Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 28
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَجَعَلَهَا : اور اس نے بنادیا اس کو كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً : ایک بات باقی رہنے والی فِيْ : میں عَقِبِهٖ : اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے لَعَلَّهُمْ : شاید کہ وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ آئیں
اور حضرت ابراہیم نے اس کو ایک پائیداد کلمے کی صورت میں اپنے پیچھے چھوڑا تاکہ بعد کے آنے والے اس کی طرف رجوع کریں
وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً م بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ (الزخرف : 28) (اور حضرت ابراہیم نے اس کو ایک پائیداد کلمے کی صورت میں اپنے پیچھے چھوڑا تاکہ بعد کے آنے والے اس کی طرف رجوع کریں۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اعلانِ براءت بعد والوں کے لیے نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس طرح اپنے والد اور اپنی قوم کے سامنے ہر طرح کے شرک سے اظہارِ براءت کرتے ہوئے اپنا گھر بھی چھوڑا اور اپنا شہر بھی۔ یعنی آپ نے ان کے مشرکانہ رویہ سے براءت کا اعلان بھی کیا اور اس کی قیمت ادا کرتے ہوئے اس شہر سے ہجرت بھی کی۔ اور پھر اسے اپنے اخلاف میں ایک پائیداد کلمہ اور ایک مستقل روایت کی شکل میں اپنی تبلیغ و دعوت اور اپنی تربیت سے مسلسل اس کو استحکام بخشا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پوری زندگی جس طرح اس پائیدار کلمہ کی تصویر ہے اس کو تعبیر دیتے ہوئے قرآن کریم نے کہا : اِذْقَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰـالَمِیْنَ ” اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے حضرت ابراہیم سے کہا، اپنا آپ ہمارے سپرد کردو، انھوں نے جواب دیا کہ میں نے سب کچھ رب العالمین کے سپرد کردیا۔ “ یعنی ان کی پوری زندگی میں کسی مشرکانہ بات کی پرچھائیں تک موجود نہیں۔ اسی طرح اس کے بعد قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اسی بات کی وصیت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے کی اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اسی بات پر اپنے بیٹوں کے سامنے زور دیا، بلکہ بیٹوں کا امتحان لیتے ہوئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ میرے بیٹو ! تم میرے بعد کس کی بندگی کروگے ؟ اب اگر ان میں شخصیت پرستی اور انبیائے کرام کی پرستش کا کچھ بھی اثر ہوتا تو یقینا وہ یہ بات کہتے کہ ہم آپ کی پوجا کریں گے، آپ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے۔ لیکن انھوں نے بغیر کسی تردد کے جواب دیا کہ ہم آپ کے اِلٰہ کی پوجا کریں گے۔ اور اس اِلٰہ کی پوجا کریں گے جو آپ کے آبائواجداد کا معبود تھا۔ اور وہ ایک ہی معبود ہے جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوجا اور جس کی پرستش حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے کی وہ سب اسی کے مسلم تھے، ہم بھی اسی کے مسلم رہیں گے۔ یعنی اپنی زندگیاں اس کے سپرد کردیں گے۔ آیت کے آخر میں فرمایا : لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ تاکہ لوگ اختلافات کے وقت اسی کلمہ ٔ باقیہ کی طرف رجوع کریں۔ یعنی زندگی کے ان معاملات میں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے دین اور وحی سے ہے اس میں اپنی عقل، اپنے حواس، اپنا تجربہ، خواہشاتِ نفس، انفرادی اور اجتماعی مفادات، اسلامی شریعت اور وضعی قوانین میں ترجیح کے وقت اور یا اسلامی احکام میں قابل عمل اور قابل ترجیح قرار دیتے وقت ہمیشہ اس کلمہ ٔ باقیہ کی طرف پلٹیں۔ یعنی وہ اس بات پر استقامت کی تصویر بن جائیں کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے سامنے کسی اور تعلیم یا کسی اور کے اقوال کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور نصوص کی تعبیر میں ترجیح کے قابل وہ نقطہ نگاہ ہوگا جسے اجماع کی تائید حاصل ہو۔ اور اجتہادی مسائل میں ان لوگوں کی بات سنی جائے گی جنھوں نے زندگی بھر اسلامی شریعت کو پڑھا، اس پر عمل کیا، اسے اپنی فکر بنایا اور اپنی ہر چھوٹی بڑی وابستگی کو اس پر قربان کردیا۔ یہی وہ چیز ہے جسے قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں فرمایا کہ اگر کسی بھی چیز میں تم میں اختلاف ہوجائے اور چیز سے ظاہر ہے کہ اموردین مراد ہیں تو تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ یعنی قرآن کریم کو دیکھو اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور آپ کی سنت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
Top