Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 75
لَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَ هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَۚ
لَا : نہ يُفَتَّرُ : کم کیا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے وَهُمْ : اور وہ فِيْهِ مُبْلِسُوْنَ : اس میں مایوس ہوں گے
اور ان سے عذاب کبھی ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اسی میں مایوس پڑے رہیں گے
لاَ یُفَتَّرُ عَنْھُمْ وَھُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ ۔ (الزخرف : 75) (اور ان سے عذاب کبھی ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اسی میں مایوس پڑے رہیں گے۔ ) اہلِ جہنم کی ابدی مایوسی دنیا میں بڑی سے بڑی سزا بھی وقت کی قید کے ساتھ دی جاتی ہے یعنی یہ شخص اتنے سال جیل میں رہے گا اور یا اسے عمرقید دی جاتی ہے اور وہ بھی چند سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح سزا کی شدت میں بھی آہستہ آہستہ کمی آجاتی ہے۔ جن لوگوں کو بامشقت سزا دی جاتی ہے انھیں مشقت کرتے ہوئے شروع میں ہاتھوں میں چھالے پڑتے ہیں، پھر یہ پھوٹتے ہیں اور پھر وفتہ رفتہ گٹوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اب ان میں وہ شدت نہیں رہتی جو سزا کے آغاز میں ہوتی ہے۔ لیکن قیامت ایک ایسی سزا کی جگہ ہے جس میں نہ تو سزا ہلکی کی جائے گی۔ یعنی نہ اس کی شدت میں کمی آئے گی اور نہ اس کی کمیت میں کمی ہوگی۔ آخرت کی زندگی چونکہ ہمیشہ کی زندگی ہے اس لیے وہاں اس کا کوئی سوال نہیں ہوگا کہ ہم نے اتنے سال جہنم کی سزا کاٹی ہے تو باقی اتنے سال رہ گئے۔ بلکہ وہاں تو علی الاطلاق ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے اس لیے سالوں کی گنتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور رہی سزا کی شدت اس میں بھی زیادہ سے زیادہ آدمی یہ امید کرتا ہے کہ جہنم کی آگ سے میری کھال جل جائے گی تو پھر شاید مجھے موت آجائے اور پھر کھال کے جل جانے سے میری تکلیف کی شدت میں کمی ہوجائے۔ لیکن قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ جب کھال جل جانے کے بعد جھڑ جائے گی تو اللہ تعالیٰ اس مجرم کو نئی کھال پہنا دیں گے تاکہ وہ نئے سرے سے عذاب کا مزہ چکھے۔ اس طرح سے جہنم کا ہر مجرم مایوسی میں مبتلا سزا کاٹتا رہے گا۔
Top