Al-Qurtubi - Al-An'aam : 23
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَمْ تَكُنْ : نہ ہوگی۔ نہ رہی فِتْنَتُهُمْ : ان کی شرارت اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : وہ کہیں وَاللّٰهِ : قسم اللہ کی رَبِّنَا : ہمارا رب مَا كُنَّا : نہ تھے ہم مُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اسکے (کچھ چارہ نہ ہوگا) کہ کہیں خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے۔
آیت نمبر 23 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ثم لم تکن فتنتھم الفتنۃ سے مراد پرکھنا اور آزمائش کرنا ہے یعنی ان کے پاس جواب نہ ہوگا جب انہیں اس سوال سے آزمایاجائے گا اور وہ حقائق دیکھ لیں گے اور اس کے دعاوی اٹھ جائیں گے۔ آیت : الاان قالواو اللہ ربناما کنامشرکین وہ شرک سے برأت کریں گے اور شرک سے نفی کریں گے جب وہ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور درگزر دیکھیں گے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : اخلاص والوں کے اللہ تعالیٰ گناہ معاف کر دے گا اور اس پر کسی گناہ کو بخشنا بڑا نہیں ہے۔ جب مشرکین یہ دیکھیں گے تو وہ کہیں گے : ہمارا رب گناہوں کو بخشتا ہے اور شرک کو نہیں بخشتا تم آؤ ہم کہیں ہم گناہ گار تھے اور ہم مشرک نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : چونکہ انہوں نے شرک کو چھپایا پس ان کے مونہوں پر مہر لگادو، پس ان کے مونہوں پر مہر لگادی جائے گی، ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے کرتوتوں کی ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس وقت مشرکین پہچان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپائی نہیں جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : یومئذیودالذین کفرواوعصوا الرسول لو تسوی بھم الارض ولا یکتمون اللہ حدیثا (النسائ) اس روز تمنا کریں گے وہ جنہوں نے کفر کیا اور نافرمانی کی رسول کی کہ کاش (دبا کر) ہموار کردی جاتی ان پر زمین اور نہ چھپاسکیں گے اللہ سے کوئی بات۔ ابواسحاق زجاج نے کہا : اس آیت کی تاویل بہت لطیف ہے، اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے واقعات اور ان کی شرک کے ساتھ آزمائش کی خبردی، پھر بتایا کہ ان کی معذرت اور بہانا کوئی نہ ہو ہوگا جب وہ حقائق کو دکھیں مگر یہ کہ وہ شرک سے برأت کا اظہار کریں گے۔ اس کی مثال لغت میں یہ ہے کہ تو ایک انسان کو دیکھتا ہے جو ایک گمراہ شخص سے محبت کرتا ہے، پھر جب وہ ہلاکت میں گرتا ہے تو وہ اس سے برأت کا اظہار کرتا ہے، کہا جاتا ہے : تیری اس سے محبت نہ تھی مگر تو نے اس سے برأت کی۔ حسن نے کہا : یہ منافقین کے ساتھ خاص ہے جو اپنی عادت پر دنیا میں چلتے رہے۔ فتنتھم کا معنی ہے ان کے کفر کا انجام۔ قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے ان کا معذرت کرنا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے فرمایا :" اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے ملاقات کرے گا اور فرمائے گا : اے فلاں ! کیا میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی اور تجھے سردار نہیں بنایا تھا اور میں نے تیرا نکاح نہیں کیا تھا اور میں نے تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ کو مسخر نہیں کیا تھا، میں نے تجھے رائیس نہیں بنایا تھا کہ راحت سے رہتا تھا ؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں اے میرے رب ! پھر فرمائے گا : کیا توگمان رکھتا تھا کہ تو مجھ سے ملاقات کرنے والا ہے ؟ وہ کہے گا نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے تجھے فراموش کردیا جس طرح تو نے مجھے فراموش کیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندے سے ملے گا تو اسے فرمائے گا : وہ بھی اسی طرح کہے گا، پھر تیسرے سے ملے گا اسے یہ فرمائے گا تو وہ کہے گا : یارب ! میں تجھ پر، تیری کتاب پر، اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا اور میں نے نماز پڑھی اور میں نے روزہ رکھا اور میں نے صدقہ کیا، جتنی اسے طاقت ہوگی وہ تعریف کرے گا۔ فرمایا : اسے کہا جائے گا : یہاں ٹھہر، پھر اسے کہا جائے گا : ابھی ہم تجھ پر گواہ پیش کریں گے، وہ دل میں سوچے گا کون ہے جو مجھ پر گواہی دے گا ؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی اور اس کی ران، گوشت اور ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بولیں گی، وہ اپنے نفس سے بہانہ بنائے گا : یہ منافق ہے، اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا (1) (صحیح مسلم، کتاب الزہد، جلد 2۔ صفحہ 409)
Top