Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 38
اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلُ اِ۟فْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا وَّ مَا نَحْنُ لَهٗ بِمُؤْمِنِیْنَ
اِنْ : نہیں هُوَ : وہ اِلَّا : مگر رَجُلُ : ایک آدمی ۨ افْتَرٰى : اس نے جھوٹ باندھا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ وَّمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم لَهٗ : اس پر بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
وہ تو ایک ایسا شخص ہے جس نے اللہ پر ایک جھوٹ گھڑا ہے۔ اور ہم تو قطعاً اس پر ایمان نہیں لائیں گے
اِنْ ھُوَاِلَّا رَجُلُ نِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا وَّمَانَحْنُ لَہٗ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔ (المومنون : 38) وہ تو ایک ایسا شخص ہے جس نے اللہ پر ایک جھوٹ گھڑا ہے۔ اور ہم تو قطعاً اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ ) عوام کو اکسانے اور بہکانے کے بعد ان کے لیڈروں اور سرداروں نے یہ کہا کہ ہم نے تمہیں سمجھانے کا حق ادا کردیا ہے اور تم پر یہ بات واضح کردی ہے کہ اگر تم نے اس شخص کی اطاعت کا قلادہ گلے میں ڈال لیا تو تم اپنے آپ کو تباہ کرلو گے۔ اب تم جانو اور تمہارا کام، جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو غورو فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس شخص نے رسالت کا دعویٰ کرکے درحقیقت اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۔ اس نے کبھی کسی بشر کو اپنا رسول بنا کر نہیں بھیجا کیونکہ بشر تو کسی بات میں ہم سے مختلف نہیں۔ تو وہ اللہ کا برگزیدہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور ہماری رہنمائی کا فریضہ کیونکر انجام دے سکتا ہے ؟ اس لیے ہم نے تو فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس شخص پر کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا کَذَّبُوْنِ ۔ (المومنون : 39) (پیغمبر نے دعا کی اے میرے رب ! تو میری مدد فرما اس چیز کے ساتھ جس میں انھوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ ) پیغمبر کی دعا یہ آیت گزشتہ رکوع میں گزر چکی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہورہا ہے وہ بھی جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح تبلیغ و دعوت کے حوالے سے ان پر اتمامِ حجت کرچکے اور قوم نے آپ کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ کا کام تمام کرنے اور آپ کی دعوت کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیا۔ تو تب پیغمبر نے اللہ سے مدد کرنے کی درخواست کی۔ اور آیت کے الفاظ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ پیغمبر نے چونکہ انھیں باربار عذاب سے ڈرایا تھا لیکن انھوں نے عذاب سے ڈرنے کی بجائے اسے ایک مذاق بنالیا اب وہ باربار مطالبہ کرنے لگے کہ عذاب کہاں ہے، وہ آتا کیوں نہیں ؟ تو پیغمبر نے اسی عذاب کے حوالے سے اللہ کی نصرت کو پکارا۔
Top