Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 63
كَذٰلِكَ یُؤْفَكُ الَّذِیْنَ كَانُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
كَذٰلِكَ : اسی طرح يُؤْفَكُ : الٹے پھرجاتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کا يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے ہیں
اسی طرح وہ لوگ بھی اوندھے ہوجاتے رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے تھے
کَذٰلِکَ یُؤْفَـکُ الَّذِیْنَ کَانُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ۔ (المؤمن : 63) (اسی طرح وہ لوگ بھی اوندھے ہوجاتے رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ ) قوموں کی دیرینہ بیماری آنحضرت ﷺ کی دعوت کے مخالفین کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ حق سے انحراف اور اس راہ میں سیدھی سادھی باتیں ماننے سے بھی گریز آج کی نئی بیماری نہیں بلکہ یہ وہ پرانا مرض ہے جس کا شکار قدیم زمانے کی قومیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ جو سبب ان کی بیماری کا تھا، وہی آج بھی ہے۔ وہ بیماری یہ ہے کہ انسان جب اتباعِ ہویٰ کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ ہر بات کو خواہشِ نفس کے آئینہ میں دیکھتا ہے۔ وہ ہر بات کا مشورہ عقل سے نہیں بلکہ نفس امارہ سے لیتا ہے۔ اور وہ عقل کو نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کا خادم سمجھتا ہے۔ تو پھر اس کی عقل مائوف ہو کر رہ جاتی ہے اور نفسانی جذبات اس کی طبیعت پر حکمرانی کرنے لگتے ہیں۔ اس بیماری کے علاج کے لیے پروردگار نے ہمیشہ اپنے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں۔ اور ان کی مدد سے ان کے سامنے زندگی کا صحیح راستہ روشن کیا، لیکن انھوں نے ہدایت کی پیروی کی بجائے ہمیشہ ہوائے نفس کی پیروی کی اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لانے اور اس کی رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں وہ لوگ تباہ ہوگئے۔ آج کے مخالفین نے بھی یہی روش اختیار کی ہے۔ اس لیے ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر انھوں نے اپنی روش نہ بدلی اور ایمان کی بجائے کفر اور انکار پر اڑے رہے تو پھر وہ تباہی سے کبھی نہیں بچ سکیں گے۔ اقبال نے اسی مضمون کو لپیٹتے ہوئے اپنے انداز میں کہا تھا : دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
Top