو، اور ضحاک کا یہ قول نقل کیا ہے۔ و لٰکن البرو التقوی أن تودو الفرائض علی وجھھما یعنی نیکی اور تقویٰ یہ ہے کہ تمام فرائض کو حکم کے مطابق صحیح طریقے پر پورا پورا ادا کرو۔ اس آیت میں بہت سے نیک کام مذکور ہیں۔ سب سے پہلے تو ایمان کا ذکر فرمایا اور اصول و عقائد بتا دیئے۔ ایمان وہ چیز ہے جس کے بغیر کوئی نیکی قبول نہیں ہے۔ یہود و نصاریٰ ایمان تو لاتے نہیں تھے اور اپنے اپنے قبلہ کی طرف رخ کرنے ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصلی نیکی اس شخص کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں پر اور اس کے سب نبیوں پر۔ جو شخص ان چیزوں پر ایمان لائے گا اللہ کی کسی کتاب یا اس کے کسی رسول کی تکذیب نہ کرے گا اور رسولوں کے درمیان تفریق نہ کرے گا وہ مومن ہوگا پھر ایمان کے تقاضوں کے مطابق جو اعمال کرے گا اور جو اموال خرچ کرے گا اور جو اقوال اس سے صادر ہوں گے وہ سب نیکی اور تقویٰ میں شمار ہوں گے۔ اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنا : اصول و عقائد بتانے کے بعد مال خرچ کرنے کی عمومی مدیں ذکر فرمائیں۔ اور مال کی محبت ہوتے ہوئے رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو مال دینا نیکی میں شمار فرمایا۔ اور جو ایسے غلام ہیں جن سے ان کے آقاؤں نے کتابت کا معاملہ کرلیا۔ (یعنی ان سے کہہ دیا کہ اتنا مال لا کر دے دو تو آزاد ہو) ان کی گردنوں کے آزاد کرانے میں مال خرچ کرنے کو نیک کاموں میں ذکر فرمایا۔ لفظ (عَلٰی حُبِّہٖ ) میں جو ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے اس کا مرجع مفسرین نے مال کو قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے یہ بھی احتمال نکالا ہے کہ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے اپنے مال کو وجوہ خیر میں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن پہلا معنی دوسرے معنی کو شامل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جو شخص مال کی محبت ہوتے ہوئے مذکورہ وجوہ میں خرچ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ ہی کی محبت میں خرچ کرے گا۔ افضل الصدقہ : صحیح بخاری ص 191 ج 1 میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ کون سا صدقہ ثواب کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو ایسے وقت میں صدقہ کرے جب تو تندرست ہو اور خرچ کرتے ہوئے نفس کنجوس بن رہا ہو۔ تجھے تنگدستی کا ڈر ہو اور مالداری کی امید لگائے بیٹھا ہو، اور صدقہ کرنے میں تو اتنی دیر نہ لگا کہ جب روح حلق کو پہنچے لگے تو کہنے لگے کہ فلاں کو اتنا دینا اور فلاں کو اتنا دینا (اب تیرے دینے اور اعلان کرنے سے کیا ہوگا) اب تو فلاں کا ہو ہی چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صدقہ کرنے کا سب سے بڑا مرتبہ یہ ہے کہ تندرستی کے وقت (جب کہ مرض الموت میں مبتلا نہیں ہے) اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ اس وقت خرچ کرتا ہے تو نفس یوں کہتا ہے کہ خرچ نہ کرو پھر بھی نفس کے تقاضے کو دبا کر خرچ کرتا ہے۔ نفس کہتا ہے کہ خرچ کرو گے تو تنگدستی آجائے گی۔ اور مالدار بننے میں دیر لگے گی۔ پہلے خوب مالدار ہوجاؤ پھر خرچ کرنا لیکن خرچ کرنے والا نفس کی کوئی بات نہیں مانتا اللہ کی رضا کے لیے وجوہ خیر میں خرچ کرتا چلا جاتا ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ موت کے وقت صدقہ کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں کو اتنا دینا، فلاں کو اتنا دینا اس کی وہ حیثیت نہیں رہتی جو تندرستی میں خرچ کرنے کی تھی اب دوسروں کو کیا دے رہے ہو اب تو دوسروں کا ہو ہی چکا۔ رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی فضیلت : مال خرچ کرنے کے مصارف خیر بتاتے ہوئے پہلے (ذَوِی الْقُرْبیٰ ) کا ذکر فرمایا، عربی زبان میں ذوی القربیٰ رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے۔ سنن الترمذی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسکین کو صدقہ دینے میں صرف صدقہ کا ثواب ہے اور جس سے رحم کا رشتہ ہو اس کو صدقہ دینے میں (دو ہرا) ثواب ہے۔ (کیونکہ وہ) صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔ رشتہ داروں میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا رشتہ ماں باپ کا اور اپنی اولاد کا ہے، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا جگہ جگہ حکم دیا گیا ہے اور بیوی پر اور اولاد پر خرچ کرنے کی فضیلت بھی وارد ہوئی ہے۔ ان رشتوں کے تعلق سے طبعی تقاضے کے باعث سب ہی خرچ کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نہ صرف والدین اور اولاد بلکہ دور اور نزدیک کے دوسرے رشتہ داروں پر خرچ کرنے میں بھی ثواب رکھا ہے۔ اللہ کی رضا مقصود ہو، ریا کاری نہ ہو، جن پر خرچ کرے ان پر احسان نہ جتائے۔ طعن وتشنیع نہ کرے۔ حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل خرچ کرنا اس دینار کا ہے جو تو اپنے گھر والوں پر خرچ کرے اور وہ دینار جسے تو اپنے ساتھیوں پر جہاد میں خرچ کرے (یعنی سب سے زیادہ افضل صدقہ ہے) ۔ (صحیح مسلم ص 322 ج 1) حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان آدمی کا اپنے گھر والوں پر ثواب سمجھتے ہوئے خرچ کرنا صدقہ ہے۔ (یعنی اس میں بھی ثواب ہے) (صحیح بخاری ص 324 ج 1) بلکہ خرچ کرنے میں ان لوگوں کا سب سے پہلے دھیان رکھنے کا حکم فرمایا جو اپنے عیال میں ہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 170) یتیموں پر مال خرچ کرنے کی فضیلت : ذوی القربیٰ کے بعد یتامیٰ پر خرچ کرنے کا ذکر فرمایا۔ یہ یتیم کی جمع ہے۔ یتیم ان نابالغ بچوں کو کہا جاتا ہے جن کا باپ زندہ نہ ہو۔ عموماً ایسے بچے حاجت مند ہوتے ہیں۔ ان پر خرچ کرنے کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ اخراجات کے علاوہ دوسرے طریقوں سے بھی ان کی دلداری کی جائے۔ سنن ترمذی میں ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ایسا کیا تو ہر بال جس پر اس کا ہاتھ گزرے گا اس کے عوض نیکیاں ملیں گی اور صحیح بخاری ص 888 ج 2 میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنیوالا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے۔ اس موقع پر آپ نے اپنی انگلیاں (انگوٹھے کے پاس والی اور بیچ والی) ساتھ ملا کردکھائیں۔ آج کل لوگوں میں یہ رواج ہوگیا ہے کہ وہ یتیموں پر اپنا مال تو کیا خرچ کرتے انہیں کا مال کھا جاتے ہیں۔ باپ کی میراث میں سے جو حصہ ان کو ملتا ہے اس کو دبا لیتے ہیں۔ اپنے نام یا اپنی اولاد کے نام کروا لیتے ہیں۔ یتیم کے مال پر قبضہ کرنے سے ذرا نہیں جھجکتے۔ مساکین پر مال خرچ کرنا : پھر مساکین پر مال خرچ کرنے کا ذکر فرمایا، جن لوگوں کے پاس کچھ بھی نہ ہو ان کو مسکین کہا جاتا ہے۔ ان میں بہت سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی حاجت کو کسی پر ظاہر نہیں کرتے، دکھ، تکلیف میں بھوکے پیاسے وقت گزار لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر خرچ کرنے کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ جن کو سوال کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ تو سوال کرکے اپنی حاجت پوری کرلیتے ہیں۔ لیکن آبرومند آدمی سوال نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کی تلاش رکھنی چاہیے۔ صحیح بخاری ص 200 ج 1 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جو (سوال کرنے کے لیے) لوگوں کے پاس چکر لگاتا ہے۔ جسے ایک لقمہ اور دو لقمہ یا ایک کھجور اور دو کھجوریں واپس کردیتی ہیں۔ یعنی کوئی دیتا ہے کوئی نہیں دیتا۔ (لیکن واقعی مسکین وہ ہے، جو ایسی چیزیں نہیں پاتا جو اسے بےنیاز کرے اور اس کا پتہ بھی نہیں چلتا تاکہ اس پر صدقہ کیا جائے اور وہ سوال کرنے کے لیے بھی کھڑا نہیں ہوتا۔ سورۂ بلد میں فرمایا (فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ فَکُّ رَقَبَۃٍ اَوْ اِِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ یَتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ ) ” سو کیوں وہ گھاٹی میں سے ہو کر نہ نکلا اور اے مخاطب تجھے معلوم ہے گھاٹی کیا ہے ؟ گردن کا چھڑانا 1 ؂ یا بھوک کے دن میں کسی رشتہ دار یتیم یا کسی خاک نشین کو کھانا کھلانا، اس میں غلاموں کی آزادی میں مدد دینے اور یتیم اور مسکین کو کھانا کھلانے کو گھاٹی کے پار کرنے سے تعبیر فرمایا۔ کیونکہ یہ چیزیں نفس پر شاق ہیں۔ مسافر پر مال خرچ کرنا : پھر ابن سبیل پر خرچ کرنے کا ذکر فرمایا۔ عربی زبان میں ابن سبیل مسافر کو کہا جاتا ہے۔ بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مسافر کے پاس سفر میں خرچہ ختم ہوجاتا ہے یا مال چوری ہوجاتا ہے۔ یا جیب تراش کر رقم نکال لی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا حال معلوم ہوجائے تو ان پر خرچ کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ یہ لوگ حاجت کا اظہار کریں تب ہی دیا جائے۔ کسی طرح بھی ان کی حاجت معلوم ہوجائے تو ان کی مدد کردی جائے۔ مسافر کے گھر پر جس قدر بھی مال ہو اور اپنے اموال و املاک و جائداد کی وجہ سے غنی ہو لیکن سفر میں حاجتمند ہوگیا تو اس پر خرچ کرکے ثواب لیا جائے۔ سوال کرنے والوں کو دینے کا حکم : پھر سوال کرنے والوں کو دینے کا ذکر فرمایا۔ ان لوگوں میں کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ان میں واقعی ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔ ان کو تو دینا ہی چاہیے اور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں یقین تو نہیں کہ وہ حاجت مند ہوگا لیکن اس کے ظاہر حال اور غالب گمان سے ضرورت مند ہونا معلوم ہوتا ہے۔ ان کو بھی دینا درست ہے۔ بھیک مانگنے کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت : مجبوری میں بھوک دفع کرنے یا اور کسی حاجت کے پورا کرنے کے لیے کوئی مانگ لے تو گنجائش ہے۔ لیکن اس کو پیشہ بنا لینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ جن کو سوال کی عادت ہوتی ہے وہ مانگتے رہتے ہیں۔ مال جمع کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نہ دیا جائے۔ دنیا میں تو سوال کرنے والے بن کر بےآبرو ہوتے ہی ہیں۔ قیامت کے دن بھی بےآبروہوں گے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس نے لوگوں سے ان 1 ؂ یعنی غلام آزاد کرنا۔ کے مالوں کا سوال اس لیے کیا کہ مال زیادہ جمع ہوجائے تو وہ آگ کے انگاروں کا سوال کرتا ہے (جو دوزخ میں اسے ملیں گے) اب چاہے کم کرے یا زیادہ کرے۔ (رواہ مسلم ص 333 ج 1) اور رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ انسان دنیا میں برابر سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت میں اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (صحیح بخاری ص 199 ج 1) اس کا چہرہ دیکھ کر لوگ سمجھ لیں گے کہ یہ دنیا میں سائل تھا وہاں اپنے چہرے کی آبرو کھوئی تو یہاں بھی اسی کا ظہور ہوا۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ غنی کو اور ٹھیک ٹھاک بدن والے قوی آدمی کو سوال کرنا حلال نہیں ہے۔ الایہ کہ ایسا مجبور ہو کہ تنگدستی نے اسے مٹی میں ملا رکھا ہو (یعنی زمین کی مٹی کے سوا اس کے پاس کچھ نہ ہو) یا قرضے میں مبتلا ہوگیا ہو جو ذلیل کرنے والا ہو، اور جس شخص نے مال زیادہ کرنے کے لیے لوگوں سے سوال کیا تو قیامت کے دن اس کا چہرہ چھلا ہوا ہوگا اور یہ مال گرم پتھر بنا ہوگا۔ جس کو جہنم سے لیکر کھاتا ہوگا۔ اب جی چاہے تو کمی کرے اور چاہے تو زیادتی کرلے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 163) ہر شخص کو اپنی اپنی ذمہ داری بتادی گئی۔ مانگنے والا مانگنے سے پرہیز کرے اور جس سے مانگا جائے وہ موقع دیکھ کر خرچ کرے۔ سائل کو جھڑ کے بھی نہیں۔ کیا معلوم مستحق ہی ہو اور غور و فکر بھی کرے حاجت مندوں کو تلاش بھی کرے۔ مسئلہ : جو شخص مسجد میں سوال کرتا ہو اسے نہ دے۔ غلاموں کی آزادی میں مال خرچ کرنا : مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں سب سے آخر میں (وَ فِی الرِّقَابِ ) فرمایا رقاب، رقبۃ کی جمع ہے۔ رقبہ گردن کو کہتے ہیں۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں (ص 208 ج 1) کہ فی الرقاب سے مکاتبوں کے آزاد کرانے میں مدد دینا مراد ہے، جو غلام کسی کی ملکیت میں ہو اور اس کا آقا کہہ دے کہ اتنا مال دے دو تو تم آزاد ہو اس کو مکاتب کہا جاتا ہے۔ ان کو مال دے کر آزاد کرا دینا بھی وجوہ خیر میں سے ہے اور ثواب کا کام ہے۔ مفسر بیضاوی لکھتے ہیں ص 124 ج 1 کہ قیدیوں کی جانوں کا فدیہ دے کر ان کا چھڑا لینا یا غلام خرید کر آزاد کردینا بھی اس کے عموم میں شامل ہے۔ (جب کبھی مسلمان اللہ کے لیے جنگ کرتے تھے اور شریعت کے مطابق جہاد اور قتال ہوتا تھا۔ اس وقت غلام اور باندیوں کے مالک ہوتے تھے۔ اب نہ اللہ کے لیے جہاد ہے نہ غلام ہیں نہ باندیاں ہیں۔ کوئی انسان کسی انسان کا مالک نہیں ہے۔ پھر جب کبھی مسلمان اللہ کے لیے جنگ کریں گے اور اصول شریعت پر لڑیں گے تو پھر غلام باندیاں قبضہ میں آئیں گی) ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا : مال خرچ کرنے کے مواقع ذکر فرما کر فرمایا (وَ اَقَام الصَّلوٰۃَ وَاٰتَی الزَّکوٰۃَ ) یعنی تقویٰ کے کاموں میں یہ بھی ہے کہ فرض نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان پہلے بھی آچکا ہے۔ اوپر مال کے مصارف خیر بیان فرما کر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کو بھی ذکر فرمایا۔ مفسر بیضاوی فرماتے ہیں کہ پہلے مصارف زکوٰۃ بیان کیے اور پھر زکوٰۃ کی ادائیگی پر متوجہ فرمایا پھر لکھتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے جو وجوہ خیر بیان کی ہیں ان سے نفلی صدقات مراد ہوں (اور نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر فرمانے میں اس کی فرضیت بتانا مقصود ہو) ۔ عہد پورا کرنا : نیکی اور تقویٰ کے کام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا) (اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے جبکہ وہ عہد کرلیں) ۔ ایفائے عہد کی شریعت مطہرہ میں بڑی اہمیت ہے۔ حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو کہ (اَلاَ لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَۃَ لَہٗ وَ لَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَلَہٗ ) (خبر دار اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 15 عن شعب الایمان) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے اندر چار خصلتیں ہوں گی خالص منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہوگی تو یوں مانا جائے گا کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ (1) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (3) جب عہد کرے تو دھوکہ دے۔ (4) جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے۔ (صحیح بخاری ص 10 ج 1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دھوکہ بازی (کا جھنڈا) ہے اور اس جھنڈے کے ذریعہ اسے پہچانا جائے گا۔ (صحیح بخاری ص 452 ج 1) حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر دھوکہ دینے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جو اس کے پیچھے اس کے دھڑ پر کھڑا ہوگا، اور جتنا بڑا اس کا غدر ہوگا اسی قدر وہ جھنڈا اونچا ہوگا (پھر فرمایا) خبر دار اس سے بڑھ کر بڑا دھوکہ باز کوئی نہیں جو عوام کا امیر ہو، اور عوام کو دھوکہ دے۔ (صحیح مسلم ص 83 ج 2) حضرت معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی بندہ کو اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا راعی بنا دے۔ (یعنی صاحب اقتدار بنا کر عوام کی نگرانی اور خیر خواہی اس سے سپرد کر دے) پھر وہ اس کی خیر خواہی نہ کرے تو وہ شخص جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا۔ (صحیح بخاری ص 1058 ج 2) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ جو شخص مسلمانوں کی کسی جماعت کا والی ہو اور ان کی نگرانی اور نگہداشت اس کے ذمہ ہو پھر وہ اس حال میں مرجائے کہ وہ ان کے ساتھ خیانت کرنے والا ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ (صحیح بخاری ص 1059 ج 3) جو لوگ بڑے بڑے وعدے کرکے حکومت حاصل کرتے ہیں یا حکومت کے چھوٹے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں پھر وہ عوام کے ساتھ غدر کرتے ہیں اور سارے عہدو پیمان توڑ دیتے ہیں ان لوگوں کے حق میں یہ کیسی سخت وعیدیں ہیں غور کرلیں۔ مسئلہ : اگر کافروں سے کوئی معاہدہ ہو تو اس کا پورا کرنا بھی لازم ہے جب کسی قوم سے معاہدہ ہو اور ان کی طرف سے خیانت کا ڈر ہو اور اس کے ختم کرنے میں مصلحت ہو تو پہلے یہ بتادیں کہ ہمارا عہد باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد کوئی نئی کارروائی کرسکتے ہیں جو معاہدہ کی شرطوں کے خلاف ہو۔ سورة انفال میں ارشاد فرمایا (وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآءٍ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآءِنِیْنَ ) ” اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو آپ وہ عہد ان کو اس طرح واپس کردیجیے کہ آپ اور وہ برابر ہوجائیں۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنیوالوں کو پسند نہیں فرماتے۔ “ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی ایسے شخص کو قتل کیا جس سے (امان اور حفاظت جان کا وعدہ تھا) تو وہ جنت کی خوشبو نہ سو نگھے گا۔ (صحیح بخاری ص 448 ج 1) صابرین کی فضیلت : پھر صبر والوں کی تعریف فرمائی اور فرمایا (وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ) اس میں سختی اور تکلیف کے زمانہ میں صبر کرنے کو نیکی اور تقویٰ والے کام بتایا ہے اور جنگ کے وقت جب کافروں سے مقابلہ ہو اس وقت جم کر ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرنے کو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں شمار فرمایا ہے۔ سورة انفال میں فرمایا (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِءَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) ” اے ایمان والو ! جب تم کسی جماعت سے مقابلہ کرو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا خوب کثرت سے ذکر کرو۔ امید ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ سورۃ صف میں فرمایا (اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ) ” بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک عمارت ہے جس میں سیسہ پلایا گیا ہو) ۔ آخر میں فرمایا (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) ” کہ یہ حضرات جن کی صفات اوپر مذکور ہوئیں وہ لوگ ہیں جو اپنے ایمان میں سچے ہیں (کیونکہ ایمان قلبی کے ساتھ ایمان کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں) اور یہ لوگ تقویٰ والے بھی ہیں۔ (کیونکہ حرام سے بچتے ہیں، اور گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں) ۔ “
Top