Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 3
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
لَعَلَّكَ : شاید تم بَاخِعٌ : ہلاک کرلوگے نَّفْسَكَ : اپنے تئیں اَلَّا يَكُوْنُوْا : کہ وہ نہیں مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لاتے
اے پیغمبر ! ) شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کردیں گے کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں بنتے
لَعَلَّـکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلاَّیَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۔ (الشعرآء : 3) (اے پیغمبر ! ) شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کردیں گے کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں بنتے۔ ) بَاخِعٌ … جو رگ ریڑھ کی ہڈی میں سے گزرتی ہوئی گردن میں پہنچتی ہے اسے بَخَاعٌ کہتے ہیں۔ جب ذبح کرتے وقت چھری یہاں تک پہنچ جائے تو ذبح مکمل ہوجاتی ہے، اسی سے بَاخِعٌماخوذ ہے۔ اس کا معنی ہے ایسا ذبح کرنے والا جس نے چھری بخاعتک پہنچا دی۔ نبی کریم ﷺ کی جس حالت کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے سورة کہف میں بھی یہی بات تھوڑی سے وضاحت سے کہی گئی ہے۔ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ عَلٰی آثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُوْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا ” شاید آپ ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہیں، اگر وہ لوگ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ “ ان آیات سے تین حقائق کا استحضار ان آیتوں کو دیکھتے ہوئے تین باتیں ذہن میں ابھرتی ہیں۔ پہلی یہ بات کہ نبی کریم ﷺ کو اپنی دعوت کی حقانیت اور اس کے انکار کرنے والوں کے ہولناک انجام کا انتہائی حد تک یقین تھا۔ کیونکہ جو شخص کسی بات کی دعوت دیتا ہے اگر وہ اسے محض ایک علمی نظریہ سمجھتا ہے تو وہ اس کے قبول یا عدم قبول پر اس قدر حساس نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کو ظنی گمان کرتا ہے تب بھی ان باتوں کو وہ اپنی جان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ اسی طرح اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری باتوں کو قبول کرلینے سے دنیوی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں اور رد کردینے سے چند نقصانات کا اندیشہ ہے تب بھی وہ اسے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بناتا۔ لیکن آنحضرت ﷺ جس طرح اپنی جان کو ہلکان کیے دے رہے تھے اور اس حد تک صدمے سے دوچار تھے کہ قرآن کریم کو بار بار تسلی کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس بات کا حتمی یقین رکھتے تھے کہ میں جس بات کی دعوت دے رہا ہوں وہ دنیا کی سب سے بڑی صداقت ہے اور انسانی زندگی کے لیے اس کی حیثیت آب حیات سے بڑھ کر ہے۔ اسی سے دنیوی عزت و کرامت وابستہ ہے اور اسی سے اخروی کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل ہوں گی۔ اور اس کا انکار کرنے والے ایک ہولناک انجام سے دوچار ہوں گے۔ دوسری بات جس کا احساس ہوتا ہے وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک میں اللہ تعالیٰ کے آستانے سے کٹے ہوئے لوگوں اور انسانیت سے گرے ہوئے انسانوں سے اس حد تک محبت ہے کہ آپ ان کی بھلائی کے لیے بار بار ان کا دامن کھینچتے ہیں، بار بار انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، بار بار انھیں یقین دلاتے ہیں کہ تم کھائی کی طرف بڑھ رہے ہو، لیکن وہ اس کے جواب میں گالیاں دیتے ہیں، اذیتیں پہنچاتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں، حتیٰ کہ آپ کے قتل کے منصوبے باندھتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ آپ ان کی حرکتوں سے مکدر یا متنفر ہو کر انھیں دعوت دینا چھوڑ دیں اور انھیں تقدیر کے حوالے کرکے خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں۔ آپ نہ صرف کہ اپنی تبلیغی مساعی میں کسی طرح کی کمی نہیں کرتے بلکہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اور رو رو کر اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے ہدایت مانگتے ہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جو دنیا کے کسی انسان میں دکھائی نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ ماں باپ جو ہمدردی اور غمگساری کا استعارہ ہیں وہ بھی بعض دفعہ اولاد سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول کبھی اپنے مخالفین سے لاتعلق اور بےنیاز نہیں ہوتے۔ تیسری بات جو محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتی وہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ دیکھتے ہیں کہ گھر میں فاقوں کی حکمرانی ہے۔ ایمان لانے والے نان شبینہ کے محتاج ہورہے ہیں۔ آپ کے جانثار جان لیوا مصائب سے دوچار ہیں۔ ابتلاء و آزمائش کی بھٹی گرم سے گرم تر ہوتی جارہی ہے لیکن ان میں سے کوئی بات بھی آپ کے لیے پریشانی کا باعث نہیں بنتی۔ آپ کو پریشان کرنے اور ہلکان کرنے والا وہ منظر ہے جس سے آپ کو روزانہ دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پوری قوم میں گمراہی و ضلالت، اخلاقی پستی، ہٹ دھرمی اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں اندھی مزاحمت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ وہ خیر اور بھلائی کی ہر بات کو اپنے لیے ناقابلِ قبول سمجھ رہے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جس سے آنحضرت ﷺ کے دل پر وہ ہلاک کردینے والی کیفیت طاری ہوتی ہے جس سے آپ روز بروز ہلاکت کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ تینوں کیفیات جو اس آیت کریمہ کے الفاظ سے خودبخود پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول کے سوا یہ کیفیت کسی اور میں نہیں ہوتی۔ یوں تو آپ کی نبوت اور رسالت کے بیشمار دلائل ہیں لیکن اگر کسی کو باقی دلائل سے آگاہی نہ ہو تو اس کے لیے یہ کیفیات ہی آپ کی حقانیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہیں۔
Top