Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 5
فَسَتُبْصِرُ وَ یُبْصِرُوْنَۙ
فَسَتُبْصِرُ : پس عنقریب تم بھی دیکھو گے وَيُبْصِرُوْنَ : اور وہ بھی دیکھیں گے
پس عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے
فَسَتُبْصِرُوَ یُبْصِرُوْنَ ۔ بِاَیِّـکُمُ الْمَفْتُوْنُ ۔ (القلم : 5، 6) (پس عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔ کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے۔ ) آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی اور مخالفین کے لیے تنبیہ یہ آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی اور مخالفین کے لیے تنبیہ ہے۔ آنحضرت ﷺ سے کہا جارہا ہے کہ اگر یہ لوگ مختلف حربوں سے آپ ﷺ کی دعوت کو بےاثر کرنے کی کوشش میں ہیں اور مختلف طریقوں سے لوگوں کو آپ ﷺ سے بدگمان کرنا چاہتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ شاید یہ اپنے مقصد میں اس طرح سے کامیاب ہوجائیں گے تو آپ ﷺ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔ اپنی تبلیغی مساعی کو جاری رکھئے اور ان کی نامناسب باتوں پر صبر کیجیے۔ وہ وقت دور نہیں کہ ٰآپ کی تبلیغی مساعی کا نتیجہ آپ ﷺ کے سامنے آجائے گا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید مختلف طریقوں سے آپ کی دستگیری کرے گی اور یہ جس طرح رفتہ رفتہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور تباہی و بربادی ان کا مقدر بننے والی ہے اس کے بھی آثار ان کے سامنے ظاہر ہونے لگیں گے۔ آخر ایک وقت آئے گا کہ ہر دیکھنے والی نگاہ اندازہ کرلینے میں دشواری محسوس نہیں کرے گی کہ کون ہیں وہ لوگ جن کی قیادت ایک صاحب نظر کے ہاتھ میں ہے۔ علم و دانش اس کے ہمرکاب چلتے ہیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کا اس پر نزول ہوتا ہے اور وہ کون وہ لوگ ہیں جن کی قیادت کرنے والے حکمت و دانش سے بیگانہ محض چند توہمات اور تعصبات کو سینے سے لگا کر پیغمبر کی تبلیغی کاوشوں کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس طرح سے اپنا اور اپنے پیچھے چلنے والوں کا مستقبل تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ یہاں کفار کو جو دھمکی دی جارہی ہے اس کا تعلق دنیا و عقبیٰ دونوں سے ہے۔ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ پر ایمان لانے والے دنیا میں بھی سرفراز ہوں گے اور آخرت میں بھی کامیاب و کامران ٹھہریں گے۔ اور یہ مخالفین دنیا میں بھی ناکامی کا زخم اٹھائیں گے اور آخرت میں بدترین عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ چناچہ ان آیات کے نزول کے چند ہی سال بعد دیکھنے والوں نے ان دونوں باتوں کو بچشم سر دیکھا۔ جزیرہ عرب مفتوح ہوگیا اور ہر طرف اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا اور کل کے مخالفین اسلام کی آغوش میں آگئے یا اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ بعض اہل علم نے مفتون کا معنی مجنون کرنے کی بجائے مفتون ہی کیا ہے یعنی وہ شخص جو دنیا اور شیطان کے چکر میں پھنسا ہوا ہو۔ میرا ناقص گمان یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے رسول کی موجودگی ان کی تبلیغی مساعی اور ہمدردی اور خیرخواہی کے باوجود جو لوگ ایمان کا راستہ اختیار نہیں کرتے وہ یقینا دنیا کی محبت اور اپنے تعصبات کے فتنے میں مبتلا ہیں۔ شیطان نے ان کے اعمال کو ایسا مزین کرکے ان کے سامنے پیش کیا ہے کہ وہ اس کے سحر سے نجات نہیں پاسکتے۔ یہ کیفیت جس طرح مفتون ہونے پر دلالت کرتی ہے اسی طرح دماغ کی خرابی کی علامت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستے پر شیطان کے راستے کو ترجیح دینا، شیطان کا چکر بھی ہے اور دماغ کا پھیر بھی۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ مفتون اور مجنون کو نتیجہ کے اعتبار سے یکساں نہ سمجھا جائے۔
Top