Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 43
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ١ۚ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا١۫ وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ١ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ١ؕ وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَنَزَعْنَا : اور کھینچ لیے ہم نے مَا : جو فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینے مِّنْ غِلٍّ : کینے تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِهِمُ : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں وَقَالُوا : اور وہ کہیں گے الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : جس نے هَدٰىنَا : ہماری رہنمائی کی لِھٰذَا : اس کی طرف وَمَا : اور نہ كُنَّا : ہم تھے لِنَهْتَدِيَ : کہ ہم ہدایت پاتے لَوْ : اگر لَآ : نہ اَنْ هَدٰىنَا : کہ ہمیں ہدایت دیتا اللّٰهُ : اللہ لَقَدْ : البتہ جَآءَتْ : آئے رُسُلُ : رسول رَبِّنَا : ہمارا رب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَنُوْدُوْٓا : اور انہیں ندا دی گئی اَنْ : کہ تِلْكُمُ : یہ کہ تم الْجَنَّةُ : جنت اُوْرِثْتُمُوْهَا : تم اس کے وارث ہوگے بِمَا : صلہ میں كُنْتُمْ : تم تھے تَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
اور ان کے سینے کی ہر خلش ہم نکال دیں گے ‘ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں گے ! تعریف ہے اس اللہ کے لیے ‘ جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔ اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ بخشی ہوتی تو ہم تو ہدایت پانے والے نہ بنتے۔ ہمارے رب کے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے۔ ان کو پکارا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے ‘ جس کے تم اپنے اعمال کے صلے میں وارث بنائے گئے ہو۔
ارشاد فرمایا : وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ ج وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا قف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیْ لَوْ لَآ اَنْ ھَدٰنَا اللہ ُ ج لَقَدْ جَآئَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ط وَ نُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ (الاعراف : 43) ” اور ان کے سینے کی ہر خلش ہم نکال دیں گے ‘ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں گے ! تعریف ہے اس اللہ کے لیے ‘ جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔ اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ بخشی ہوتی تو ہم تو ہدایت پانے والے نہ بنتے۔ ہمارے رب کے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے۔ ان کو پکارا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے ‘ جس کے تم اپنے اعمال کے صلے میں وارث بنائے گئے ہو “۔ داخلی احساسات پر اللہ کی نوازش جو لوگ ایمان و عمل کا حق ادا کریں گے اللہ انھیں سب سے پہلے جنت جیسے انعام سے نوازے گا اور پھر جنت میں جانے کے بعد اللہ کی مزید نوازشات ان پر برسیں گی۔ ان نوازشات کا ذکر قرآن و سنت میں مختلف جگہوں پر کیا گیا ہے ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے۔ جنت میں سامانِ ضیافت کے بعد جو سب سے پہلی نوازش کی جائے گی وہ یہ ہوگی کہ ان کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کے بارے میں کوئی خلش ‘ کوئی رنجش یا کوئی بدگمانی ہوگی تو انھیں اس سے پاک کردیا جائے گا۔ یہ اللہ کی بیش بہا نعمت ہے کیونکہ کسی بھی بڑی سے بڑی ضیافت کے شرکاء بیشک اکل و شرب کے حوالے سے ہزاروں نعمتوں سے شاد کام ہو رہے ہوں لیکن وہ ایک دوسرے سے اگر تکدر رکھتے ہیں اور تقریب میں شامل ہو کر بھی ایک دوسرے سے بات کرنا یا ایک دوسرے سے محبت سے پیش آنا اور گھل مل کر تقریب کی مسرتوں سے مسرور ہونا انھیں گوارا نہ ہو تو اس تقریب کی ساری نعمتیں ان کے لیے بےکار ہوجاتی ہیں اس لیے کہ جہاں اچھا کھانا پینا انسان کی ضرورت ہے وہیں خوشی اور مسرت کے دوسرے لوازمات بھی اس کی ایسی ہی ضرورت ہیں بلکہ بعض دفعہ دوسری چیزیں کھانے پینے سے بڑھ کر خوشی کا باعث بنتی ہیں اگر آپ کسی ایسی تقریب میں شامل ہوں جس میں ضیافت کا سامان تو بہت سادہ ہو لیکن وہاں ایسے لوگوں سے آپ کی ملاقات ہوجائے جن کی محبت آپ کے لیے حقیقی مسرت کا باعث ہو تو آپ محسوس کریں گے کہ اس تقریب میں آکر آپ کو حقیقی خوشی حاصل ہوئی ہے اس لیے جب یہ اہل جنت جنت میں پہنچیں گے تو ان کی خوشیوں کو مکمل اور دوبالا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ان پر یہ احسان فرمائیں گے کہ جنت کے شرکاء میں اگر کوئی ایسے لوگ ہوں جنھیں ان سے یا انھیں ان سے کچھ تحفظات ہوں ‘ کچھ بدگمانیاں ہوں یا کچھ ان کی جانب سے طبیعت میں کچھ خلش پائی جاتی ہو ‘ انھیں ان سے ملنا اچھا نہ لگتا ہو اور یا سابقہ زندگی میں کچھ حوادث کے باعث یہ ان سے گھل مل کے باتیں نہ کرسکتے ہوں تو یقینا یہ جنت بھی ان کو حقیقی خوشی نہیں دے سکے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان تمام اہل جنت کو اس طرح کی تمام باتوں سے پاک صاف کر کے جنت میں بھیجیں گے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں جانے والے لوگ جب جنت کی طرف جا رہے ہوں گے تو راستے میں ایک نہر آئے گی۔ اس کا پاکیزہ پانی پینے کے لیے انھیں کہا جائے گا تو جیسے ہی اس کا پانی پئیں گے تو ان کے دل اور ان کے سینے ہر طرح کی ایسی بدگمانیوں سے پاکیزہ ہوجائیں گے۔ اب جب یہ جنت میں جائیں گے تو جن لوگوں سے کوئی ناراضگی رہی ہوگی یہ اسے بالکل بھول چکے ہوں گے اور ایک دوسرے سے پوری محبت اور مسرت سے پیش آئیں گے۔ روایات میں آتا ہے کہ اس آیت کو پڑھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمان اور طلحہ اور زبیر کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا یعنی حضرت عثمان ( رض) کی شہادت کے بعد جس طرح کے واقعات صحابہ میں پیش آئے۔ حتیٰ کہ ان کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں تو واقعات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان واقعات کا سبب بلوائیوں کا ایک مخصوص گروہ تھا جنھوں نے حضرت عثمان غنی ( رض) کو شہید کیا تھا اور وہی لوگ صحابہ میں اختلافات پیدا کرنے حتیٰ کہ جنگوں تک نوبت پہنچانے کا سبب بنے اور جب بھی بات صلح تک پہنچی انھوں نے رات کو چھپ کر جانبین کی فوجوں پر شب خون مار کر لڑائی کی آگ کو بھڑکا دیا اور دونوں طرف کے لوگ یہ سمجھتے رہے کہ دوسرے فریق نے عہد شکنی کی ہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ کیا دھرا ان بلوائیوں کا تھا چناچہ انہی حوادث میں حضرت زبیر اور حضرت طلحہ بھی شہید ہوئے جس کا حضرت علی کو بےحد رنج تھا اسی حوالے سے حضرت علی ( رض) نے یہ بات فرمائی تھی لیکن یہاں ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ دلوں کی یہ بدگمانیاں یا یہ خلشیں جو پروردگار اہل جنت کے دلوں سے نکال دے گا اس کا تعلق ان باتوں سے ہے جنھیں کرنے والوں نے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے نہ کیا ہو بلکہ بعض دفعہ بیخبر ی یا بدگمانی میں ایسا کچھ ہوگیا ہو اور پھر اس کے نتیجے میں طبیعت میں ایک انقباض پیدا ہوا ہو جس کا زندگی میں نکلنے کا موقع نہ آیا ہو تو قیامت کے دن ایسے لوگ اگر جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اس طرح کے احساسات سے پاک فرما دے گا لیکن جو لوگ جان بوجھ کر ایک دوسرے کے حقوق پامال کرتے اور قصداً دوسروں کی دل آزاریاں کرتے ہیں انھیں تو بہرحال اپنے رب کے سامنے جواب دہی کرنا ہوگی البتہ اگر وہ وہاں اپنی نیکیاں دے کر معاف کرانے میں کامیاب ہوگئے تو اللہ تعالیٰ ان سے بھی ایسا ہی سلوک فرمائے گا اور اگر معافی نہ مل سکی تو پھر وہی معاملہ ہوگا جو اللہ کے قانون کا تقاضا ہوگا۔ اہلِ جنت کا جذبہ شکروسپاس باہر کی نعمتیں جو جنت میں رواں دواں ہوں گی ان کا تو کوئی حد و شمار نہیں ہوگا البتہ ان سے محظوظ ہونے کے لیے جو طبعی رکاوٹ پیش آسکتی تھی اللہ جب اسے بھی دور فرما دے گا تو اب مسرتوں کی ایک ایسی بہار چھا جائے گی جس کا تصور بھی دنیا میں کرنا ممکن نہیں۔ خوشیوں کا ایک سیلاب بہہ رہا ہوگا جس کے سوتے سینوں سے پھوٹ رہے ہوں گے لیکن باہر کی فضا کے حوالے سے پروردگار نے صرف ایک بات ارشاد فرمائی کہ اہل جنت کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اس کی حقیقی صورت کیا ہوگی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن دنیا میں بھی ہم جانتے ہیں کہ ایسے محلات بادشاہوں نے بنائے جن کے دائیں بائیں اور نیچے سے بھی نہریں رواں دواں ہوتی تھیں۔ جس کا کسی حد تک نظارہ تاج محل میں کیا جاسکتا ہے جو اگر ایک طرف محلات کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی تھیں تو دوسری طرف وہاں کے مکینوں کے سینوں کو بھی اس طرح خوشی سے بھر دیتی تھیں جیسے یہ نہریں باہر نہیں بلکہ ان کے اندر بہہ رہی ہوں۔ خوشیوں اور مسرتوں کا یہ سیل جب اندر باہر اس طرح بہہ رہا ہوگا تو اہل جنت اس منظر سے مبہوت ہو کر بےساختہ پکار اٹھیں گے کہ تعریف اور شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ورنہ ہم خود اس قابل کہاں تھے کہ جنت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے یہ بالکل اس طرح کا احساس اور ادائے شکر ہے جو کسی طویل اور پر صعوبت سفر کے بعد منزل مقصود پر پہنچنے والا مسافر ادا کرتا ہے۔ آپ ایک ایسے مسافر کو تصور میں لایئے جسے حالات نے کسی طغیانی میں آئے ہوئے دریا کی موجوں کے حوالے کردیا ہے وہ اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لا کر ہاتھ پائوں مارتا ہوا جب ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائے پھر وہ ہانپتا کانپتا ساحل سے جب باہر نکلے تو وہ تو دل میں یہ محسوس کرے گا کہ زندگی تھی جو بچ نکلے اور یہ کرم تھا میرے اللہ کا کہ ساحل نصیب ہوگیا ورنہ آج تو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی کہ اچانک وہ دیکھے کہ ساحل کے ساتھ ہی ایک ایسا نعمتوں سے لدا ہوا باغ ہے جس میں مسرتیں اور شادمانیاں صرف اسی کے لیے سرتاپا انتظار ہیں اب جس طرح اس کی زبان اپنے محسن کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے میں رطب اللساں ہوگی اگر اس کا تصور کیا جاسکے تو کسی حد تک اس آیت کے مفہوم کا ادراک کیا جاسکتا ہے کہ زندگی کا یہ سفر جو نجانے کتنے دریائوں پر مشتمل ہے۔ آدمی ایک دریا پار کرتا ہے تو سامنے دیکھتا ہے کہ ایک اور دریا اس کا راستہ روکے کھڑا ہے اور وہ ہر قدم پر محسوس کرتا ہے ؎ منجدھار میں ہے نائو شکستہ ہیں بادباں کیسے لگیں گے پار ہوا سامنے کی ہے خواہشات کے بیشمار بھنور ہیں جو ایمان کی کشتی کو نگل جانا چاہتے ہیں حوادث کے طوفان ہیں جو نیکیوں کے بادبانوں کو بےکار کیے دے رہے ہیں لیکن جب کشتی کھینے والا ہمت نہیں ہارتا تو توفیق ایزدی اس کو نہ صرف پار لگا دیتی ہے بلکہ ان نعمتوں کا مالک بنا دیتی ہے جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے تو بےساختہ اس کی زبان سے جس طرح شکر کا اظہار ہوگا اس کو کسی حد تک یہاں زبان دی گئی ہے کہ وہ بےساختہ یہ پکارے گا کہ یا اللہ یہ تیری جنت جو میری حقیقی منزل تھی بلکہ جو میرے جد امجد کی وراثت تھی اس لیے آگے اُوْرِثْتُمُوْھَا کا لفظ آرہا ہے جس سے اس وراثت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ میں اس کو کسی طرح حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ الٰہی تیراکرم ہے کہ تو نے اپنے رسول بھیجے وہ تیرا پیغام حق لے کر ہمارے پاس آئے۔ انھوں نے ہمیں خون جگر پی پی کر سمجھایا ‘ ہم گالیاں دیتے تھے وہ دعائیں دیا کرتے تھے ‘ ہم ان کی زندگی کے درپے تھے لیکن وہ ہمیں جنت کا وارث بنانا چاہتے تھے۔ یا اللہ تیراکرم کہ تو نے ہمیں توفیق دی اور ہم تیرے رسولوں پر ایمان لائے۔ اگر تو اپنے رسول حق دے کر نہ بھیجتا تو ہم اس حقیقت کو کیسے پاسکتے تھے پھر تو اگر ہمیں ایمان کی توفیق نہ دیتا تو ہم اس حقیقت سے کیسے بہرہ ور ہوسکتے تھے۔ پھر شرعی احکام پر چلنا خواہشات کے مارے ہوئے لوگوں کے لیے کوئی آسان نہ تھا تو نے ہم پر کرم فرمایا اور ہمیں اس کی ہمت عطا فرمائی یہ تمام مراحل صرف تیری نظر کرم ‘ تیری توفیق اور تیری عنایت سے ہم سر کرسکے ورنہ ہم اس قابل کہاں تھے کہ یہ سب کچھ ہم خود کرسکتے۔ کسی شاعر نے جہاز پر سفر کرتے ہوئے حج کو جاتے ہوئے بےساختہ کہا تھا کہاں میری قسمت عنایت ہے ان کی ‘ سفینے پہ ان کے چلا جا رہا ہوں ہوائوں کی بخشش لیے جا رہی ہے ‘ حرم کی کشش کے مزے پا رہا ہوں یہ اہل جنت بھی ایسے ہی احساسات سے گراں بار ہو کر اللہ کی تعریف میں رطب اللساں ہوں گے اور اس کا شکر بجالائیں گے۔ اللہ کا مزید کرم یہ ہوگا کہ ایک ندا دینے والا ان کو ندا دے گا اور اہل جنت کی خوشیوں کو معراج تکمیل تک پہنچا دے گا کہ اے جنت کے باسیو یہ جنت جس کا تمہیں وارث بنایا گیا ہے یہ یقینا تمہیں اللہ کے فضل و کرم سے ملی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدمات کے صلہ میں پایا ہے اور یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جا رہی ہے اللہ کا فضل و کرم بےسبب نہیں ہوتا اس کا دنیا میں بھی قاعدہ یہ ہے کہ کوئی فصل کاشت کرتا ہے تو اس فصل کو پروردگار بارآور فرماتا ہے ‘ کوئی درخت لگاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پھلوں سے گراں بار کردیتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی آدمی نہ کاشت کرے نہ درخت لگائے تو اس کے گھر میں غلہ بھی آجائے اور پھل بھی اترنے لگیں۔ یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ تم بیشک کاشت کرتے رہتے اگر اللہ نہ چاہتا تو تمہاری محنتیں بےمزد رہتیں۔ تم بیشک گلستاں کھڑے کردیتے لیکن اگر اللہ کو منظور نہ ہوتا تو تمہیں پھل کا ذائقہ چکھنا بھی نصیب نہ ہوتا لیکن اللہ بہت مہربان اور رحم والا ہے وہ کسی کی محنت کبھی ضائع نہیں کرتا تم نے محنت کی تو ہم نے تمہاری محنتوں کو پھل دیا۔ یہ جنت تمہاری محنتوں کا ثمرہ ہے جب اہل جنت یہ سنیں گے کہ جو کچھ ہمیں عطا ہوا ہے اس میں ہماری محنتیں بھی شامل ہیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی مسرتیں اور اس کی خوشیاں کہاں تک پہنچ جائیں گی۔ انسان کبھی یہ توقع نہیں کرسکتا کہ میرے اعمال کو کبھی اللہ تعالیٰ اتنا اونچا کردیں گے کہ وہ جنت کی ابدی بادشاہی کو میرے اعمال کا نتیجہ قرار دے دیں گے۔ اہلِ جنت کے احساس اور پروردگار کی عطا سے ہمارے سامنے ایک حقیقت واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اہل دنیا اور اہل دین میں فرق یہ ہے کہ اہل دنیا کو جو کچھ ملتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے وہ ہر نعمت کے حصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اللہ کے نیک بندوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں اس پر شکر بجا لاتے ہیں۔ جتنے نوازے جاتے ہیں اتنے ہی زیادہ متواضع ‘ رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسن عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقینا بخشے ہی جائیں گے بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتے ہیں۔ اپنے عمل کی بجائے خدا کے رحم اور فضل سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کی بجائے کچھ دینا ہی نہ نکل آئے۔ بخاری اور مسلم دونوں میں روایت موجود ہے کہ حضور نے فرمایا : اعلموا ان احدکم لن یدخلہ عملہ الجنہ ” خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی ‘ الا ان یتغمدنی اللہ برحمۃ منہ و فضل ” الا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے “۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ جو ایمان و عمل کا حق ادا کرنے میں اخلاص کے ساتھ زندگی بھر کوشاں رہا ہو اور اسی حال میں اس کو موت آئی ہو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اسے نہ ڈھانپ لے لیکن اگر کوئی اپنے سارے ایمان و عمل کے باوجود اس غلط فہمی کا شکار ہوجائے کہ اب مجھے اللہ کی رحمت اور اس کے فضل کی کوئی ضرورت نہیں میرا ایمان و عمل کا سرمایہ میری بخشش کے لیے کافی ہے تو یہ ایک ایسی گمراہی ہے جس کا نتیجہ نہایت ہولناک ہوسکتا ہے اسی وجہ سے اللہ کے پیغمبر جو معصوم پیدا ہوتے ہیں اور وہ یقینا بخشے ہوئے ہیں ان کی نظر بھی ہمیشہ اللہ کی بےنیازی پر رہتی ہے اور وہ ہمیشہ اس کی رحمت کے طلب گار رہتے ہیں۔ اس طرح اگر کوئی آدمی محض فضل و کرم کی امید پر عمل سے بیگانہ ہوجائے اور بڑی جسارت سے احکامِ شریعت کو توڑے اور توجہ دلانے پر بھی یہ عذر پیش کرے کہ اللہ بہت غفور الرحیم ہے اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم میں ایک ہی جگہ دونوں باتیں فرمائی گئی ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں غفور الرحیم ہوں اور یہ بھی خبر دے دو کہ میرا عذاب ‘ عذاب الیم ہے کہ اگر تم ایمان و عمل کا سرمایہ لے کر آئو گے تو مجھے غفور الرحیم پائو گے اور اگر شریعت سے لاپرواہی برتو گے پھر تمہیں میرے غضب کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ ظفر علی خاں نے ٹھیک کہا ؎ نہ جا اس کے تحمل پر کہ بےڈھب ہے گرفت اس کی ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا اگلی آیت کریمہ میں سابقہ آیت کے سیاق کلام کے مطابق اہل جنت کی جانب سے مزید خوشیوں کا اظہار ہے اور پروردگار کی طرف سے عطا و بخشش میں افزونی ہے۔
Top