Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 154
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآئِفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ١ؕ یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ١ؕ یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ١ؕ یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا١ؕ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : اس نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْۢ بَعْدِ : بعد الْغَمِّ : غم اَمَنَةً : امن نُّعَاسًا : اونگھ يَّغْشٰى : ڈھانک لیا طَآئِفَةً : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے وَطَآئِفَةٌ : اور ایک جماعت قَدْ اَهَمَّتْھُمْ : انہیں فکر پڑی تھی اَنْفُسُھُمْ : اپنی جانیں يَظُنُّوْنَ : وہ گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں غَيْرَ الْحَقِّ : بےحقیقت ظَنَّ : گمان الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے ھَلْ : کیا لَّنَا : ہمارے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام مِنْ شَيْءٍ : کچھ قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : کہ الْاَمْرَ : کام كُلَّهٗ لِلّٰهِ : تمام۔ اللہ يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں فِيْٓ : میں اَنْفُسِھِمْ : اپنے دل مَّا : جو لَا يُبْدُوْنَ : وہ ظاہر نہیں کرتے لَكَ : آپ کے لیے (پر) يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَوْ كَانَ : اگر ہوتا لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَمْرِ : سے کام شَيْءٌ : کچھ مَّا قُتِلْنَا : ہم نہ مارے جاتے ھٰهُنَا : یہاں قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ كُنْتُمْ : اگر تم ہوتے فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھر (جمع) لَبَرَزَ : ضرور نکل کھڑے ہوتے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كُتِبَ : لکھا تھا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَتْلُ : مارا جانا اِلٰى : طرف مَضَاجِعِھِمْ : اپنی قتل گاہ (جمع) وَلِيَبْتَلِيَ : اور تاکہ ٓزمائے اللّٰهُ : اللہ مَا : جو فِيْ صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں میں وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ صاف کردے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ : میں تمہارے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں والے (دلوں کے بھید)
پھر اللہ نے تم پر غم کے بعد اطمینان نازل فرمایا یعنی ” نیند “۔ جو چھارہی تھی تم میں سے ایک گروہ پر اور ایک گروہ ایسا تھا جسے اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی، وہ بدگمانی کررہے تھے اللہ کے بارے میں خلاف حقیقت، زمانہ جاہلیت کی قسم کی بدگمانی۔ وہ کہتے کہ بھلا ہمیں ان معاملات میں کیا دخل۔ کہہ دیجیے ! اختیار تو سارا اللہ کا ہے۔ وہ اپنے دلوں میں وہ چھپائے ہوئے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں (اپنے دلوں میں) اگر اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی دخل ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔ کہہ دیجیے ! اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو ضرور نکل آتے وہاں سے وہ لوگ جن کا قتل ہونا لکھا جاچکا تھا اپنی قتل گاہوں کی طرف۔ یہ اس لیے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ آزمائے جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اور صاف کردے جو میل کچیل تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے سینوں کے رازوں کا
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْـکُمْ مِّنْ م بَعْدِالْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَـآئِفَۃً مِّنْـکُمْ لا وَطَـآئِفَۃٌ قَدْ اَھَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ یَظُنُّونَ بِاللّٰہِ غَیْرَالْحَقِّ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃِ ط یَـقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّناَ مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْئٍ ط قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّـہٗ لِلّٰہِ ط یُخْفُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّالاَ یُبْدُوْنَ لَکَ ط یَقُوْلُوْنَ لَوْکَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰھُنَا ط قُلْ لَّوْکُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَالَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضَاجِعِھِمْ ج وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَافِیْ صُدُورِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَافِیْ قُلُوْبِکُمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ م بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۔ (پھر اللہ نے تم پر غم کے بعد اطمینان نازل فرمایا یعنی ” نیند “۔ جو چھارہی تھی تم میں سے ایک گروہ پر اور ایک گروہ ایسا تھا جسے اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی۔ وہ بدگمانی کررہے تھے اللہ کے بارے میں خلاف حقیقت، زمانہ جاہلیت کی قسم کی بدگمانی۔ وہ کہتے کہ بھلا ہمیں ان معاملات میں کیا دخل۔ کہہ دیجیے ! اختیار تو سارا اللہ کا ہے۔ وہ اپنے دلوں میں وہ چھپائے ہوئے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں (اپنے دلوں میں): اگر اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی دخل ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔ کہہ دیجیے ! اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو ضرور نکل آتے وہاں سے وہ لوگ جن کا قتل ہونا لکھا جاچکا تھا اپنی قتل گاہوں کی طرف۔ یہ اس لیے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ آزمائے جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اور صاف کردے جو میل کچیل تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے سینوں کے رازوں کا) (154) گزشتہ آیت کریمہ سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ مسلمان جو اتنی بڑی مصیبت سے دوچار ہوئے وہ درحقیقت ان کی تربیت کے لیے ایک ضروری امر تھا اور آئندہ انقلابی عزائم کو بروئے کار لانے کے لیے یہ امتحان ضروری تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مسلمانوں کا رشتہ اپنے اللہ سے ٹوٹ چکا ہے۔ چناچہ جیسے ہی مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھالا آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لیے مسلمان چاروں طرف سے امڈ امڈ کرآئے۔ بالآخر آپ کو لے کر ایک گھاٹی پر چڑھ گئے اور ایسی پامردی دکھائی کہ دشمن اپنی افرادی قوت اور مسلمانوں کی وقتی غفلت سے فائدہ اٹھانے کے باوجود اپنی فتح کی تکمیل نہ کرسکا۔ بجائے قدم آگے بڑھانے کے اس نے اسی میں عافیت سمجھی کہ وہ بچ کر واپس چلا جائے۔ چناچہ مسلمانوں کا لشکر ابھی میدانِ احد میں تھا کہ غنیم کی پوری فوج احد کی وادی سے نکل چکی تھی۔ یہ خطرہ ضرور موجود تھا کہ مسلمانوں کو چونکہ بہت نقصان پہنچ چکا ہے ستر لاشے ابھی بےگوروکفن پڑے ہیں، ہر صحابی زخموں سے چور ہے، دشمن نے اگر ذرا بھی تدبر کا ثبوت دیا تو اندیشہ ہے کہ کہیں پلٹ کر حملہ نہ کردے اس لیے مسلمان پوری طرح چوکنا اور کمر بستہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اچانک مسلمانوں پر اطمینان کی کیفیت نازل فرمائی۔ دلوں میں سکون کی شبنم برسی۔ غموں سے تپتے ہوئے سینے اللہ کی رحمت کی ٹھنڈک محسوس کرنے لگے۔ ماہرینِ جنگ کہتے ہیں کہ فوج کے ایک ایک فرد کو جس طرح مناسب غذا ملنی چاہیے اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اسے آرام اور نیند کا موقعہ ملنا چاہیے جو بالعموم جنگوں میں نصیب نہیں ہوتا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے تو بھاگتے ہوئے بھی سپاہی کچھ نہ کچھ کھانے کا موقعہ تلاش کرلیتے ہیں۔ لیکن جنگ کی ہولناکیاں اور سفر کی رواروی اور دشمن کے حملہ کا خطرہ سونے کا کبھی موقعہ پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اگر مسلسل فوج بےخوابی کا شکار رہے تو اعصاب کی شکست کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ نے مسلمانوں پر جو اطمینان کی کیفیت نازل فرمائی اس کی اہم ترین بات یہ تھی کہ فوج کی ایک بڑی تعداد پر نیند طاری کردی۔ عین خطرات کے موقعہ پر نیند کا آنا اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ امن کی حالت میں آدمی اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ اسی لیے پروردگار نے جنگ بدر میں جو مسلمانوں پر احسانات کیے ان میں سے بطورخاص اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تم پر نیند غالب کردی کہ قریش مکہ کی ساری فوج رات بھر جاگتی رہی اور مسلمانوں کی فوج جنھیں پریشانی کے اسباب نے گھیر رکھا تھا وہ رات بھر کمر کھول کرسوئی۔ مسلمانوں کو جس فوج سے مقابلہ تھا اس کی تعداد تین گنا سے بھی زیادہ تھی۔ اس کا ایک ایک سپاہی لوہے میں ڈھل کر نکلا تھا۔ ان کے پاس بڑی تعداد میں گھوڑے تھے۔ کمک اور رسد کے وسائل کی کوئی کمی نہ تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ ہتھیار تھے، نہ گھوڑے۔ وسائل کی کمیابی خود اپنے منہ سے بول رہی تھی۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی تھی جو نیند اچاٹ کردینے کے لیے کافی تھی۔ اس کے باوجود یہ سراسر اللہ کا کرم تھا کہ رات بھر وہ نیند کی آغوش کے مزے لوٹتے رہے اور دشمن پریشان کن بیداری میں دہکتا رہا۔ یہی انعام اللہ تعالیٰ نے میدانِ احد میں بھی کیا۔ حضرت ابوطلحہٰ ( رض) ماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کرم کا حال یہ تھا کہ ہمارے خوف وہراس کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہم پر غنودگی طاری کردی، مضمحل اور منفعل لشکر پھر سے تازہ دم ہوگیا۔ ایک ایک سپاہی اونگھ رہا تھا۔ تلواریں ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ کر گرا چاہتی تھیں۔ لیکن اسی فوج میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جنھیں اپنی جانوں کی پڑی تھی۔ منافقین کی تین سو کی تعداد تو راستے ہی میں مسلمانوں سے کٹ کر الگ ہوگئی تھی۔ لیکن ایک مختصرسی جماعت معب بن قشیر اور اس کی پارٹی مسلمانوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی تاکہ جب بھی موقعہ ملے مسلمانوں کو نقصان پہنچائے۔ انھیں سوائے اپنی جانیں بچانے کے اور کوئی فکر نہ تھی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں نیند کے لطف سے محروم رکھا۔ چناچہ جب تک حالات نے پلٹا نہیں کھایا وہ برابر پریشانیوں میں گھلتے رہے۔ جب حالات ذرا پرسکون ہوئے تو ان کا چھپا ہوا نفاق اور اسلام دشمنی آہستہ آہستہ ان کی زبان سے ظاہر ہونے لگی اور وہ ایسی باتیں مسلمانوں سے کہنے لگے جس سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا کیا جاسکتا تھا یا ان کے حوصلوں کو پست کیا جاسکتا تھا۔ لیکن مسلمان اب چونکہ منافقین کی طرف سے کھٹک گئے تھے اس لیے ان کے بقیہ لوگ اپنے نفاق کے اظہار میں بڑے محتاط ہوگئے۔ وہ بات کہتے تھے لیکن الفاظ میں لپیٹ کر۔ وہ خود تو اپنے دلوں میں ابھی تک جاہلیت کے خیالات بسائے ہوئے تھے اور یہی وہ خیالات تھے جو درحقیقت ان کے نفاق کا سبب تھے۔ چناچہ انھیں خیالات کو وہ الفاظ میں لپیٹ کر آہستہ آہستہ مسلمانوں میں پھیلانے کے درپے تھے۔ انھوں نے پہلی بات مسلمانوں سے یہ کہی : کیا ہمارا بھی اس کام میں کچھ دخل ہے ؟ یعنی جنگ کے معاملات پیش آتے ہیں، اس کے لیے تدبیریں طے کی جاتی ہیں۔ مناسب تیاریاں ہوتی ہیں باہمی مشورے ہوتے ہیں، دشمن سے عہدہ برآ ہونے کی منصوبہ سازی کی جاتی ہے۔ لیکن ہمیں تو کسی معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔ ہمیں تو پوچھا ہی نہیں جاتا کہ ہم یہ کام کریں یا نہ کریں۔ لیکن جب کوئی ناگوار صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کا خمیازہ ہمیں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کے جواب میں پروردگار نے فرمایا : اے پیغمبر ان سے کہو ! مسلمانوں کے معاملات کے سارے اختیارات تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ کا نبی ہمیشہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور مسلمان انھیں فیصلوں کے پابندہوتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ درحقیقت یہ منافق دبی دبی زبان میں جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ وہ بات نہیں جو وہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ وہ اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے ہمارا مشورہ قبول کیا ہوتا کہ مدینہ ہی میں رہ کر مدینہ کا دفاع کیا جائے تو یہ جو آج ستر لاشے پڑے دکھائی دیتے ہیں یہ یہاں آکر اس طرح قتل نہ ہوتے۔ یہاں ان کا قتل ہونا سراسر بےتدبیری کا نتیجہ ہے اور ہماری بات نہ ماننے کا خمیازہ ہے۔ یہ چونکہ سراسر ایک عقیدے کا معاملہ ہے اس لیے قرآن کریم نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کسی شخص کو کب مرنا ہے اور کس سرزمین میں اس کی موت آئے گی اس کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کے سوا اس سے کوئی واقف نہیں۔ جن کے بارے میں یہ طے ہوچکا کہ ان کی موت احد کے دامن میں آئے گی وہ گھر بھی بیٹھے ہوتے تو موت انھیں احد کے دامن میں خود لے آتی۔ کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ سے لوگ خیریت سے گھر واپس آجاتے ہیں اور گھر میں بیٹھنے والے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس نے زندگی بھر کبھی کسی جگہ کا نام بھی نہیں سنا، حالات ایسے ہوجاتے ہیں کہ حالات کا الٹ پھیر اسے وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں اس کی موت اس کے انتظار میں ہوتی ہے اور وہاں کی مٹی اس کا مدفن بننے والی ہوتی ہے۔ یہ عقیدہ کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسی وقت آئے گی جب اسے منظور ہوگا یہ اتنی بڑی قوت ہے جو انسان کو موت کے سامنے سپرانداز ہونے سے بچاتی ہے۔ وہ موت کو اللہ کا حکم سمجھتا ہے اور جانے والے کو اس کی امانت۔ اس لیے نہ اسے خوف لاحق ہوتا ہے اور نہ اس کے اندر شکایت پیدا ہوتی ہے۔ ایک نومسلم انگریز نے اپنے ایمان لانے کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : ایک بڑے میاں میرے پاس ملازم تھے ایک دن اس کی بیوی فوت ہوگئی۔ میں دوسرے دن افسوس کرنے گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ بڑے ادب واحترام سے بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر کتاب بند کرکے میری طرف متوجہ ہوا۔ میں نے افسوس کا اظہار کیا کہنے لگا : صاحب ! افسوس کس بات کا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے زندگی کا بڑاحصہ اسے میرے ساتھ گزارنے کا موقعہ دیا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی محبت اور خدمت سے فائدہ اٹھایا۔ اب اس کی زندگی کا وقت ختم ہوگیا۔ اللہ نے اسے اتنی زندگی دی تھی تو وہ اسے لے گیا۔ مجھے اس کی موت کا دکھ تو ضرور ہے، شکایت نہیں کیونکہ موت اللہ کے حکم سے آتی ہے اور اس کے حکم پر شکایت نہیں کی جاتی، صبر کیا جاتا ہے۔ میں اس کا شکر گزار بھی ہوں کہ ہم اتنے سال اکٹھے رہے اور اب موت آئی ہے تو میں صبر کروں گا تاکہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو۔ یہ نومسلم انگریز کہتا ہے کہ اتفاق یہ ہوا کہ چند مہینے کے بعد اس کا جوان بیٹا مرگیا۔ میں نے سوچا کہ اتنے بڑے صدمے کو برداشت کرنا اس بڑے میاں کے بس کی بات نہیں۔ میں افسوس کے لیے گیا تو دیکھا کہ پھر وہی کتاب پڑھ رہا ہے۔ میں نے افسوس کیا تو کہنے لگا کہ صاحب میرا بیٹا اللہ کی امانت تھا۔ جب تک وہ میرے پاس رہا میں نے اس کی زندگی اور اس کی خدمت سے فائدہ اٹھایا اب اللہ کو منظور ہوا تو وہ اپنی امانت واپس لے گیا۔ مجھے اس پر کوئی شکایت نہیں مال والا اپنا مال واپس لے جائے تو شکایت کیسی۔ میں صبر کروں گا تاکہ میرے صبر کا صلہ مجھے ملے۔ وہ لکھتا ہے کہ اللہ کی شان چند مہینوں کے بعد اس کے مرنے والے بیٹے کا ایک ہی بچہ تھا جو وہ پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ وہ بھی مرگیا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب یہ بوڑھا زندہ نہیں رہ سکتا یا تو اس کا دل فیل ہوجائے گا اور یا یہ خودکشی کرلے گا کیونکہ ہمارے یہاں کبھی کوئی شخص اتنے صدمے برداشت نہیں کرتا۔ میں اس کے پاس افسوس کرنے گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس پر مایوسی کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ بڑے آرام سے بیٹھا وہی کتاب پڑھ رہا تھا جو ہمیشہ میں اسے پڑھتا دیکھتا تھا اور وہی باتیں کہہ رہا تھا جو اس سے پہلے کہتا تھا۔ میں نے اس سے حیرانی سے پوچھا کہ تمہیں یہ باتیں کس نے سکھائی ہیں اور تمہیں یہ حوصلہ کون دیتا ہے ؟ یہ تو حیران کن قوت ہے جو تمہارے اندر کام کررہی ہے۔ اس نے کہا : صاحب ! یہ باتیں مجھے میری اس کتاب نے سکھائی ہیں جس کا نام ” قرآن مجید “ ہے۔ یہ کتاب ہمارے پیغمبر پر نازل ہوئی تھی۔ اسی سے ہم عقیدہ لیتے ہیں اور یہی ہماری زندگی کی رہنما ہے۔ کہا : میں نے اس سے وہ کتاب لے لی اس کا ترجمہ منگوا کر پڑھاتو میری دنیا بدل گئی اور میں نے اسلام قبول کرلیا۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور موت کے بارے میں اسلام کا دیا ہوا یہ عقیدہ کہ وہ سراسر اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ اللہ کے حکم سے پہلے نہیں آسکتی، اس کا ایک وقت اور ایک جگہ مقرر ہے، نہ وہ وقت سے پہلے آسکتی ہے اور نہ اس کی جگہ بدل سکتی ہے، مسلمانوں کی قوت کا اصل سرچشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ احد جیسے حالات میں مبتلا فرماکران تمام خیالات باطلہ اور فاسد عقائد کی اصلاح فرمادی جو انسانی زندگی اور مسلمان کے ایمان کے فساد کا باعث بن سکتے ہیں تاکہ آئندہ کبھی مسلمان اس طرح کی کمزوری میں مبتلا نہ ہو۔
Top