Ruh-ul-Quran - At-Tur : 48
وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ
وَاصْبِرْ : اور صبر کیجیے لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے فیصلے کے لیے فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا : پس بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : اور تسبیح کیجیئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ حِيْنَ : جس وقت تَقُوْمُ : آپ کھڑے ہوتے ہیں
اے پیغمبر آپ صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کیجیے، آپ ہماری نگاہوں میں ہیں، اور اپنے رب کی تسبیح کیجیے اس کی حمد کے ساتھ، جس وقت آپ اٹھتے ہیں
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّـکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔ وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاِدْبَارَالنُّجُوْمِ ۔ (الطور : 48، 49) (اے پیغمبر آپ صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کیجیے، آپ ہماری نگاہوں میں ہیں، اور اپنے رب کی تسبیح کیجیے اس کی حمد کے ساتھ، جس وقت آپ اٹھتے ہیں۔ اور رات کو بھی اس کی تسبیح کیجیے اور ستاروں کے پیچھے پلٹنے کے وقت بھی۔ ) مخالفین کی مخالفت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر کو نہایت دلنواز انداز میں صبر کی تلقین فرمائی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی اشارہ فرمایا ہے کہ صبر کی طاقت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے۔ اور وہ طاقت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تسبیح وتحمید یعنی عبادت ہے۔ پھر تسبیح وتحمید کی مختلف اوقات کے حوالے سے تین ہدایات ارشاد فرمائیں جن میں پہلی ہدایت کی وضاحت میں مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے صاحب تفہیم القرآن نے اسے سمیٹتے ہوئے نہایت احسن طریق سے لکھا : ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کرکے اٹھو۔ نبی کریم ﷺ خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمدوتسبیح کرلیا کریں اس سے ان تمام باتوں کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں۔ ابودائود، ترمذی، نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ ( رض) کے واسطے سے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیل و قال ہوئی ہو، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کردیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم وبحمدک، اشھد ان لا الٰہ الا انت، استغفرک واتوب الیک ” خداوندا، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔ “ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستر سے اٹھو تو اپنے رب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ اس پر بھی نبی کریم ﷺ خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر، سبحان اللہ، والحمدللہ، ولا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولا حول ولا قوۃ الاباللہ۔ (مسند احمد، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت) تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمدوتسبیح سے اس کا آغاز کرو۔ اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جائے : سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالی جدک ولا الہ غیرک۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمدوتسبیح سے اس کا آغاز کرو۔ یہ بھی نبی کریم ﷺ کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمدوثنا سے فرمایا کرتے تھے۔ مفسر ابن جریر نے اس کا ایک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کرکے اٹھو تو نماز پڑھو اور اس سے مراد نماز ظہر ہے۔ اور آخری آیت سے مراد مغرب اور عشاء اور تہجد کی نمازیں ہیں۔ اور تلاوتِ قرآن بھی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی۔ اور ستاروں کے پلٹنے سے مراد رات کے آخری حصہ میں ان کا غروب ہونا اور سپیدہ صبح کے نمودار ہونے پر ان کی روشنی کا ماند پڑجانا ہے، یہ نماز فجر کا وقت ہے۔ اس سے مراد نمازفجر اور اس کی تسبیحات ہیں۔
Top