Mufradat-ul-Quran - Az-Zukhruf : 28
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَجَعَلَهَا : اور اس نے بنادیا اس کو كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً : ایک بات باقی رہنے والی فِيْ : میں عَقِبِهٖ : اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے لَعَلَّهُمْ : شاید کہ وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ آئیں
اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے تاکہ وہ (خدا کی طرف) رجوع رہیں
وَجَعَلَہَا كَلِمَۃًۢ بَاقِيَۃً فِيْ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝ 28 كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ بقي البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وقد بَقِيَ بَقَاءً ، وقیل : بَقَي في الماضي موضع بقي، وفي الحدیث : «بقینا رسول الله» أي : انتظرناه وترصّدنا له مدة كثيرة، والباقي ضربان : باق بنفسه لا إلى مدّة وهو الباري تعالی، ولا يصحّ عليه الفناء، وباق بغیره وهو ما عداه ويصح عليه الفناء . والباقي بالله ضربان : - باق بشخصه إلى أن يشاء اللہ أن يفنيه، کبقاء الأجرام السماوية . - وباق بنوعه وجنسه دون شخصه وجزئه، كالإنسان والحیوان . وكذا في الآخرة باق بشخصه كأهل الجنة، فإنهم يبقون علی التأبيد لا إلى مدّة، كما قال عزّ وجل : خالِدِينَ فِيها [ البقرة/ 162] . والآخر بنوعه وجنسه، كما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «أنّ ثمار أهل الجنة يقطفها أهلها ويأکلونها ثم تخلف مکانها مثلها» «1» ، ولکون ما في الآخرة دائما، قال اللہ عز وجل : وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص/ 60] ، وقوله تعالی: وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف/ 46] ، أي : ما يبقی ثوابه للإنسان من الأعمال، وقد فسّر بأنها الصلوات الخمس، وقیل : سبحان اللہ والحمد لله والصحیح أنها كلّ عبادة يقصد بها وجه اللہ تعالیٰ وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، وأضافها إلى اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة/ 8] . أي : جماعة باقية، أو : فعلة لهم باقية . وقیل : معناه : بقية . قال : وقد جاء من المصادر ما هو علی فاعل وما هو علی بناء مفعول والأوّل أصح . ( ب ق ی ) البقاء کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اس کا باب بقی ( ض ) بقیا بھی آتا ہے چناچہ حدیث میں ہے یعنی ہم آنحضرت کے منتظر رہے اور کافی عرصہ تک آپ کی نگہبانی میں بیٹھے رہے ۔ الباقی ( صفت ) دو قسم پر ہے ایک الباقی بنفسہ جو ہمیشہ ایک حالت پر قائم رہے اور اس پر گھبی فنا طاری نہ ہو اس معنی میں یہ حق تعالیٰ کی صفت ہے ۔ دوم الباقی بغیرہ اس میں سب ماسوی اللہ داخل ہیں کہ ان پر فناء اور تغیر کا طاری ہونا صحیح ہے ۔ الباقی باللہ بھی دو قسم پر ہے ۔ ایک وہ جو بذاتہ جب تک اللہ کی مشیت ہو باقی جیسے اجرام سماویہ ۔ دوم وہ جس کے افراد و اجزاء تو تغیر پذیر ہوں مگر اس کی نوع یا جنس میں کسی قسم کا تغیر نہ ہو ۔ جیسے انسان وحیوان ۔ اسی طرح آخرت میں بھی بعض اشیاء بشخصہ باقی رہیں گی ۔ جیسے اہل جنت کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گے ۔ جیسے فرمایا : ۔ خالِدِينَ فِيها [ البقرة/ 162] خالدین ( 4 ) جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اور بعض چیزیں صرف جنس ونوع کے اعتبار سے باقی رہیں گی ۔ جیسا کہ آنحضرت سے مروی ہے ان اثمار اھل الجنۃ یقطفھا اھلھا ویاء کلونھا ثم تخلف مکانھا مثلھا : کہ ثمار ( جنت کو اہل جنت چن کر کھاتے رہنیگے اور ان کی جگہ نئے پھل پیدا ہوتے رہیں گے چونکہ آخرت کی تمام اشیاء دائمی ہیں اس لئے فرمایا : ۔ وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص/ 60] اور جو خدا کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف/ 46] میں وہ تمام اذکار و اعمال صالحہ داخل ہیں جن کا ثواب انسان کے لئے باقی رہے ا ۔ بعض نے ان سے پانچ نمازیں مراد لی ہیں ۔ اور بعض نے اس سے یعنی تسبیح وتحمید مراد لی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ ان میں ہر وہ عبادت داخل ہے جس سے رضائے الہی مقصود ہو یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة/ 8] بھلا تو ان میں سے کسی بھی باقی دیکھتا ہے میں باقیۃ کا موصوف جماعۃ یا فعلۃ محزوف ہے یعنی باقی رہنے والی جماعت یا ان کا کوئی فعل جو باقی رہا ہو ۔ اور بعض کے نزدیک باقیۃ بمعنی بقیۃ ہے ان کا قول ہے کہ بعض مصادر فاعل کے وزن پر آتے ہیں اور بعض مفعول کے وزن پر لیکن پہلا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ عقب العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف/ 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام/ 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران/ 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون/ 66] ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف/ 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام/ 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون/ 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ عقبہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا اس کا جانشین ہوا جیسا کہ دبرہ اقفاہ کا محاورہ ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
Top