Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 117
قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ كَذَّبُوْنِۚۖ
قَالَ : (نوح نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک قَوْمِيْ : میری قوم كَذَّبُوْنِ : مجھے جھٹلایا
حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعا کی، اے میرے رب ! میری قوم نے مجھے جھٹلادیا ہے،
قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنَ ۔ فَافْـتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْـنَـھُمْ فَـتْحًا وَّ نَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (الشعرآء : 117، 118) (حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعا کی، اے میرے رب ! میری قوم نے مجھے جھٹلادیا ہے، اب میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردے اور مجھ کو اور میرے ساتھ جو اہل ایمان ہیں ان کو نجات دے دے۔ ) فتح و نصرت کے لیے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف سے نبوت کے اعلان اور دعوت کے آغاز ہی میں قوم نے آپ ( علیہ السلام) کو ماننے سے انکار کردیا اور آپ ( علیہ السلام) کی نبوت کی تکذیب کردی۔ تو آپ ( علیہ السلام) نے فوراً اپنے رب سے درخواست کی کہ میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے، اس لیے ہمارے درمیان فیصلہ فرما دیجیے۔ گزشتہ آیت کے الفاظ شہادت دے رہے ہیں کہ قوم کی دھمکی اور ان کا لب و لہجہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ وہ اب حضرت نوح (علیہ السلام) سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو گزشتہ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغی کاوشوں اور اس آخری دھمکی کے بعد کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا کہ اب میری قوم میں کوئی ایک شخص بھی ایمان قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ حق و باطل کی محدود کشمکش بھی جانبین کے ارادوں کے سمجھنے کے لیے کافی ہوتی ہے، چہ جائیکہ ساڑھے نوسو سال کی طویل اور شدید کشمکش کے بعد بھی کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہوتا۔ اس لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے صرف اپنے مخاطب لوگوں کے ایمان سے ہی مایوسی کا اظہار نہیں کیا بلکہ سورة نوح میں یہاں تک فرمایا کہ اے رب ! اگر تو نے انھیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا فاجر اور سخت منکرحق ہوگا۔ پروردگار نے بھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس رائے کو درست قرار دیا اور اپنے وسیع علم کے حوالے سے فرمایا لَنْ یُّوْمِنَ مِنْ قُوْمِکَ اِلاَّمَنْ قَدْاٰمَنَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ (ہود : آیت 36) ” تیری قوم میں سے جو ایمان لاچکے، بس وہ لاچکے، اب کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے، لہٰذا اب ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دے۔ “ قوم کی ہدایت سے مایوسی کے بعد اب صرف فیصلے کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ میرے اور قوم کے درمیان آخری فیصلہ کردے، یعنی ایسا عذاب بھیج جو اس قوم کو تباہ کردے اور مجھے اور مجھ پر ایمان لانے والوں کو نجات دے دے۔ یہ وہ دعا ہے جو ہر رسول نے قوم پر اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے مانگی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فراست سے اندازہ کرلیتے ہیں کہ اب تبلیغ و دعوت کا وقت گزر چکا، قوم کسی طرح بھی راہ راست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ اس زبان کو خاموش کردینا چاہتی ہے جو انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتی ہے۔ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آتا ہے۔
Top