بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی ! اللہ سے ڈریں اور کفار اور منافقین کی باتوں پر کان نہ دھریں، بیشک اللہ علیم اور حکیم ہے
یٰٓـاَیُّـھَاالنَّبِیُّ اَتَّقِ اللّٰہَ وَلاَ تُطِعِ الْـکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰـفِـقِیْنَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا۔ وَّاتَّبِعْ مَایُوْحٰٓی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۔ وَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً ۔ (الاحزاب : 1 تا 3) (اے نبی ! اللہ سے ڈریں اور کفار اور منافقین کی باتوں پر کان نہ دھریں، بیشک اللہ علیم اور حکیم ہے۔ اور پیروی کیجیے اس چیز کی جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وحی کی جارہی ہے، اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ اور اللہ پر توکل کیجیے اور اللہ وکیل ہونے کے لیے کافی ہے۔ ) خطاب کا پس منظر اور اس کا مفہوم ان آیات کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی ہیں جب حضرت زید ( رض) حضرت زینب ( رض) کو طلاق دے چکے تھے۔ یہ نکاح چونکہ آنحضرت ﷺ کی خصوصی توجہ اور اصرار کی وجہ سے ہوا تھا جبکہ حضرت زینب ( رض) بھی اس سے ناخوش تھیں اور ان کا خاندان بھی اس پر راضی نہ تھا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے حکم کی وجہ سے وہ سب لوگ اس پر راضی ہوگئے۔ طلاق سے حضرت زینب کی شخصیتِ عرفی کو بہت دھچکا لگا اور ان کے خاندان کو بھی شدید صدمہ ہوا۔ اور آنحضرت ﷺ کو بھی اس سے نہایت رنج پہنچا۔ کیونکہ آپ ﷺ یہ محسوس فرما رہے تھے کہ میرے اصرار اور حکم کی وجہ سے یہ نکاح ہوا تھا، اس لحاظ سے اس تمام صورتحال کا میں ذمہ دار ہوں۔ آپ ﷺ چاہتے تھے کہ کسی طرح اس کا تدارک کیا جائے۔ اس کی ایک ہی صورت تھی کہ آپ ﷺ خود حضرت زینب ( رض) سے نکاح کرلیں۔ اس طرح سے ان کی دلجوئی بھی ہوجائے گی، خاندان کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑی دینی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی۔ وہ یہ کہ تبنیت یعنی منہ بولے بیٹے کا رشتہ عرب میں جو اہمیت اختیار کرچکا تھا اور جس کی وجہ سے بہت سے مفاسد پیدا ہورہے تھے جن کا تعلق نظام میراث کی شکست سے بھی تھا اور نظام اخلاق میں درآنے والی خرابیوں سے بھی، اس کا سدباب ہوجائے گا۔ چونکہ صدیوں سے اہل عرب میں یہ رسم رائج تھی، اس لیے نصیحت یا حکم کے ذریعے اس کا ختم ہونا ممکن نہ تھا۔ حتمی طور پر اس کے خاتمے کی ایک ہی صورت تھی کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے خود اس رسم کو توڑیں۔ حضرت زینب ( رض) کو طلاق ہوجانے کے بعد قدرت نے یہ موقع پیدا کردیا تھا کہ حضرت زید ( رض) چونکہ آپ کے متبنیٰ رہ چکے ہیں اور ان کی بیوی عرب روایت کے مطابق آپ کی بہو کا درجہ رکھتی ہے۔ اب جبکہ زید اسے طلاق دے چکے ہیں تو آپ کے نکاح کرنے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا۔ اور اس کی بیوی حقیقی بہو کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس لیے اس سے نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اس طرح سے امید کی جاسکتی ہے کہ اس رسم کو بیخ و بن سے اکھاڑا جاسکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کے لیے اشارے بھی کیے جارہے تھے۔ لیکن آنحضرت ﷺ یہ محسوس کرتے تھے کہ جنگ احد کے بعد مسلسل دو سالوں میں قدم قدم پر جس طرح کفار اور منافقین نے مسلمانوں کے مقابلے میں زک اٹھائی ہے اس کی وجہ سے وہ حسد اور بغض میں جل رہے ہیں۔ نکاح کرنے سے انھیں پر اپیگنڈا کرنے اور دل کے پھپھولے پھوڑنے کا ایک موقع مل جائے گا۔ اس سے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اور جن نومسلموں میں ابھی تک صلابتِ فکر اور عمل میں پختگی پیدا نہیں ہوئی۔ وہ شکوک و شہبات کا شکار ہوجائیں گے۔ اس سے اسلام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ چناچہ اس پس منظر میں آنحضرت ﷺ کو نبی کے لفظ سے خطاب فرما کر آپ کے فریضہ منصبی کی یاد دہانی کرائی جارہی ہے۔ یعنی آپ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں۔ آپ کا کام اندیشہ ہائے دوردراز کا لحاظ کرنا نہیں بلکہ اس منصب کی ادائیگی کی فکر کرنا ہے جس کے لیے آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، کسی اور سے ڈرنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے اور ویسا ہی خطاب ہے جیسا سورة المائدہ میں ایسے ہی پس منظر میں کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے : یٰٓـاَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ” اے رسول آپ اچھی طرح لوگوں کو وہ چیز پہنچا دیں جو آپ کے رب کی جانب سے آپ پر اتاری گئی ہے۔ “ آپ ﷺ کے اقدام سے چونکہ دور جاہلیت کی صدیوں پرانی رسم اپنی موت سے دوچار ہوگی تو اس کے نام لیوا یقینا مدافعت کے لیے ہر ممکن تدبیر بروئے کار لائیں گے۔ آپ کی ذات کو ہدف طعن بنایا جائے گا اور آپ جس دین کے پیغمبر ہیں اس پر بھی طعن کیا جائے گا۔ آپ ان کفار اور منافقین کی کسی بات پر کان نہ دھریں، اگرچہ بظاہر مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت اس رسم کو نہ چھیڑا جائے، آئندہ چل کر کسی مناسب وقت پر اس سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ بات ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ علم اور حکمت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ فتنہ انگیزی کرنے والے کیا کچھ کریں گے اور آپ کی مخلصانہ کاوشیں جس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی وحی کام کررہی ہے کیسے برگ و بار پیدا کریں گی۔ نبی کے لفظ سے خطاب جس طرح فریضہ منصبی کی یاددہانی ہے، اسی طرح بلاشبہ آنحضرت ﷺ کے مقام و مرتبہ کا اظہار بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جو خصوصی تعلق آپ سے رکھتے ہیں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔ گزشتہ انبیائے کرام کو جابجا نام لے کر خطاب فرمایا گیا ہے، لیکن آنحضرت ﷺ کو ہمیشہ کسی خصوصی صفت یا خصوصی لقب سے یاد فرمایا گیا ہے، جس سے بتانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کے لیے سب سے زیادہ تقرب کے مراتب ہیں۔ اور آپ ﷺ کے لیے تعظیم و تکریم کا ایک خصوصی مقام ہے۔ اس آیت کریمہ میں کفار اور منافقین کا ذکر ایک ساتھ فرمایا گیا ہے۔ اس سے شاید یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ دونوں درحقیقت ایک ہی راستے کے مسافر اور ایک ہی منزل کے شن اور ہیں۔ اسلام دشمنی میں دونوں ایک دوسرے کے معاون اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک سامنے آکر وار کرتا ہے، دوسرا گھات لگا کر پس پشت حملہ کرتا ہے۔ کافر انکار بھی کرتا ہے اور دشمنی بھی۔ منافق بظاہر اقرار کرتا ہے، لیکن دشمنی میں کافر سے کم نہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے ان کی سزا کو سب سے زیادہ شدید بتایا ہے۔ گزشتہ مضمون کا تسلسل مثبت انداز میں پہلی آیت میں جو بات منفی انداز میں فرمائی گئی ہے پیش نظر آیت میں اسے مثبت پہلو سے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کا کام پر اپیگنڈے سے متاثر ہونا اور لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا نہیں بلکہ آپ کے ہاتھ میں وحی الٰہی کی مشعل ہے۔ آپ کو صرف اس کی روشنی میں چلنا اور دوسروں کو چلانا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ اطمینان بھی دلایا کہ آپ کے ہر اقدام و عمل سے اللہ تعالیٰ پوری طرح باخبر ہے۔ حتی کہ آپ اس راستے میں جن خطرات سے دوچار ہوں گے یا فتنہ انگیزوں کی جس فتنہ انگیزی سے آپ کو واسطہ پڑے گا اور یا پر اپیگنڈا کرنے والوں کی اڑائی ہوئی دھول آپ کے لیے پریشانی کا باعث بنے گی تو اس راستے میں آپ جیسی استقامت دکھائیں گے اور آپ کے ساتھ چلنے والے جس طرح کی ہمت کا مظاہرہ کریں گے ان میں سے کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں۔ اس سے مزید برآں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ سے واحد کا خطاب درحقیقت امت کے وکیل کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ اور جمع کا خطاب آپ کے معزز سرفروش ساتھیوں کو ان انعامات میں شریک کرنے کے لیے کیا جاتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے طفیل ان خوش نصیبوں کو بھی نصیب ہوں گے۔ آیت میں توکل کا مفہوم تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے شاید اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ چونکہ علم و حکمت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کی طرف سے اترنے والی وحی اسی سرچشمہ سے اترنے والی کرنیں ہیں جو مسلسل آپ کے دل پر اتاری جارہی ہیں۔ تو آپ کو کسی اور طرف دھیان دینے کی بجائے نہایت دلجمعی کے ساتھ وحی الٰہی کی روشنی میں سفر جاری رکھنا چاہیے۔ اور دوسرا شاید اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ تبلیغ و دعوت کا راستہ جان جوکھوں میں ڈالنا ہے۔ اس راستے پر چلنے والا ہمیشہ مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔ قدم قدم پر مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مخالفتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے آپ کو صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ وہ آپ کے ہر عمل کو بھی دیکھ رہا ہے اور پیش آنے والی مشکلات کو بھی جانتا ہے اور وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ آپ اسی کے عائد کردہ فریضے کو سرانجام دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس لیے ممکن نہیں کہ وہ آپ کو بےسہارا چھوڑے۔ اس لیے آپ کا بھروسا اسی پر ہونا چاہیے۔ وہی ذات ہے جو وکیل بننے کے لیے کافی ہے۔ وکیل اسے کہتے ہیں جس پر پورا اعتماد کرکے اپنے معاملات اس کے سپرد کردیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ اپنے بندوں سے یہی ہے کہ وہ اس کے دیے ہوئے احکام کی ہرحال میں تعمیل کریں۔ اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ اس راہ میں جو مشکلیں پیش آئیں گی ان سے عہدہ برآ ہونے کی وہی توفیق بخشے گا۔
Top