Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 154
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآئِفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ١ؕ یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ١ؕ یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ١ؕ یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا١ؕ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ثُمَّ
: پھر
اَنْزَلَ
: اس نے اتارا
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مِّنْۢ بَعْدِ
: بعد
الْغَمِّ
: غم
اَمَنَةً
: امن
نُّعَاسًا
: اونگھ
يَّغْشٰى
: ڈھانک لیا
طَآئِفَةً
: ایک جماعت
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
وَطَآئِفَةٌ
: اور ایک جماعت
قَدْ اَهَمَّتْھُمْ
: انہیں فکر پڑی تھی
اَنْفُسُھُمْ
: اپنی جانیں
يَظُنُّوْنَ
: وہ گمان کرتے تھے
بِاللّٰهِ
: اللہ کے بارے میں
غَيْرَ الْحَقِّ
: بےحقیقت
ظَنَّ
: گمان
الْجَاهِلِيَّةِ
: جاہلیت
يَقُوْلُوْنَ
: وہ کہتے تھے
ھَلْ
: کیا
لَّنَا
: ہمارے لیے
مِنَ
: سے
الْاَمْرِ
: کام
مِنْ شَيْءٍ
: کچھ
قُلْ
: آپ کہ دیں
اِنَّ
: کہ
الْاَمْرَ
: کام
كُلَّهٗ لِلّٰهِ
: تمام۔ اللہ
يُخْفُوْنَ
: وہ چھپاتے ہیں
فِيْٓ
: میں
اَنْفُسِھِمْ
: اپنے دل
مَّا
: جو
لَا يُبْدُوْنَ
: وہ ظاہر نہیں کرتے
لَكَ
: آپ کے لیے (پر)
يَقُوْلُوْنَ
: وہ کہتے ہیں
لَوْ كَانَ
: اگر ہوتا
لَنَا
: ہمارے لیے
مِنَ الْاَمْرِ
: سے کام
شَيْءٌ
: کچھ
مَّا قُتِلْنَا
: ہم نہ مارے جاتے
ھٰهُنَا
: یہاں
قُلْ
: آپ کہ دیں
لَّوْ كُنْتُمْ
: اگر تم ہوتے
فِيْ
: میں
بُيُوْتِكُمْ
: اپنے گھر (جمع)
لَبَرَزَ
: ضرور نکل کھڑے ہوتے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ
كُتِبَ
: لکھا تھا
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْقَتْلُ
: مارا جانا
اِلٰى
: طرف
مَضَاجِعِھِمْ
: اپنی قتل گاہ (جمع)
وَلِيَبْتَلِيَ
: اور تاکہ ٓزمائے
اللّٰهُ
: اللہ
مَا
: جو
فِيْ صُدُوْرِكُمْ
: تمہارے سینوں میں
وَلِيُمَحِّصَ
: اور تاکہ صاف کردے
مَا
: جو
فِيْ قُلُوْبِكُمْ
: میں تمہارے دل
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
: سینوں والے (دلوں کے بھید)
پھر اللہ نے تم پر غم کے بعد اطمینان نازل فرمایا یعنی ” نیند “۔ جو چھارہی تھی تم میں سے ایک گروہ پر اور ایک گروہ ایسا تھا جسے اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی، وہ بدگمانی کررہے تھے اللہ کے بارے میں خلاف حقیقت، زمانہ جاہلیت کی قسم کی بدگمانی۔ وہ کہتے کہ بھلا ہمیں ان معاملات میں کیا دخل۔ کہہ دیجیے ! اختیار تو سارا اللہ کا ہے۔ وہ اپنے دلوں میں وہ چھپائے ہوئے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں (اپنے دلوں میں) اگر اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی دخل ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔ کہہ دیجیے ! اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو ضرور نکل آتے وہاں سے وہ لوگ جن کا قتل ہونا لکھا جاچکا تھا اپنی قتل گاہوں کی طرف۔ یہ اس لیے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ آزمائے جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اور صاف کردے جو میل کچیل تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے سینوں کے رازوں کا
