Ruh-ul-Quran - An-Naml : 87
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ
وَ يَوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونک ماری جائے گی فِي الصُّوْرِ : صور میں فَفَزِعَ : تو گھبرا جائیگا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوا مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہے وَكُلٌّ : اور سب اَتَوْهُ : اس کے آگے آئیں گے دٰخِرِيْنَ : عاجز ہو کر
اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں ہول کھا جائیں گے بجز ان لوگوں کے جنھیں اللہ اس ہول سے بچانا چاہے اور سب اس کے آگے سرفگندہ ہو کر حاضر ہوجائیں گے
وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ط وَکُلٌّ اَ تَوْہُ دٰخِرِیْنَ ۔ (النمل : 87) (اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں ہول کھا جائیں گے بجز ان لوگوں کے جنھیں اللہ اس ہول سے بچانا چاہے اور سب اس کے آگے سرفگندہ ہو کر حاضر ہوجائیں گے۔ ) ہَولِ قیامت سے تذکیر مختلف طریقوں سے آخرت یاد دلائی جارہی ہے کیونکہ وہی ان آیات کا اصل موضوع ہے اور وہی انسانی زندگی میں صالح تبدیلی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں دل و دماغ کو آخرت کے تصور کے قریب لانے کے بعد اب اس کے وقوع کی منظرکشی کی جارہی ہے۔ اور یہ شاید اس لیے بھی ضروری ہے کہ مشرکینِ عرب بالخصوص قریش قیامت اور آخرت کے تصور کو استہزاء بنا چکے تھے اور اگر ان میں سے کوئی شخص سنجیدگی سے بھی ذکر کرتا تو بہت ہلکے انداز میں ذکر کرتا تھا۔ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے ہول اور واقعہ کو معمولی نہ سمجھیں۔ جس دن اس کے وقوع پذیر ہونے کے لیینفخِ صور ہوگا، یعنی خدائی بگل بجایا جائے گا تو زمین و آسمان میں کوئی مخلوق ایسی نہیں ہوگی جس پر ہول اور گھبراہٹ طاری نہ ہو۔ البتہ اس گھبراہٹ سے صرف وہ لوگ محفوظ رہیں گے جنھیں اللہ تعالیٰ محفوظ رکھنا چاہے گا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان خوش نصیب لوگوں میں انبیائے کرام، شہداء عظام اور اس کے مقبول بندے شامل ہوں گے۔ ان کے گھبراہٹ سے مامون رہنے کی وجہ ایک تو یہ ہوگی کہ انھیں پروردگار کی جانب سے تحفظ حاصل ہوگا، کوئی ناگوار بات ان پر اثرانداز نہ ہوسکے گی۔ اور دوسری وجہ جو انسانی ذہنوں کے قریب تر ہے وہ یہ ہے کہ وہ دنیا میں قیامت اور آخرت کی ایک ایک بات پر یقین رکھتے تھے۔ اور وہاں کی حاضری کی انھوں نے پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ چناچہ جب انھیں آخرت سے واسطہ پڑا تو انھیں کسی بات پر تعجب نہیں ہوا۔ یقین کا نور ہر جگہ ان کے لیے روشنی کا سامان بنا رہا۔ انھوں نے ہر تبدیلی کو جانی پہچانی چیز سمجھا۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اس دن کی ہولناکی اور ہیبت کا عالم یہ ہوگا کہ بڑے چھوٹے لیڈر اور پیرو سب اس دن خدا کے حضور میں نہایت عاجزی اور ذلت کے ساتھ حاضر ہوجائیں گے۔ اس ذلت سے بھی وہ لوگ محفوظ رہیں گے جنھیں اللہ تعالیٰ محفوظ رکھنا چاہے گا۔
Top