Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 137
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ١ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قَدْ خَلَتْ : گزر چکی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے سُنَنٌ : واقعات فَسِيْرُوْا : تو چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
تم سے پہلے بہت سی مثالیں گزر چکی ہیں تو زمین میں چلوپھرو اور دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا
قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ لا فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ۔ ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّـلْمُتَّقِیْنَ ۔ (تم سے پہلے بہت سی مثالیں گزر چکی ہیں تو زمین میں چلوپھرو اور دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ یہ تنبیہ ہے لوگوں کے لیے اور ہدایت اور نصیحت ہے ڈرنے والوں کے لیے) (137 تا 138) سُنَنٌ … سنت کی جمع ہے۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ ضابطے اور قاعدے ہیں جن کے تحت وہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور اس کی مثالیں ساری دنیا میں بکھری ہوئی ہیں۔ قرآن کریم کے چونکہ براہ راست مخاطب عرب ہیں اس لیے جزیرئہ عرب اور اس کے گرد و پیش میں قوموں کے ساتھ جو سلوک ہوا اور ان کے کھنڈرات جس کی منہ بولتی تصویر تھے ان کی طرف اشارہ فرمایا کہ تم جزیرہ عرب میں چل پھر کر دیکھو اور ان علاقوں میں بھی دیکھو جہاں تم اپنے کاروانِ تجارت لے کر جاتے ہو، تمہیں اندازہ ہوجائے گا کہ اللہ کے ضابطے کبھی نہیں بدلے۔ جس قوم میں بھی اللہ کے رسول آئے اگر وہ قوم ایمان لے آئی تو اللہ کی نعمتوں کی سزاوار ٹھہری اور اگر اس نے سرکشی اختیار کی تو وہ قوم ہمیشہ کے لیے تباہ کردی گئی۔ یہ ضابطے آج بھی نہیں بدلے۔ اسی لیے ہم نے لوگوں کے سامنے واضح طور پر بیان کردیا ہے اور ان کی ہدایت کے لیے نبی آخر الزماں ﷺ تشریف لے آئے ہیں اور آخری ہدایت نازل ہوچکی ہے۔ یہی تمہارے لیے ہدایت بھی ہے، نصیحت بھی اور سمجھ جانے کا موقع بھی۔ اس سے فائدہ اٹھائو تو بچ جاؤ گے ورنہ تباہی سر پر تلی کھڑی ہے۔
Top