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْـکُمْ مِّنْ م بَعْدِالْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَـآئِفَۃً مِّنْـکُمْ لا وَطَـآئِفَۃٌ قَدْ اَھَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ یَظُنُّونَ بِاللّٰہِ غَیْرَالْحَقِّ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃِ ط یَـقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّناَ مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْئٍ ط قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّـہٗ لِلّٰہِ ط یُخْفُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّالاَ یُبْدُوْنَ لَکَ ط یَقُوْلُوْنَ لَوْکَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰھُنَا ط قُلْ لَّوْکُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَالَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضَاجِعِھِمْ ج وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَافِیْ صُدُورِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَافِیْ قُلُوْبِکُمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ م بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۔ (پھر اللہ نے تم پر غم کے بعد اطمینان نازل فرمایا یعنی ” نیند “۔ جو چھارہی تھی تم میں سے ایک گروہ پر اور ایک گروہ ایسا تھا جسے اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی۔ وہ بدگمانی کررہے تھے اللہ کے بارے میں خلاف حقیقت، زمانہ جاہلیت کی قسم کی بدگمانی۔ وہ کہتے کہ بھلا ہمیں ان معاملات میں کیا دخل۔ کہہ دیجیے ! اختیار تو سارا اللہ کا ہے۔ وہ اپنے دلوں میں وہ چھپائے ہوئے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں (اپنے دلوں میں): اگر اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی دخل ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔ کہہ دیجیے ! اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو ضرور نکل آتے وہاں سے وہ لوگ جن کا قتل ہونا لکھا جاچکا تھا اپنی قتل گاہوں کی طرف۔ یہ اس لیے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ آزمائے جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اور صاف کردے جو میل کچیل تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے سینوں کے رازوں کا) (154) گزشتہ آیت کریمہ سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ مسلمان جو اتنی بڑی مصیبت سے دوچار ہوئے وہ درحقیقت ان کی تربیت کے لیے ایک ضروری امر تھا اور آئندہ انقلابی عزائم کو بروئے کار لانے کے لیے یہ امتحان ضروری تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مسلمانوں کا رشتہ اپنے اللہ سے ٹوٹ چکا ہے۔ چناچہ جیسے ہی مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھالا آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لیے مسلمان چاروں طرف سے امڈ امڈ کرآئے۔ بالآخر آپ کو لے کر ایک گھاٹی پر چڑھ گئے اور ایسی پامردی دکھائی کہ دشمن اپنی افرادی قوت اور مسلمانوں کی وقتی غفلت سے فائدہ اٹھانے کے باوجود اپنی فتح کی تکمیل نہ کرسکا۔ بجائے قدم آگے بڑھانے کے اس نے اسی میں عافیت سمجھی کہ وہ بچ کر واپس چلا جائے۔ چناچہ مسلمانوں کا لشکر ابھی میدانِ احد میں تھا کہ غنیم کی پوری فوج احد کی وادی سے نکل چکی تھی۔ یہ خطرہ ضرور موجود تھا کہ مسلمانوں کو چونکہ بہت نقصان پہنچ چکا ہے ستر لاشے ابھی بےگوروکفن پڑے ہیں، ہر صحابی زخموں سے چور ہے، دشمن نے اگر ذرا بھی تدبر کا ثبوت دیا تو اندیشہ ہے کہ کہیں پلٹ کر حملہ نہ کردے اس لیے مسلمان پوری طرح چوکنا اور کمر بستہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اچانک مسلمانوں پر اطمینان کی کیفیت نازل فرمائی۔ دلوں میں سکون کی شبنم برسی۔ غموں سے تپتے ہوئے سینے اللہ کی رحمت کی ٹھنڈک محسوس کرنے لگے۔ ماہرینِ جنگ کہتے ہیں کہ فوج کے ایک ایک فرد کو جس طرح مناسب غذا ملنی چاہیے اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اسے آرام اور نیند کا موقعہ ملنا چاہیے جو بالعموم جنگوں میں نصیب نہیں ہوتا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے تو بھاگتے ہوئے بھی سپاہی کچھ نہ کچھ کھانے کا موقعہ تلاش کرلیتے ہیں۔ لیکن جنگ کی ہولناکیاں اور سفر کی رواروی اور دشمن کے حملہ کا خطرہ سونے کا کبھی موقعہ پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اگر مسلسل فوج بےخوابی کا شکار رہے تو اعصاب کی شکست کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ نے مسلمانوں پر جو اطمینان کی کیفیت نازل فرمائی اس کی اہم ترین بات یہ تھی کہ فوج کی ایک بڑی تعداد پر نیند طاری کردی۔ عین خطرات کے موقعہ پر نیند کا آنا اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ امن کی حالت میں آدمی اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ اسی لیے پروردگار نے جنگ بدر میں جو مسلمانوں پر احسانات کیے ان میں سے بطورخاص اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تم پر نیند غالب کردی کہ قریش مکہ کی ساری فوج رات بھر جاگتی رہی اور مسلمانوں کی فوج جنھیں پریشانی کے اسباب نے گھیر رکھا تھا وہ رات بھر کمر کھول کرسوئی۔ مسلمانوں کو جس فوج سے مقابلہ تھا اس کی تعداد تین گنا سے بھی زیادہ تھی۔ اس کا ایک ایک سپاہی لوہے میں ڈھل کر نکلا تھا۔ ان کے پاس بڑی تعداد میں گھوڑے تھے۔ کمک اور رسد کے وسائل کی کوئی کمی نہ تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ ہتھیار تھے، نہ گھوڑے۔ وسائل کی کمیابی خود اپنے منہ سے بول رہی تھی۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی تھی جو نیند اچاٹ کردینے کے لیے کافی تھی۔ اس کے باوجود یہ سراسر اللہ کا کرم تھا کہ رات بھر وہ نیند کی آغوش کے مزے لوٹتے رہے اور دشمن پریشان کن بیداری میں دہکتا رہا۔ یہی انعام اللہ تعالیٰ نے میدانِ احد میں بھی کیا۔ حضرت ابوطلحہٰ ( رض) ماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کرم کا حال یہ تھا کہ ہمارے خوف وہراس کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہم پر غنودگی طاری کردی، مضمحل اور منفعل لشکر پھر سے تازہ دم ہوگیا۔ ایک ایک سپاہی اونگھ رہا تھا۔ تلواریں ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ کر گرا چاہتی تھیں۔ لیکن اسی فوج میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جنھیں اپنی جانوں کی پڑی تھی۔ منافقین کی تین سو کی تعداد تو راستے ہی میں مسلمانوں سے کٹ کر الگ ہوگئی تھی۔ لیکن ایک مختصرسی جماعت معب بن قشیر اور اس کی پارٹی مسلمانوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی تاکہ جب بھی موقعہ ملے مسلمانوں کو نقصان پہنچائے۔ انھیں سوائے اپنی جانیں بچانے کے اور کوئی فکر نہ تھی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں نیند کے لطف سے محروم رکھا۔ چناچہ جب تک حالات نے پلٹا نہیں کھایا وہ برابر پریشانیوں میں گھلتے رہے۔ جب حالات ذرا پرسکون ہوئے تو ان کا چھپا ہوا نفاق اور اسلام دشمنی آہستہ آہستہ ان کی زبان سے ظاہر ہونے لگی اور وہ ایسی باتیں مسلمانوں سے کہنے لگے جس سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا کیا جاسکتا تھا یا ان کے حوصلوں کو پست کیا جاسکتا تھا۔ لیکن مسلمان اب چونکہ منافقین کی طرف سے کھٹک گئے تھے اس لیے ان کے بقیہ لوگ اپنے نفاق کے اظہار میں بڑے محتاط ہوگئے۔ وہ بات کہتے تھے لیکن الفاظ میں لپیٹ کر۔ وہ خود تو اپنے دلوں میں ابھی تک جاہلیت کے خیالات بسائے ہوئے تھے اور یہی وہ خیالات تھے جو درحقیقت ان کے نفاق کا سبب تھے۔ چناچہ انھیں خیالات کو وہ الفاظ میں لپیٹ کر آہستہ آہستہ مسلمانوں میں پھیلانے کے درپے تھے۔ انھوں نے پہلی بات مسلمانوں سے یہ کہی : کیا ہمارا بھی اس کام میں کچھ دخل ہے ؟ یعنی جنگ کے معاملات پیش آتے ہیں، اس کے لیے تدبیریں طے کی جاتی ہیں۔ مناسب تیاریاں ہوتی ہیں باہمی مشورے ہوتے ہیں، دشمن سے عہدہ برآ ہونے کی منصوبہ سازی کی جاتی ہے۔ لیکن ہمیں تو کسی معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔ ہمیں تو پوچھا ہی نہیں جاتا کہ ہم یہ کام کریں یا نہ کریں۔ لیکن جب کوئی ناگوار صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کا خمیازہ ہمیں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کے جواب میں پروردگار نے فرمایا : اے پیغمبر ان سے کہو ! مسلمانوں کے معاملات کے سارے اختیارات تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ کا نبی ہمیشہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور مسلمان انھیں فیصلوں کے پابندہوتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ درحقیقت یہ منافق دبی دبی زبان میں جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ وہ بات نہیں جو وہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ وہ اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے ہمارا مشورہ قبول کیا ہوتا کہ مدینہ ہی میں رہ کر مدینہ کا دفاع کیا جائے تو یہ جو آج ستر لاشے پڑے دکھائی دیتے ہیں یہ یہاں آکر اس طرح قتل نہ ہوتے۔ یہاں ان کا قتل ہونا سراسر بےتدبیری کا نتیجہ ہے اور ہماری بات نہ ماننے کا خمیازہ ہے۔ یہ چونکہ سراسر ایک عقیدے کا معاملہ ہے اس لیے قرآن کریم نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کسی شخص کو کب مرنا ہے اور کس سرزمین میں اس کی موت آئے گی اس کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کے سوا اس سے کوئی واقف نہیں۔ جن کے بارے میں یہ طے ہوچکا کہ ان کی موت احد کے دامن میں آئے گی وہ گھر بھی بیٹھے ہوتے تو موت انھیں احد کے دامن میں خود لے آتی۔ کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ سے لوگ خیریت سے گھر واپس آجاتے ہیں اور گھر میں بیٹھنے والے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس نے زندگی بھر کبھی کسی جگہ کا نام بھی نہیں سنا، حالات ایسے ہوجاتے ہیں کہ حالات کا الٹ پھیر اسے وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں اس کی موت اس کے انتظار میں ہوتی ہے اور وہاں کی مٹی اس کا مدفن بننے والی ہوتی ہے۔ یہ عقیدہ کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسی وقت آئے گی جب اسے منظور ہوگا یہ اتنی بڑی قوت ہے جو انسان کو موت کے سامنے سپرانداز ہونے سے بچاتی ہے۔ وہ موت کو اللہ کا حکم سمجھتا ہے اور جانے والے کو اس کی امانت۔ اس لیے نہ اسے خوف لاحق ہوتا ہے اور نہ اس کے اندر شکایت پیدا ہوتی ہے۔ ایک نومسلم انگریز نے اپنے ایمان لانے کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : ایک بڑے میاں میرے پاس ملازم تھے ایک دن اس کی بیوی فوت ہوگئی۔ میں دوسرے دن افسوس کرنے گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ بڑے ادب واحترام سے بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر کتاب بند کرکے میری طرف متوجہ ہوا۔ میں نے افسوس کا اظہار کیا کہنے لگا : صاحب ! افسوس کس بات کا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے زندگی کا بڑاحصہ اسے میرے ساتھ گزارنے کا موقعہ دیا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی محبت اور خدمت سے فائدہ اٹھایا۔ اب اس کی زندگی کا وقت ختم ہوگیا۔ اللہ نے اسے اتنی زندگی دی تھی تو وہ اسے لے گیا۔ مجھے اس کی موت کا دکھ تو ضرور ہے، شکایت نہیں کیونکہ موت اللہ کے حکم سے آتی ہے اور اس کے حکم پر شکایت نہیں کی جاتی، صبر کیا جاتا ہے۔ میں اس کا شکر گزار بھی ہوں کہ ہم اتنے سال اکٹھے رہے اور اب موت آئی ہے تو میں صبر کروں گا تاکہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو۔ یہ نومسلم انگریز کہتا ہے کہ اتفاق یہ ہوا کہ چند مہینے کے بعد اس کا جوان بیٹا مرگیا۔ میں نے سوچا کہ اتنے بڑے صدمے کو برداشت کرنا اس بڑے میاں کے بس کی بات نہیں۔ میں افسوس کے لیے گیا تو دیکھا کہ پھر وہی کتاب پڑھ رہا ہے۔ میں نے افسوس کیا تو کہنے لگا کہ صاحب میرا بیٹا اللہ کی امانت تھا۔ جب تک وہ میرے پاس رہا میں نے اس کی زندگی اور اس کی خدمت سے فائدہ اٹھایا اب اللہ کو منظور ہوا تو وہ اپنی امانت واپس لے گیا۔ مجھے اس پر کوئی شکایت نہیں مال والا اپنا مال واپس لے جائے تو شکایت کیسی۔ میں صبر کروں گا تاکہ میرے صبر کا صلہ مجھے ملے۔ وہ لکھتا ہے کہ اللہ کی شان چند مہینوں کے بعد اس کے مرنے والے بیٹے کا ایک ہی بچہ تھا جو وہ پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ وہ بھی مرگیا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب یہ بوڑھا زندہ نہیں رہ سکتا یا تو اس کا دل فیل ہوجائے گا اور یا یہ خودکشی کرلے گا کیونکہ ہمارے یہاں کبھی کوئی شخص اتنے صدمے برداشت نہیں کرتا۔ میں اس کے پاس افسوس کرنے گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس پر مایوسی کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ بڑے آرام سے بیٹھا وہی کتاب پڑھ رہا تھا جو ہمیشہ میں اسے پڑھتا دیکھتا تھا اور وہی باتیں کہہ رہا تھا جو اس سے پہلے کہتا تھا۔ میں نے اس سے حیرانی سے پوچھا کہ تمہیں یہ باتیں کس نے سکھائی ہیں اور تمہیں یہ حوصلہ کون دیتا ہے ؟ یہ تو حیران کن قوت ہے جو تمہارے اندر کام کررہی ہے۔ اس نے کہا : صاحب ! یہ باتیں مجھے میری اس کتاب نے سکھائی ہیں جس کا نام ” قرآن مجید “ ہے۔ یہ کتاب ہمارے پیغمبر پر نازل ہوئی تھی۔ اسی سے ہم عقیدہ لیتے ہیں اور یہی ہماری زندگی کی رہنما ہے۔ کہا : میں نے اس سے وہ کتاب لے لی اس کا ترجمہ منگوا کر پڑھاتو میری دنیا بدل گئی اور میں نے اسلام قبول کرلیا۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور موت کے بارے میں اسلام کا دیا ہوا یہ عقیدہ کہ وہ سراسر اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ اللہ کے حکم سے پہلے نہیں آسکتی، اس کا ایک وقت اور ایک جگہ مقرر ہے، نہ وہ وقت سے پہلے آسکتی ہے اور نہ اس کی جگہ بدل سکتی ہے، مسلمانوں کی قوت کا اصل سرچشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ احد جیسے حالات میں مبتلا فرماکران تمام خیالات باطلہ اور فاسد عقائد کی اصلاح فرمادی جو انسانی زندگی اور مسلمان کے ایمان کے فساد کا باعث بن سکتے ہیں تاکہ آئندہ کبھی مسلمان اس طرح کی کمزوری میں مبتلا نہ ہو۔
Top