Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 14
قُلِ اللّٰهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهٗ دِیْنِیْۙ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهَ اَعْبُدُ : میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهٗ : اسی کے لیے دِيْنِيْ : اپنی عبادت
کہہ دیجیے میں تو اللہ ہی کی بندگی کروں گا، اللہ ہی کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے
قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّـہٗ دِیْنِیْ ۔ فَاعْبُدُوْا مَاشِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ ط قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ ط اَلاَ ذٰلِکَ ھُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ۔ (الزمر : 14، 15) (کہہ دیجیے میں تو اللہ ہی کی بندگی کروں گا، اللہ ہی کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ تم اس کے سوا جس کی چاہو بندگی کرو، کہہ دیجیے بیشک حقیقی خسارے میں پڑنے والے وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو قیامت کے دن خسارے میں ڈالا، خوب سن لو کہ کھلا ہوا خسارہ وہی ہے۔ ) اعلانِ براء ت اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ نہایت واضح الفاظ میں مخالفین سے بےتعلقی کا اعلان کردیجیے کہ میں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کروں گا، اسی کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ یعنی میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا کہ عبادت میں کسی کو شریک کروں یا کسی کی غیرمشروط اطاعت کروں یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کسی دوسری اطاعت کی آمیزش ہونے دوں۔ یہی بات میں تم سے بھی کہہ رہا ہوں لیکن تم اگر اسے مان کے نہیں دے رہے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی چاہو بندگی کرتے پھرو، میں تمہارے اس فعل سے براءت کا اعلان کرتا ہوں۔ البتہ ایک بات تم پر واضح کیے دیتا ہوں کہ اصل نقصان اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نقصان میں ڈال دیا۔ یہ وہ کھلا ہوا خسارہ ہے کہ جس سے بڑا خسارہ اور نقصان اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ خسارہ دراصل اس دیوالہ کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ اپنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ برآ نہ ہوسکے۔ اسی نقصان کے لیے یہاں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ انسان کی زندگی، اس کی عقل، اس کا شعور، اس کی تمام صلاحیتیں اور اس کے پاس موجود تمام ذرائع، یہ درحقیقت وہ سرمایہ ہے جسے وہ حیات دنیا کے لیے کاروبار میں لگاتا ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ سارا سرمایہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور بخشش ہے۔ اسی نے ہر شخص کو پیدا کیا اور اسی نے یہ سارا سرمایہ ہر شخص کو عطا کیا۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر اس سرمائے کو حیات دنیا کے کاروبار میں لگاتا ہے کہ میں ایک خود رو پودے کی طرح خودبخود وجود میں آگیا ہوں میرا کوئی خالق ومالک نہیں، مجھے کسی کے سامنے جواب دہی کے لیے پیش نہیں ہونا اور زندگی کے اعمال کا مجھ سے کوئی محاسبہ نہیں ہوگا اور اگر بالفرض قیامت ایک حقیقت ثابت ہوئی تو جن کو میں نے اپنا سفارشی سمجھ رکھا ہے وہ میری سفارش کریں گے اور مجھے بچا لیں گے۔ تو یہ وہ شخص ہے جس نے اپنا سرمایہ غلط مفروضوں پر لگایا اور اپنے لیے خسارے اور نقصان کا سامان کیا۔ جن لوگوں کو اس نے ان مفروضوں میں شامل رکھا ان کے خسارے کا بھی باعث بنا۔ اور اپنے ان ہی تصورات کی بنا پر وہ جن جن لوگوں پر ظلم کرتا رہا اور بےلگام ہو کر اپنے نفس اور اپنی صلاحیتوں پر بھی زیادتی کرتا رہا اور اس نے زندگی بےہنگم طریقے سے ان راہوں پر گزاری جو سراسر تباہی کے راستے تھے۔ اس طرح سے اس نے نہ صرف اپنے آپ کو تباہ کیا بلکہ اور بھی بیشمار لوگوں کے لیے خسران کا باعث بنا۔ تو یہ ہے وہ خسرانِ مبین جسے قرآن کریم نے یہاں بیان فرمایا۔ اور مزید ایک بات اس آیت کریمہ میں یہ بھی فرمائی گئی ہے کہ اگر اس نے اپنی زندگی اور اپنی صلاحیتوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی بنیاد پر اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال کو بھی شریک کیا اور بگاڑا اور وہ بھی ان ہی تصورات کے وارث ٹھہرے جن تصورات نے اس کی زندگی کو تباہ کیا۔ تو اس شخص نے نہ صرف اپنا نقصان کیا بلکہ اپنی اولاد اور اپنے پسماندگان کو بھی تباہی کے راستے پر ڈالنے کی وجہ سے ان کا بھی نقصان کیا۔ اس لیے اسے قیامت کے دن نہ صرف اپنے حوالے سے جواب دینا پڑے گا بلکہ جن جن کی تربیت کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر تھی ان کے لیے بھی جواب دہی کرنا پڑے گا۔ اس طرح سے اس کے خسران اور نقصان میں اضافے پر اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ تو اس خسران کو خسرانِ مبین کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
Top